دہلی سے سرینگر کی پرواز: ’کشمیر میں عید کی پرواہ کسے ہے؟ ہم تو صرف اپنے اہل خانہ کی خیریت جاننا چاہتے ہیں’


کشمیر

‘ذہن میں یہ خدشات لگاتار موجود ہیں کہ آیا وہاں (کشمیر) سب کچھ ٹھیک ہے یا نہیں‘

بی بی سی ہندی کے نامہ نگار دلنواز پاشا نے حال ہی میں انڈیا کے زیرِ انتظام کشمیر کے شہر سرینگر کا دورہ کیا ہے۔ وہ اس جہاز میں سوار تھے جو دہلی سے سرینگر جا رہا تھا اور اس میں انڈیا سے کشمیر واپس جانے والے کشمیری مسافر سوار تھے۔ وادی میں آج کل معمولات زندگی کیا ہیں اور وہاں کے لوگ موجودہ صورتحال کے بارے میں کیا سوچ رہے ہیں؟ اس بارے میں پڑھیے ان کی یہ رپورٹ۔

طیارہ سفید بادلوں سے گزرتا ہوا زمین کے قریب آتا ہے اور جہاز کی کھڑکی سے حدِ نگاہ تک ہریالی نظر آ رہی ہے۔

پہاڑوں کی چوٹیوں پر موجود گھر چاروں اطراف سے درختوں، سرسبز کھیتوں اور سنسان سڑکوں سے گھرے ہوئے ہیں۔

جہاز سے نیچے دیکھنے پر ہر چیز پرسکون اور بالکل غیر مضطرب دیکھائی دیتی ہیں۔

لیکن اگر آپ طیارے کے اندر نظر دوڑائیں گے تو بے چین چہرے دیکھے جا سکتے ہیں۔ نیچے زمین پر کیا ہو رہا ہے، وہ اس صورتحال کے بارے میں بالکل بے خبر ہیں۔

دہلی سے اڑان بھرنے والی یہ پرواز اب سرینگر پہنچنے والی ہے۔ اگرچہ اس پرواز کا دورانیہ 75 منٹ ہے مگر ان لوگوں کے لیے، جو اپنے پیاروں سے ملنے کے لیے بے قرار ہیں، یہ انتہائی طویل سفر محسوس ہو رہا ہے۔

یہ بھی پڑھیے

’میرا بچہ کہتا ہے بنکر میں دم گھٹتا ہے‘

انڈیا کے زیر انتظام کشمیر کی خصوصی حیثیت کا خاتمہ

’میں اپنے بیٹے کو بھی بندوق اٹھانے کے لیے تیار کروں گا`


چہروں پر بےچینی اور خوف

‘میرے ہینڈ بیگ میں دالیں، کھانے کی اشیا اور دوائیں ہیں۔ کوئی تحفہ نہیں ہے۔ میرے پاس صرف اشیائے خوردونوش اور مشروبات ہیں۔’

‘میں کسی سے بات کرنے کے قابل نہیں ہوں۔ نہ تو اپنی بیوی اور نہ ہی اپنے بچے سے۔ نہ ہی والدین، چچا یہاں تک کہ پوری وادی کشمیر میں کسی سے بھی نہیں۔’

‘میں آپ کو سچ بتاؤں تو میں عید منانے نہیں جا رہا۔ میں اپنے خاندان کے افراد کی خیروعافیت معلوم کرنے جا رہا ہوں۔ میں صرف اس لیے جا رہا ہوں کہ ان کو بتا سکوں کہ میں ٹھیک ٹھاک ہوں اور ایسا اس لیے ہے کیونکہ کشمیر میں ذرائع مواصلات مکمل طور پر منقطع ہیں۔ ایسا محسوسں ہوتا ہے جیسے ہم آج کے دور میں نہیں بلکہ تاریک دور (قرون وسطی) میں جی رہے ہیں۔’

’ذہن میں یہ خدشات لگاتار موجود ہیں کہ آیا وہاں (کشمیر) سب کچھ ٹھیک ہے یا نہیں۔ اور اس صورتحال کی وجہ سے ہم ٹھیک طرح سے کام کرنے کے قابل نہیں ہیں۔ شدید ذہنی تناؤ ہے اور جب آپ اس کیفیت کا شکار ہوتے ہیں تو دماغ میں برے برے خیالات آتے ہیں۔ ہوسکتا ہے کہ سب کچھ ٹھیک ہو لیکن ہمیں وہاں کی صورتحال کے بارے میں کچھ علم نہیں ہے۔ ہم اپنے خاندان کے افراد کے بارے میں جاننے لے لیے بے چین ہیں۔’

‘میں نے ہزارہا مرتبہ ان سے رابطے کی کوشش کی مگر تمام فون بند ہیں۔ ہر شخص کا فون ایک ہی وقت میں بند نہیں ہو سکتا اور یہی وجہ ہے کہ میں اس سوچ میں پڑ جاتا ہے کہ وہاں کچھ نہ کچھ غلط ہو رہا ہے۔’

کشمیر

آصف دہلی کے اندرا گاندھی ایئر پورٹ سے سرینگر آئے ہیں۔ وہ دہلی میں ایک نجی بینک میں کام کرتے ہیں۔ گذشتہ کئی دنوں سے نہ وہ ٹھیک طرح سے سو پائے ہیں اور نہ ہی کچھ کھا پی سکے ہیں۔

آصف کے چہرے پر تھکن اور مایوسی نمایاں ہے۔ اگر طیارے میں موجود تمام افراد جو دہلی سے سرینگر جا رہے ہیں کے چہروں کو بغور دیکھا جائے تو ان سب کے چہروں پر بےچینی اور خوف انتہائی واضح ہے۔

گذشتہ پیر کو انڈین حکومت نے آرٹیکل 370 کو منسوخ کر دیا تھا اور اپنے زیرِ انتظام کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کر دی تھی۔ حکومت نے ریاستِ کشمیر کو دو حصوں میں منقسم بھی کر دیا تھا۔

لیکن اس اعلان سے قبل حکومت نے وادی کا بیرونی دنیا سے ہر طرح کا رابطہ منقطع کر دیا گیا تھا۔ انٹرنیٹ کے علاوہ موبائل اور لینڈ لائن سروس بھی بند کر دی گئیں۔

ہریانہ کے ایک میڈیکل کالج میں زیرِ تعلیم چار کشمیری طلبا کو اگلے مہینے ہونے والے امتحان کی تیاری کرنی تھی، لیکن اب وہ اپنے گھروں کو واپس جانے کی تگ و دو کر رہے ہیں۔

ان طلبا نے بتایا کہ ‘امتحانات قریب تھے اور ہمیں ان کی تیاری پر توجہ دینی تھی لیکن ذرائع مواصلات بند کردیے گئے۔ ہم اپنے اہل خانہ سے بات نہیں کر سکتے۔ ہم ذہنی طور پر پریشان تھے۔ بہت پریشانی تھی۔ ہم کلاسوں میں جانے یا کچھ اور کرنے سے قاصر تھے۔ ہم وہاں عید منانے نہیں جا رہے ہیں بلکہ اپنے گھر والوں کی خیریت معلوم کرنے جا رہے ہیں۔’

انھوں نے مزید بتایا کہ ‘انڈین میڈیا نے کشمیر کی صورتحال کے بارے میں ہمیں کوئی معلومات نہیں دیں۔ حکومت نے بھی کوئی صحیح معلومات نہیں دیں۔ ہم یہ جاننے میں ناکام رہے کہ وہاں اصل میں کیا ہو رہا ہے۔’

ڈر کی فضا قائم کی گئی تھی

دہلی کی جامعہ یونیورسٹی میں قانون کی تعلیم حاصل کرنے والی شفورا کے سامان اور ہینڈ بیگ میں بھی صرف کھانا اور مشروبات ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ ‘میں بچوں کے لیے کھانا اور دوائیں لائی ہوں۔ چار دن قبل میں نے اپنے اہل خانہ سے بات چیت کی تھی لیکن اس کے بعد سے کوئی رابطہ نہیں ہے۔ مجھے یہ تک نہیں معلوم کہ وہ زندہ بھی ہیں یا نہیں۔’

کشمیر

انھوں نے کہا کہ ‘خوف کی فضا پیدا کی گئی ہے۔ حکومت نے جو کچھ کیا ہے وہ کسی دوسرے طریقے سے بھی کیا جا سکتا تھا۔ ہم گذشتہ ایک سال سے مرکزی حکومت کے ماتحت رہ رہے ہیں۔ بہت سی دوسری ریاستوں کو بھی خصوصی حیثیت حاصل ہے۔ اگر وہ یہ کام دوسری ریاستوں سے شروع کرتے اور پھر کشمیر میں کرتے تو امید کی جا سکتی تھی کہ لوگ اسے قبول کر لیتے ۔ لیکن انھوں نے پہلے یہ کام کشمیر میں کیا، جہاں لوگوں کو مرکزی حکومت پر پہلے ہی کم اعتماد ہے۔ اور یہی وجہ ہے کہ حکومت کا یہ ارادہ مشکوک دیکھتا ہے۔’

شفورا کو معلوم نہیں کہ وہ سرینگر کے ہوائی اڈے پر لینڈنگ کے بعد گھر کیسے پہنچیں گی۔ نہ صرف وہ بلکہ اس طیارے میں سوار کوئی بھی شخص سرینگر میں اپنے اہل خانہ کو اپنی آمد کے بارے میں آگاہ نہیں کر سکا۔

سرینگر کے ہوائی اڈے کے باہر سینٹرل ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کی ایک طالب علم کھڑی ہیں جن کی آنکھوں میں آنسو ہیں۔ ان کا دوپٹہ آنسوؤں سے بھیگ چکا ہے۔ انھیں صوپور نامی علاقے میں جانا ہے مگر وہاں تک پہنچنے کے لیے کوئی سواری دستیاب نہیں ہے۔ اپنے گھر پہنچنے کے لیے وہ کوئی بھی قیمت ادا کرنے کو تیار ہیں مگر پھر بھی کوئی ٹیکسی ڈرائیور وہاں جانے کی حامی نہیں بھر رہا۔

انھیں پریشان دیکھ کر چند نوجوان انھیں اپنے ہمراہ لے جانے کی یقین دہانی کرواتے ہیں۔ یہ نوجوان کپواڑہ جانے کے منتظر ہیں اور وہ وہاں تک کیسے پہنچیں گے اس بارے میں وہ خود بھی بے یقینی کا شکار ہیں۔

کشمیر

سکیورٹی کے ان پریشان کن حالات کے باوجود وہ اپنے گھروں کو کیوں واپس جا رہے ہیں؟ اس سوال کے جواب میں ان کا کہنا ہے کہ ‘ہم نہیں جانتے کہ ہمارے اہل خانہ زندہ بھی ہیں یا نہیں۔ ہم سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر ان کی خیروعافیت جاننے اور ان کے ساتھ رہنے کے لیے آئے ہیں۔’

جب ان سے یہ پوچھا گیا کہ آیا وہ عید منانے آئے ہیں تو ان کا جواب تھا کہ ‘موجودہ حالات کے پیشِ نظر کوئی کیسے عید منا سکتا ہے؟ ہماری ترجیح عید منانا نہیں بلکہ اپنے اہل خانہ کی حفاظت کو یقینی بنانا ہے۔’

چندی گڑھ سے آنے والی ایک طالبہ، جن کی آنکھوں میں آنسو ہیں، نے لرزتی ہوئی آواز میں کہا کہ ‘میرے کالج میں لوگوں نے مجھے بہت تسلی دی لیکن دل ہی دل میں میں بالکل قائل نہیں تھی۔ مجھے اپنے والدین کی کوئی خبر نہیں تھی۔ میں اپنی والدہ سے بات کیے بغیر نہیں رہ سکتی۔ میں اب کالج اس وقت ہی واپس جاؤں گی جب حالات بہتر ہوں گے چاہے میں اپنی تعلیم میں پیچھے ہی کیوں نہ رہ جاؤں۔’

ان کا ایک دوست دہلی سے آیا ہے۔ وہ اپنے ساتھ دوائیں لے کر آئیں ہیں۔ وہ بھی افسردہ ہے اور کہتے ہیں کہ ‘میرے والد ذیابیطس کے مریض ہیں۔ میں ان کی ادویات دہلی سے لے کر آیا ہوں۔ ہم نہیں جانتے کہ یہ صورتحال کب تک جاری رہے گی۔’

سرینگر میں عید کی تیاریاں

ہفتے کے دن سرینگر، جو کہ گذشتہ پانچ روز سے لاک ڈاؤن کی زد میں ہے، میں پابندیوں کو کچھ نرم کیا گیا۔ شہر کے ہر کونے میں قانون نافذ کرنے والے مسلح اہلکار موجود ہیں۔

فوجی گاڑیوں، ماہر نشانے بازوں اور خاردار تاروں کے درمیان کبھی کبھار شہریوں کی چند گاڑیاں بھی دیکھائی دے جاتی ہیں۔

عید قرباں کے لیے ایک نوجوان چند بھیڑیں بیچنے کے لیے لایا ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ ‘یہ عید نہیں ہے۔ یہ ماتم ہے۔ گذشتہ دو دنوں سے ہم نے باہر نکلنا شروع کیا ہے۔ ہم عید کے بعد آرٹیکل 370 کو واپس لاگو کروائیں گے۔ یہ کشمیر ہے۔ یہ ہماری سرزمین ہے۔ ہم اپنی زمین کسی اور کو کیسے دے سکتے ہیں؟’

‘جب بھی مسلمانوں کا کوئی بڑا تہوار قریب آتا ہے تو فسادات اور بدامنی پھیل جاتی ہے۔ انڈیا کو یہ سوچنا چاہیے تھا کہ ہمارا تہوار قریب آ رہا ہے لہذا وہ یہ قدم نہ اٹھائیں۔ قربانی دینا ہمارا فرض ہے لہذا ہم قربانی دیں گے۔ آپ دیکھیں گے کہ دو دن بعد یہاں کیا ہوتا ہے۔’

ایک اور کشمیری نوجوان کا کہنا ہے کہ ‘عید سے قبل سب کچھ بند کر دیا گیا ہے۔ جب ہم ایک دوسرے کو عید کی مبارک نہںی دے سکتے تو پھر عید کا کیا فائدہ!’

وادی میں دیہی علاقوں سے آئے بہت سے چرواہے بھی موجود ہیں جو حالات کی وجہ سے اپنے مویشی فروخت نہیں کر پائے اور شہر بند ہونے کی وجہ سے انہیں کھانے کو کچھ نہیں مل رہا ہے۔

کشمیر

‘جب بھی مسلمانوں کا کوئی بڑا تہوار قریب آتا ہے تو فسادات اور بدامنی پھیل جاتی ہے‘

ایک چرواہے نے بتایا کہ ‘اس مرتبہ کوئی کام نہیں ہے۔ مجھے نہیں لگتا کہ ہم کوئی جانور بیچ پائیں گے۔ سب کچھ بند ہے۔ ہم صبح سے بھوکے ہیں۔’

کشیدگی کے دوران کھلتی دکانیں

کرفیو میں نرمی کے بعد کچھ دکانداروں نے پھل اور سبزیاں بیچنے والے سٹال لگائے ہیں۔ ان کی تصویر لینے کی کوشش کے دوران ایک کشمیری نوجوان نے ہمیں روکا اور کہا ‘آپ دنیا کو یہ کیوں دکھانا چاہتے ہیں کہ سرینگر میں سب کچھ نارمل ہے؟ کشمیری پھل اور سبزیاں خرید رہے ہیں؟’

اس سے پہلے کہ وہ اپنا جملہ پورا کر سکتا کہیں سے ایک پتھر آن گرا ۔ جیسے ہی یہ شور اٹھا کہ پتھراؤ شروع ہو گیا ہے دکاندار اپنی ریڑھیاں لے کر بھاگ نکلے۔

مزید پڑھیے

کیا کشمیر واقعی ’خوبصورت قید خانہ‘ ہے؟

کشمیر میں کلسٹر بم: ’ہماری جان، مال کچھ محفوظ نہیں‘

’انڈیا پاکستان میں تعینات اپنے ہائی کمشنر کو واپس بلا لے‘

ایک بزرگ نے اپنی پوری طاقت سے اپنی ریڑھی آگے بڑھانا شروع کی۔ اسے دیکھ کر یوں گماں ہوا جیسے وادی میں پھیلی کشیدگی کا سارا بوجھ اس بزرگ کے ناتواں پیروں پر پڑ گیا ہے۔

بھاری فوجی موجودگی والے شہر سے نکل ڈل جاتے ہوئے ماحول کچھ نارمل نظر آیا۔ کچھ جگہوں پر گاڑیوں کا ہجوم بھی دیکھا جا سکتا تھا۔

کشمیر

لیکن پورے کشمیر میں کوئی علاقہ ایسا نہیں تھا جہاں ہر سو قدم کے فاصلے پر کوئی مسلح فوجی جوان نہ کھڑا ہو۔

‘کشمیر ایک جیل میں بدل چکا ہے’

ڈل جھیل کے کنارے بیٹھے چند نوجوان حالات کے بارے میں گفتگو کر رہے تھے۔

تیس سال کی کے ایک نوجوان نے کہا کہ ‘دو افراد نے کشمیر کو جیل میں بدلنے کا فیصلہ کیا۔ کشمیری کیا چاہتے ہیں یہ انھوں نے نہ پہلے سنا اور نہ اب سن رہے ہیں۔ ابھی لوگ اپنے گھروں کے اندر بیٹھے ہیں۔ جب وہ باہر نکلیں گے تو دنیا کو پتا چلے کا کشمیری اس فیصلے کے بارے میں کیا سوچتے ہیں ۔’

‘کیا اتنا بڑا فیصلہ لینے سے پہلے کشمیری عوام کو اعتماد میں نہیں لیا جانا چاہیے تھا؟ کشمیریوں کی آواز نہیں سنی گئی۔ یہاں تک کہ منتخب نمائندوں کو بھی قید کر دیا گیا۔’

‘مودی جی کہہ رہے تھے کہ وہ اس تہوار (عید قرباں) کا احترام کرتے ہیں۔ وہ لوگوں کو گھروں میں بند کر کے اس کا احترام کررہے ہیں۔ ہمیں کہا جا رہا ہے کہ عید گھروں میں منائیں۔ دوست اور خاندان کے افراد سے ملے بغیر کوئی کیسے عید منا سکتا ہے؟ دنیا کو بتایا گیا ہے کہ کشمیر میں سب نارمل ہے۔ کیا آپ کو ادھر سب نارمل نظر آ رہا ہے؟’

کشمیر

ایک مایوس نظر آنے والے نوجوان کا کہنا تھا کہ ‘کشمیریوں کو ان کے گھروں میں بند کر دیا گیا ہے۔ ان کے ذہنوں کو بھی تالا لگا دیا گیا ہے۔ کشمیری عوام کے پاس کوئی آپشن نہیں ہے۔ میں بہت عرصے سے ایسا ہوتا دیکھ رہا ہوں۔ کرفیو، بینڈ اور تشدد۔ میں نے کبھی امن نہیں دیکھا۔’

انھوں نے کہا ‘حکومت بندوق کی زور پر کچھ بھی کر سکتی ہے۔ وہ زمین بھی چھین سکتے ہیں۔ جو کچھ یہاں ہو رہا ہے وہ بندوق کی طاقت سے ہو رہا ہے۔ وہ زمین چھین سکتے ہیں لیکن اسے خرید نہیں سکتے۔ لیکن یہ عام لوگوں کے لئے نہیں کیا گیا بلکہ انڈیا کے ان بڑے لوگوں کے لیے جن کے پیسوں سے انڈیا کی حکومت چلتی ہے۔ کشمیریوں یا عام لوگوں کے لیے اس میں کچھ نہیں ہے۔’

طوفان سے پہلے کی خاموشی؟

کچھ نوجوان ڈل جھیل کے پرسکون پانیوں میں کنڈی ڈال کر مچھلیاں پکڑنے میں مصروف ہیں ۔ کیا یہ پھر سے پر امن ہونے جا رہا ہے ؟ انھوں نے اس سوال کا جواب یہ کہتے ہوئے دیا کہ ‘یہ طوفان سے پہلے کا سکوت ہے۔ کشمیر میں طوفان آئے گا۔ عید گزرنے دو۔ کوئی نہیں جانتا کہ یہاں کیا ہو گا۔’

ان کا کہنا تھا کہ ‘ہم ایک طویل عرصے کے لیے کیے جانے والے لاک ڈاؤن کے لیے تیار ہیں مگر ہم کسی کو کشمیر دینے کے لیے تیار نہیں۔ اس کے لیے ہم کبھی تیار نہیں ہوں گے۔ کشمیر ہماری جنت ہے اور اس کے لیے ہم کچھ بھی کرنے کو تیار ہیں۔

ہم نے جن کشمیریوں سے بھی بات کی وہ خاص طور پر انڈین رہنماؤں کے اس بیان سے ناراض تھے جن میں کشمیری لڑکیوں سے شادی کرنے کی بات کی گئی تھی۔

انھوں نے کہا کہ ‘انڈیا کے لوگ ہماری زمین اور بیٹیوں کو چھیننے کی بات کر رہے ہیں اور آپ کو لگتا ہے کہ ہم خاموش بیٹھیں گے؟’

کرفیو میں نرمی کر دی گئی ہے لیکن پبلک ٹرانسپورٹ ابھی تک چلنا شروع نہیں ہوئی۔ پریشان حال لوگ اپنے پیاروں سے ملنے کے لئے پیدل چل کر جا رہے ہیں۔

ایسی ہی ایک خاتون کا کہنا ہے کہ ‘میں اپنی چھوٹی بہن کی خیریت دریافت کرنے جا رہی ہوں۔ مجھے نہیں معلوم کہ وہ کس حالت میں ہے۔ اس کے گھر میں کھانا ہے یا نہیں۔’

کشمیر

ایک کشمیری نوجوان جنھوں نے ہوائی اڈے پہنچنے کے لیے ہم سے لفٹ لی تھی انھوں نے بتایا کہ وہ چنائی جانے کے لیے ٹکٹ خریدنے جا رہے ہیں ۔ کیا وہ موجودہ حالات کی وجہ سے سرینگر سے باہر جا رہے ہیں؟

ان کا جواب تھا کہ’میں کاروبار کرنے جا رہا ہوں۔ اگر کشمیر کو میری ضرورت ہوئی تو میں واپس آؤں گا۔ کشمیر ہماری زندگی ہے، ہم اس کے لیے جان دے سکتے ہیں۔’

ہوائی اڈے پر سکیورٹی پر معمور ایک آرمی افسر نے مجھ سے پوچھا ‘شہر کے حالات کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے؟’

سرینگر ایئرپورٹ کے لان میں ایک لڑکی اپنے سامان کے ساتھ انتظار کر رہی ہیں۔ وہ ایک ایئر لائن کی فضائی میزبان ہیں۔

انھوں نے کہا کہ ‘میں بارہ بجے یہاں پہنچی تھی لیکن مجھے ابھی تک نہیں پتا کہ میں کب گھر پہنچوں گی۔ میں پلوامہ سے ہوں۔ میں نے پولیس اسٹیشن، فائر اسٹیشن، پولیس کمشنر، ہسپتال اور دیگر اداروں میں فون کیا لیکن کسی سے بات نہیں ہو سکی۔

https://www.youtube.com/watch?v=cOHI1koyn1c

‘ہم کرفیو کے بیچ بڑے ہوئے ہیں۔ لیکن یہ پہلا موقع ہے جب ہمیں اس طرح کی صورتحال کا سامنا ہے۔ ہر طرح کے رابطے کے ذرائع منقطع کردیے گئے ہیں۔ یہاں کی صورتحال خطرناک ہے لیکن پھر بھی میں آئی ہوں۔ میں نے یہ خطرہ صرف اس لیے مول لیا ہے کیونکہ میں میرے اہل خانہ کے بارے میں جانے بغیر اپنا کام جاری نہیں رکھ سکتی تھی۔’

کشمیری لڑکیوں کے بارے میں بیان پر اس خاتون کو سخت اعتراض تھا۔ وہ کہتی ہیں کہ ‘میں نے نوخیز کشمیری لڑکیوں سے شادی کرنے کے بارے میں بنی میمز دیکھی ہیں۔ اس کو پڑھنے کے بعد دہلی میٹرو میں سفر کرتے ہوئے میں غیر محفوظ محسوس کر رہی تھی۔’

‘باقی ملکوں کو یہ سمجھنا چاہیے کہ ہم ایک تکلیف دہ وقت سے گزر رہے ہیں۔ انھیں ہمارے حالات پر تبصرے کرنے کے بجائے ہمارا ساتھ دینا چاہیے۔ ہمیں یہ احساس دلانا چاہیے کہ وہ ہمارے بارے میں سوچتے ہیں۔ لیکن کہیں بھی ایسا نہیں ہو رہا۔’

مزدور کام چھوڑ کر واپس آ رہے ہیں

سرینگر سے دہلی پہنچنے والی پروازیں زیادہ تر ایسے مزدورں سے بھری ہیں جو وادی میں کام کرتے تھے۔ ان کے نزدیک موجودہ صورتحال ایک دو دھاری تلوار ہے۔ ایک طرف انھیں کام چھوڑنا پڑا اور دوسری طرف انھیں واپسی کے لیے مہنگے ہوائی ٹکٹوں کی قیمت ادا کرنی پڑی۔

کشمیر

حکومت نے ایئر لائنز سے کرایوں کو کم کرنے کا کہا ہے۔ لیکن کام کرنے والوں کو ہوائی ٹکٹ کی قیمتوں میں اضافے کی قیمت ادا کرنے پر مجبور کیا جا رہا ہے۔ میرے ساتھ واپس آنے والے بہار کے رہائشی صادق عالم کو چھ ہزار روپے میں دہلی کا ٹکٹ ملا۔

ایک اور ورکر، جس نے کچھ گھنٹے پہلے ہی اسی فلائٹ کا ٹکٹ خریدا تھا، کو یہ ٹیکٹ 4200 روپے میں ملا تھا۔

وہ کہتے ہیں کہ ‘انٹرنیٹ بند ہونے کی وجہ سے ہم جیسے لوگوں کو کاؤنٹر سے ٹکٹ خریدنا پڑا۔ قیمتیں وقت کے ساتھ ساتھ بڑھتی جا رہی ہیں۔ میں نے دو ٹکٹ خریدے۔ ادا کی جانے والی رقم میری ایک مہینے کی تنخواہ کے برابر ہے۔ نہ صرف میں نے اپنا کام ضائع کیا بلکہ اب میری بچت بھی ختم ہو گئی ہے۔’

جیسے ہی طیارہ سرینگر سے روانہ ہوا وہ آسمان پر چھائے صاف و شفاف بادلوں سے اوپر پہنچ گیا۔ یہ بادل امن کی علامت لگتے ہیں، وہ امن جو نہ تو زمین پر دیکھا دیکھا جا سکا اور نہ ہی محسوس کیا جا سکا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32493 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp