بھارت کے عزائم اور جنرل قمر جاوید باجوہ کا انتباہ


پاک فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ نے بجا طور سے اس بات پر زور دیا ہے کہ ’مقبوضہ کشمیر کی صورت حال سے دنیا کی توجہ ہٹانے کے لئے بھارت کوئی بھی انتہائی اقدام کرسکتا ہے۔ اس لئے بھارت کو ایسا کوئی موقع نہیں دینا چاہیے کہ وہ کشمیر میں اپنے جرائم پر پردہ ڈال سکے‘ ۔ آرمی چیف کا یہ پیغام کشمیری عوام کی صورت حال اور جد و جہد کے حوالے سے بے حد اہم ہے۔

مودی حکومت نے 5 اگست کو صدارتی فرمان کے ذریعے آئین میں ترمیم سے کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرکے ایک خطرناک جؤا کھیلا ہے۔ یہ فیصلہ کشمیر کے حالات، بھارتی سیاست اور دنیا میں بھارت کی شہرت پر دیرپا اثرات مرتب کرسکتا ہے۔ گزشتہ ماہ کے آخر سے مقبوضہ کشمیر میں سخت سیکورٹی کے تحت علاقے کو جیل میں تبدیل کرنے کی صورت حال تادیر برقرار نہیں رکھی جاسکتی۔ عید الاضحیٰ کے موقع پر بھی کرفیو میں چند گھنٹے کا وقفہ دینے کے علاوہ کوئی سہولت نہیں دی گئی۔

مودی حکومت کے یہ دعوے بھی گمراہ کن ثابت ہوئے ہیں کہ لوگوں کو عید قرباں کے موقع پر ضروری اجناس کے علاوہ قربانی کے جانور پہنچانے کے لئے خصوصی انتظاماتکیے جائیں گے۔ عید سے ایک روز پہلے اور عید والے دن تھوڑے وقت کے لئے کرفیو ضرور اٹھایا گیا لیکن لوگوں کو جمع ہونے کا موقع نہیں دیا گیا۔ بلکہ کل رات پولیس کے ٹرک خاص طور سے شہروں کی گلیوں محلوں میں یہ اعلان کرنے کے لئے بھیجے گئے تھے کہ لوگ گھروں سے باہر نہ نکلیں اور عید کی نماز اپنے محلوں کی مساجد میں ہی ادا کی جائے۔

یہ حالات بہت دیر تک برقرار نہیں رکھے جاسکتے۔ مقبوضہ کشمیر میں انٹرنیٹ، موبائل اور ٹیلی فون سروسز مسلسل بند ہیں۔ تاہم عید کے موقع پر مختلف شہروں میں لوگوں کو اپنے عزیزوں سے رابطہ کے لئے پبلک ٹیلی فون بوتھ فراہمکیے گئے تھے جہاں سے سیکورٹی حکام کی نگرانی میں ہی عزیزوں و ررشتہ داروں سے رابطہ ممکن تھا۔ بھارت کے دور دراز علاقوں میں رہنے والے کشمیری تاجر، ملازم پیشہ افراد یا طالب علم اپنے اہل خانہ کی خیریت کے بارے میں قطعی لاعلم ہیں۔ ایسے میں جو لوگ کسی نہ کسی پرواز سے سری نگر پہنچنے کی کوشش کرتے ہیں، انہیں اپنے علاقوں میں پہنچنے کے لئے ٹرانسپورٹ دستیاب نہیں ہوتی۔ اس طرح فی الوقت کشمیر کے ڈیڑھ کروڑ لوگ جبر، تنہائی اور شدید بے یقینی کا شکار ہیں۔

اس کے باجود جب بھی موقع ملتا ہے کشمیری نوجوان اور خواتین جمع ہو کر بھارتی حکومت کے خلاف احتجاج کرتی ہیں۔ کشمیر جانے والے یا وہاں پھنسے ہوئے جن لوگوں سے بھی کسی صحافی نے رابطہ کرنے کی کوشش کی ہے تو انہیں یہی جواب ملا ہے کہ ’یہ ہمارا خطہ ہے۔ آپ فوج کے ذریعے اس پر قبضہ کرسکتے ہیں لیکن اسے ہم سے چھین نہیں سکتے۔ اپنی آزادی کے لئے ہم کوئی بھی قربانی دینے کے لئے تیار ہیں‘ ۔ اگر میڈیا کی رپورٹوں میں کشمیری شہریوں کا یہ غم و غصہ اور بھارتی حکومت کے اقدامات کو مسترد کرنے کے اس عزم کا اظہار کسی نہ کسی طرح سامنے آرہا ہے تو لاکھوں فوجیوں، ہزاروں ایجنٹوں اور کنٹرول کے درجنوں دوسرے طریقوں سے لیس معلومات جمع کرنے والی بھارتی حکومت کو بھی یہ اچھی طرح علم ہو گا کہ کہ جب بھی پابندیوں میں نرمی کی گئی تو کشمیری عوام کی طرف سے ذبردست احتجاج دیکھنے میں آئے گا۔

مقبوضہ وادی میں پابندیاں نرم ہوتے ہی تصادم کے شدید اندیشے کو مسترد نہیں کیا جاسکتا۔ نریندر مودی کی انتہا پسند حکومت طاقت کے زور پر کشمیری عوام کی آواز دبانے کی خواہش رکھتی ہے جبکہ مقبوضہ کشمیر کے لوگ ہر قیمت پر اپنے حقوق اور اپنی دھرتی کا تحفظ کرنے کا عزم رکھتے ہیں۔ بھاری اسلحہ سے لیس فوج اور دیگر عسکری اداروں کے جوانوں کے مقابلے میں جب بھی نہتے کشمیری احتجاج کے لئے نکلیں گے تو خوں ریزی کا امکان پیدا ہوگا۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ آئین کی شق 370 منسوخ کرنے سے پہلے بھارتی حکومت نے سیاسی کام کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کی۔ بلکہ اب تک جو کشمیر ی لیڈر آئینی تحفظ کی وجہ سے نئی دہلی کے ساتھ الحاق کی حمایت کرتے تھے، وہ بھی اب بھارتی فوج کو قابض قرار دے رہے ہیں۔

دنیا کے بیشترممالک اور انسانی حقوق کے لئے کام کرنے والے ادارے اگرچہ آئینی ترمیم کو بھارت کا ’داخلی مسئلہ‘ قرار دیتے ہوئے اب تک خاموش ہیں۔ مواصلت پر پابندی اور عوام کو گھروں میں محبوس کرکے بھارتی حکمرانوں نے بھی سناٹے کا ماحول پیدا کررکھا ہے۔ لیکن جب کشمیر میں احتجاج ہو گا اور خون بہے گا تو انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کے بارے میں عالمی رائے عامہ تادیر خاموش نہیں رہ سکے گی۔ اسی موقع پر بھارتی حکمرانوں کو اس مسئلہ سے توجہ ہٹانے کے لئے کوئی ایسا کام کرنے کی ضرورت محسوس ہوگی جس کی طرف جنرل قمر جاوید باجوہ نے آج اشارہ کیا ہے۔

غالب امکان یہ ہے کہ اس موقع پر بھارت لائن آف کنٹرول پر پاکستان کی خلاف ورزیوں کا الزام عائد کرتے ہوئے اشتعال انگیزی میں اضافہ کرے گا۔ اگر مقبوضہ کشمیر کے حالات زیادہ دگرگوں ہوئے اور بھارتی حکومت کے انتہا پسندوں نے ایک ہی ہلے میں آزاد کشمیر کو بھی اپنے زیر تسلط لانے کا خواب دیکھنے کی کوشش کی تو لائن آف کنٹرول کی حیثیت ختم کرنے کے لئے فوج کشی کی باقاعدہ کوشش کی جائے۔

جنگ پاکستان کا آپشن نہیں ہے۔ جنگ بھارت کا آپشن بھی نہیں ہوسکتی۔ لیکن نئی دہلی پر اس وقت جو انتہاپسندانہ سیاسی قیادت حکمرانی کررہی ہے اور اس نے میڈیا اور رائے عامہ کو جس طرح اپنے سحر میں گرفتار کیا ہے، اس کی وجہ سے کسی بھی وقت کسی بھی عاقبت نا اندیشی کا امکان موجود ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں تصادم سے ہونے والے جانی نقصان کی صورت میں عالمی رد عمل پر بھارتی حکومت، اقوام عالم کی توجہ کسی دوسری طرف منتقل کروانے کے لئے ہر ممکن کوشش کرے گی۔ اس میں لائن آف کنٹرول پر حملہ کا آپشن بھی موجود ہے لیکن کوئی غیر متوقع دہشت گرد حملہ بھی صورت حال کو پلوامہ سانحہ کی طرح پاکستان کے خلاف استعمال کرنے کے لئے استعمال کیا جاسکتا ہے۔

اس پس منظر میں آرمی چیف کا انتباہ بروقت اور ضروری ہے۔ اس سے ایک تو بھارت کے علاوہ پوری دنیا کو یہ پیغام پہنچایا گیا ہے کہ پاکستان کے نزدیک اگرچہ مقبوضہ کشمیر متنازعہ علاقہ ہے اور وہ کشمیری عوام کے خلافکیے جانے ظالمانہ اور یک طرفہ آئینی اقدام کو اقوام متحدہ کی قراردادوں اور باہمی معاہدوں کی سنگین خلاف ورزی سمجھتا ہے لیکن اس کے باوجود وہ اس معاملہ کو جنگ و تصادم کی بجائے بات چیت اور مفاہمت سے حل کرنا چاہتا ہے۔

پاکستان نے ہمیشہ مذاکرات اور ثالثی کی ضرورت پر زور دیا ہے تاکہ برصغیر کی کثیر آبادی کو غیر ضروری تصادم سے بچایا جاسکے تاکہ غربت اور دیگر انسانی مسائل حل کرنے پر توجہ مبذول ہوسکے اور سماجی خوشحالی کے منصوبوں پر کام کا آغاز کیا جا سکے۔ تاہم بھارت نے ہمیشہ ان کوششوں کو مسترد کیا ہے۔ نریندر مودی کے برسر اقتدار آنے کے بعد سے اس رویہ میں شدت پیدا ہوئی ہے۔

دنیا کو پاکستان کی طرف سے امن کی خواہش کے بارے میں آگاہ کرنے اور بھارت کے ممکنہ مذموم ارادوں سے مطلع کرنے کے علاوہ داخلی طور پر بھی کرنے کے کچھ کام ہیں۔ ان میں سب سے اہم تو یہی بات ہے کہ اگر پاکستان جنگ نہیں چاہتا تو جنگ جوئی کی باتوں سے بھی گریز کیا جائے۔ البتہ بھارت اور دیگر اہم ممالک کو یہ واضح پیغام ضرور پہنچا دیاجائے کہ پاکستان کی امن پسندی کو ا س کی کمزوری نہ سمجھا جائے۔ پاکستان کم وسائل اور مشکل معاشی حالات کے باوجود جارحیت کا بھرپور جواب دے گا۔

یہ پیغام تب ہی کارگر ہو سکتا ہے اگر اسے سفارتی اور عسکری ذرائع سے متعلقہ لوگوں اور ملکوں کو پہنچایا جائے گا۔ اس کے برعکس پاکستانی وزیراعظم اور دیگر لیڈروں کی طرح اگر یہ پیغام تقریروں اور بیانات میں دینے کی کوشش کی جائے گی تو بھارت کو الٹا پاکستان پر جارحیت کا الزام لگانے کا موقع ملے گا۔ دوسری طرف پاکستان کے لوگوں میں جنگ کے جذبات پیدا کرنے سے ایک مہلک صورت حال پیدا ہو سکتی ہے۔ پرجوش تقریریں دراصل داخلی سیاسی ضرورتوں کے لئے کی جاتی ہیں اور کسی فریق کو اپنے عزم و ارادہ کے بارے میں پیغام پہنچانے کے دوسرے طریقے موجود ہیں۔

ملک کی سیاسی قیادت کو اس اصول سے درگزر کا کوئی سیاسی یا سفارتی فائدہ نہیں ہوسکتا۔ اس لئے کشمیر کی صورت حال پر غیر ضروری ہیجان ختم کرنے کی ضرورت ہے۔ اس کے علاوہ یہ نوٹ کرنا بھی اہم ہے کہ پاکستان اگر اقوام عالم کو کشمیر کی انسانی صورت حال کے بارے میں متنبہ کرنا چاہتا ہے اور وہ ارفع انسانی اصولوں کی بات کرتا ہے تو ملک میں بھی ان اقدار کا اطلاق کرنے کی کوشش کی جائے۔ میڈیا کو کشمیر کے بارے میں دہائیوں پرانے پروپیگنڈا کا حصہ بنا کر یہ مقصد حاصل نہیں کیا جاسکتا۔ بلکہ اس مقصد کے لئے آزادی اظہار کو یقینی بنانے، اقلیتوں کے حقوق کو مستحکم کرنے اور سیاسی مقاصد کے لئے غیر جمہوری ہتھکنڈے ترک کرکے ہی، دنیا کے سامنے کشمیر کے معاملہ پر ایک مضبوط مقدمہ پیش کیا جاسکتا۔

موجودہ حکومت اس وقت بڑی حد تک فوج کے زیر اثر ہے اور برسر اقتدار رہنے کے لئے اس کی محتاج بھی ہے۔ اس لئے ضروری ہے کہ جنرل قمر جاوید باجوہ نے جو باتیں لائن آف کنٹرول پر فوجیوں سے خطاب میں کہی ہیں، وہ وزیراعظم کے ساتھ ملاقات میں بھی ان پر اصرار کریں۔ تب ہی حکومت پاکستان، کشمیر کے سوال پر متوازن رویہ اختیار کرسکے گی اور ملک میں ہر شعبہ زندگی میں تصادم ختم کرنے کی کوشش ہو سکے گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2750 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali