عطا اللہ عیسیٰ خیلوی – فوک گائیکی کو نئی زندگی دینے والا


موسیقی اور گائیکی اس کی زندگی کے اولین دور کی ایک پُر اسرا ر رگ ِجاں تھی! چودہ برس کی عمر میں اس القا کے اسرارو رموز تو اس وقت انہیں کیا سمجھ آتے تھے بس دھندلکے میں چھپا ایک اسرارہی تھا، لیکن اسے پانے کی جستجواٹل تھی۔

یہ ساز و آہنگ کی پُراسراریت کیسے اس کی کی زندگی میں داخل ہوئی؟ وہ شاید خود بھی نہیں جانتا تھا۔ لیکن وہ یہ ضرور جان گیا تھا کہ یہی اس کی متاع حیات، اس کے وجود، اور بے لوث انسانی جذبات اور احساسات کی جمالیاتی گواہی ہے۔ یہ سفر اس کا اپنا اور انتخاب بھی اپنا تھا؛ اور یہ دریا اسے خود ہی پار کرنا تھا۔ وہ ایک ایسے معاشرے میں پیدا ہوا تھا جہاں زندگی کے تخلیقی خوابوں کا پیچھا پرلے درجے کی بے وقوفی کے زمرے میں رکھنا دانشمندی کی پہچان ٹھہری تھی۔ اس کے شوق کی راہ میں اس کا زمیندار خاندان اور قبائلی ثقافت تاریک رات کی طرح تن کر کھڑے ہوگئے۔

وہ گھر سے بھاگ گیا، ٹرک ڈرائیوری کی زندگی سے لے کر چائے خانوں میں چائے نوشوں کی خدمت کا کام انجام دینا اسے ہرگز برا نہیں لگا۔ کیونکہ یہ اس کی منزل نہیں بلکہ چھوٹے موٹے پڑاؤ تھے۔ جب رحمت گرامو فون کے مالک چوہدری رحمت نے ان کی ازخود ریکارڈ کی ہوئی ایک کھسی پٹی کیسٹ سنی تو وہ بے تاب ہو کر اس پُرسوز لیکن چھنکتی آواز کے خالق کی تلاش میں نکل پڑے۔

جب چوہدری رحمت کی ملاقات اس منفرد آواز کے مالک عطا اللہ خان عیسی غیلوی سے ہوئی تو عیسی خیلوی کچھ زیادہ پُرجوش نہ تھے کیونکہ اب تک کا سفر ان کی اپنی زندگی کے شوق و جستجو کا سفر تھا جسے وہ سرعام پیش کرنے میں وہ ہچکچاہٹ سے دوچار تھے۔ شرمیلے اور قناعت پسند نوجوان عطا جی کی نظر میں اپنے فن کی داد محدود حلقے ہی میں پانا کافی تھا۔ وہ اس بات پر بہت شاداں و مطمئن تھے کہ دریائے کاوی کے ملاحوں کی کشتیوں میں غروب آفتاب کے بعد اور بالخصوص چودہویں کی چاندنی راتوں میں گانا سنانا ہی آخری معراج ہے۔ بات بھی کچھ صحیح تھی۔ جب فن اپنی وسعتوں کو چھو رہا تھا تو اسے ایک ایسے ہی ماحول کی ضرورت تھی۔ جہاں چند فن شناس اور فوک موسیقی کے دلدادہ ہی کل کائنات ہوتے ہیں۔ یہ ریاض و توجہ کا زمانہ تھا۔

عیسی خیلوی جی نے گائیکی کی باقاعدہ تعلیم حاصل نہیں کی، لیکن ذاتی ریاض و لگن کی دھیمی آنچ پر پکنے والا فن اپنے زمانے کی کئی آوازوں سے آگے نکل گیا۔ رحمت گرامو فون میں انیس سو ستر کے ابتدائی سالوں میں ہونے والی ریکارڈنگ کا احوال سناتے ہوئے عیسی خیلوی نے ایک ادائے بے نیازی سے انکشاف کیا، ”اس زمانے کی جدید ٹیکنالوجی کا تو کچھ پتہ نہیں تھا بس آنکھیں میچ کے گانا شروع کیا تو چند گھنٹوں چار کیسٹ تیار ہوگئیں“۔ کیسٹس کا بازار میں کیا آنا تھا کہ عیسی خیلوی کی آواز پاکستان کے گلی محلوں تک ایسی پہنچی کہ ان کا نام گھر گھر میں گونجنے لگا۔

میں اس وقت چھوتی جماعت کا طالب علم تھا جب کالونی (اٹک آئل کمپنی، کھوڑ) کے سامنے والے ڈی بلاک میں ایک پٹھان گھرانے سے بلند آواز میں عیسی خیلوی کے گانے سننے کو ملتے۔ گانے کی سر تال ہی کچھ ایسی تھی کہ نہ چاہتے ہوئے بھی بے ساختہ گنگنانے کو جی چاہنے لگتا۔ یہ گیت کچھ اس طرح تھا: ”لاہ لئی تیں مندری مینڈی چالاں دے نال، وئی وئی۔ “ یہ گیت کالونی میں اتنا مشہور ہوا کہ شام کو ہم کالونی کے سبھی لڑکے لڑکیاں ٹولیوں میں بیٹھ کر گاتے۔ ہر دفعہ وئی وئی کی بے سری تان ٹوٹنے کے بعد بے معنی لیکن خالص بچپنے کے قہقہوں کا کا طوفان امنڈ پڑتا۔ پاس سے گزرتے ہوئے کالونی کی بڑی عمر کے لوگ بھی ہنسنے لگتے۔

جب بچپن کا کچھ حصہ ہی گزرا ہو گا کہ ماحول میں نامانوس سی سختی آنے لگی۔ شاید ضیا کا مارشل لا نافذ ہو چکا تھا۔ سکول میں گرمیوں کی چھٹیوں میں عالمی اداروں کی طرف سے بچوں کو ملنے والی کتابوں کی ترسیل کم ہوتے ہوتے نہ ہونے کے برابر رہ گئی۔ یہ بچوں کے عالمی ادب کی ترجمہ شدہ کتابیں اب تک یاد ہیں کہ کیسے ہم انہیں حاصل کرنے کے لئے ایک دوسرے سے بے اعتناعی برتنا عار ہی نہیں ایک آرٹ سمجھتے تھے۔

خیر، بعد کے زمانے میں عیسی خیلوی جی کی آواز کبھی کبھار کانوں میں پڑ جاتی تو شوق سے سن لیتے لیکن ماحول میں اس کی قبولیت اب ویسی نہ رہی تھی۔ گلی محلوں میں مدینے چلو، مدینے چلو کی اجنبی آوازیں معمول بن چکی تھی۔

اب جب ایک زمانے کے بعد عطا اللہ کو دوبارہ یو ٹیوب پر سننا شروع کیا تو لگا کہ یہ آواز انسانی المیوں، محبت و عشق کی رومانوی روایت اور فوک موسیقی سے کتنی جڑی ہوئی تھی۔ جب دیہات و شہروں میں آدھی رات تک عیسی خیلوی کی موسیقی ایسے سنی جاتی کہ ان کے دیکھے سے بیمار کے چہرے پر بہار آجائے۔ اس زمانے میں عطا جی نے جس لگن سے اپنے فن کی آبیاری کی اور وہی گایا جو انہیں گانا چاہیے تھا اور یہ آواز ایک مزاحمتی تحریک سے کم نہ تھی۔ جب رومانویت و عشق و محبت کے عنوان معتوب ٹھہرے انہوں نے اپنی گائیکی سے اسے زندہ رکھا۔ جو لوگ اس زمانے میں جواں ہوئے ہیں وہ جانتے ہیں کہ کس حبس کا وہ زمانہ تھا۔

اداکارہ شاہدہ منی کے ساتھ ایک انٹرویو میں عطا جی نے کہا ”میں نے اپنے فن کے ساتھ کبھی بدیانتی نہیں کی“۔ ایک چھوٹے سے گاؤں میں ان کے ساتھ ایک شام موسیقی کی محفل کا پوسٹر لگانے جب نوجوان ایک دکان پر پہنچے تو دکاندار نے کہا کہ میں یہ پوسٹر نہیں لگانے دوں گا۔ یہ گلوکار بہت زیادہ شراب پیتا ہے۔ اسی گاؤں میں جب عطا جی پروگرام کے لئے پہنچے تو انہیں یہ واقعہ بتایا گیا جس پر ان کا فنکارانہ ردعمل یہ تھا، ”اوہ پلا اج پیار دا پیالہ، ساقی ریس زمانہ کرے۔ نکی جہی گل توں رسدا ایں، ڈھولا تری کمال اے“۔ کیا کمال مروت کا زمانہ تھا وہ! دونوں طرف سے غیر متشدد اظہار کی ایسی مثال ملنا محال ہے۔

لیکن بعد کے زمانے میں انہیں ابلتی ہوئی شدت پسندی کا قلق بھی تھا، جس کا اظہار انہوں نے ایک اور انٹرویو میں یہ کہہ کر کیا ”میں بنیادی طور پر قبائلی پٹھان ہوں، جہاں موسیقی کو بُرا سمجھا جاتا ہے، لیکن اب تو وہاں زبردستی کیسٹ، سی ڈیز کی دکانیں بند کروائی جاتی ہے۔ “ یہ بات انہوں نے ایک ٹی وی شو کے انٹرویو میں تب کہی جب شدت پسندی کا عروج تھا۔

یہ نہیں کہ فنکار عطا جی عصر نو کے تقاضوں سے بے پرواہ اپنی لے میں لگے ہوئے تھے۔ وہ جانتے تھے کہ یہ سفر ان کا اپنا اور انتخاب بھی ان کا اپنا ہے۔ انہیں احساس تھا کہ وہ کس دنیا کے باسی ہیں اور کس دنیا میں رہنے پر مجبور ہیں۔ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ وہ بہت شکر گزار اور ربانیت پر یقین رکھنے والے ملنسار انسان ہیں۔ اور حقیقت کا ایک دوسرا پرتو یہ بھی ہے کہ رومانویت، عشق و محبت کے احساسات کے ترجمان عیسی خیلوی کی زندگی اور فن دراصل خالص انسانی جذبات اور احساسات کی جمالیاتی تفہیم کا ایک بے مثال سفر ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).