کشمیر: سرینگر میں چند گھنٹوں کی نرمی کے بعد پھر ’لاک ڈاؤن‘


انڈیا کے زیرِ انتظام کشمیر میں تقریباً ایک ہفتے سے جاری سکیورٹی لاک ڈاؤن میں اتوار کو عیدالاضحیٰ سے ایک دن قبل کچھ دیر کے لیے نرمی کی گئی تاہم جلد ہی سرینگر کے مختلف علاقوں میں سڑکوں کو رکاوٹیں کھڑی کر کے دوبارہ بند کر دیا گیا ہے۔

حکومت نے سرکاری ملازمین کو بھی حکم دیا ہے کہ وہ فوری طور پر اپنی ‘ڈیوٹی پر حاضر ہو جائیں اور کرفیو کا بہانہ نہ کریں کیوں کہ کرفیو نافذ نہیں ہے۔’

سنیچر کو حکومت نے عید کا حوالہ دیتے ہوئے کہا تھا کہ سکیورٹی میں نرمی کی جائے گی۔ اتوار کی صبح کئی علاقوں میں نرمی کی بھی گئی جس کے بعد بعض سڑکوں پر ٹریفک جام بھی دیکھا گیا اور لوگ زیادہ تر روزمرہ کی اشیائے ضروریات کی خریداری کرتے نظر آئے۔

یہ بھی پڑھیے

انڈیا کے زیرِ انتظام کشمیر کی خصوصی حیثیت کا خاتمہ: تفصیلی کوریج

’میں اپنے بیٹے کو بھی بندوق اٹھانے کے لیے تیار کروں گا`

کیا کشمیر واقعی ’خوبصورت قید خانہ‘ ہے؟

ایسا لگ رہا تھا کہ عید کی وجہ سے حالات میں نرمی کے نتیجے میں شہریوں کی نقل و حرکت جاری رہے گی لیکن ایسا نہیں ہوا اور اتوار کو 12 بجے کے قریب پھر سے رکاوٹیں کھڑی کر دی گئیں اور ٹریفک کو متبادل راستوں کی جانب موڑ دیا گیا۔

جو تھوڑی بہت نرمی کی گئی تھی اسے ختم کر دیا گیا لیکن مواصلات کا نظام بند ہونے کی وجہ سے معلوم نہیں ہو سکا کہ آیا کہیں کوئی واقعہ پیش آیا ہے یا خدشات کے پیش نظر نرمی ختم کر دی گئی ہے۔ لیکن حکومت کا اصرار یہی ہے کہ حالات قابو میں اور پرامن ہیں۔

کیا عید کی نماز کی اجازت دی جائے گی؟

سرینگر میں تو تاریخی طور پر تو جامع مسجد میں عید کا اجتماع ہوتا ہے اگر وہاں نہیں تو عید گاہ میں ہوتا ہے جبکہ مختلف ضلعوں کے بڑے میدانوں میں عید کی نماز ہوتی ہے۔

سرکاری طور پر ابھی اس بارے میں کچھ نہیں کہا گیا لیکن بعض اہلکاوں نے بتایا ہے کہ بڑی عید گاہوں میں بڑے اجتماعات کی اجازت نہیں دی جائے گی اور لوگ گلی محلوں کی مسجدوں میں نماز ادا کر سکیں گے۔

حکام کو یہ خدشہ رہتا ہے کہ ایسے اجتماعات کے بعد لوگ مظاہروں کے لیے نکلتے ہیں اس لیے سکیورٹی اہلکاوں کی بھاری نفری تعینات رہے گی۔

سیاسی رہنما ہوٹل میں قید

ایک مقامی ہوٹل جہاں کبھی انٹرنیشنل کانفرنسز منعقد ہوتی تھیں اسے سب جیل قرار دے دیا گیا ہے اور وہاں بڑی تعداد میں سیاسی رہنماؤں کو نظربند کیا گیا ہے۔

ان رہنماؤں میں علیحدگی پسند اور ہند نواز رہنما دونوں شامل ہیں اور فی الحال عید سے پہلے یا عید کے موقع پر ان کی رہائی کا کوئی امکان نظر نہیں آ رہا۔

لوگوں کے خدشات

لوگوں کے خدشات دن بہ دن بڑھ رہے ہیں کیوں کہ معلومات تک رسائی نہیں ہے اور ہر قسم کی کمیونیکیشن بدستور بلاک ہے جس وجہ سے لوگوں کو اپنے رشتہ داروں کے بارے میں معلومات نہیں ہیں۔

ایک مقامی ہسپتال میں ایک شخص سے بات ہوئی جس کے ہاں چند روز قبل بیٹی کی پیدائش ہوئی ہے لیکن وہ یہ خبر اپنے گھر والوں کو نہیں دے سکا ہے۔

ایسی مثالیں بھی ہیں کہ جن کے والدین حج کے لیے گئے ہیں وہ صرف ان سے بات کرنے کے لیے فلایٹ لے کر دلی جاتے ہیں اور پھر واپس آ جاتے ہیں۔

‘ایک بھی گولی نہیں چلائی گئی’

جموں کشمیر کی پولیس نے یہ بیان جاری کیا تھا کہ حالات قابو میں ہیں اور ایک بھی گولی نہیں چلائی گئی۔ حکومت اور پولیس اہلکاروں کا کہنا ہے کہ گذشتہ چھ سات دنوں میں کوئی ناخوشگوار واقع پیش نہیں آیا۔

تاہم صورہ کے ہسپتال کے ڈاکٹروں نے کہا ہے کہ ان کے پاس ایسے نوجوان آئے ہیں جن کے ’جسم پر چھرے لگے تھے‘ اور ایسی مثالیں بھی بیان کی ہیں جن میں لوگوں کو ’بازو یا ٹانگ پر گولیاں لگی ہوئی‘ تھیں۔

حکومت کا کہنا ہے کہ چھوٹے موٹے واقعات ہو رہے ہیں اور قانون کے تحت پولیس اپنے پروٹوکول کے مطابق ایکشن لے رہی ہے لیکن اس بارے میں کوئی معلومات سامنے نہیں آ رہی ہیں۔

بی بی سی کے عامر پیرزادہ نے جب خود صورہ جا کر ان خبروں کی تصدیق اور زخمیوں سے ملنے کی کوشش کی تو ایسا ممکن نہ ہو سکا۔

ایک راستے پر مظاہرین نے یہ کہہ کر روک دیا کہ انھیں میڈیا پر غصہ ہے کیوں کہ وہ ایسے دکھا رہا ہے جیسے کشمیر میں امن ہے جبکہ دوسرے راستے پر سی آر پی ایف کے اہلکاروں نے آگے جانے نہیں دیا۔

حکومت کہتی ہے کہ سب قابو میں ہے۔ بڑے پیمانے پر تو حالات قابو میں ہیں اور جس طرح کی مزاحمت کا اندیشہ تھا کہ پوری وادی سے لوگ نکلیں گے ایسا نہیں ہوا کیوں کہ آرٹیکل 370 کے خاتمے سے ایک ہفتہ پہلے سے ہی بڑے پیمانے پر فوج کو تعینات کر دیا گیا تھا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32492 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp