13 اگست 1988: میاں نواز شریف کو یاد تو ہو گا؟


جنرل ضیاء الحق نے 29 مئی 1988 کو محمد خان جونیجو کو وزیر اعظم ہاؤس سے بیک بینی و دو گوش نکال باہر کیا۔ بظاہر اعلان تو عام انتخابات منعقد کرانے کا کیا گیا لیکن ان کے بیانات سے ارادے اچھے معلوم نہیں ہو رہے تھے۔ بات کچھ خلافت کے نظام کی طرف بڑھتی نظر آ رہی تھی۔ میاں نواز شریف پنجاب کی وزارت اعلیٰ پر قائم تھے اور جنرل ریٹائرڈ فضل حق کا طوطی اس وقت کے صوبہ سرحد میں بولتا تھا۔ مسلم لیگ کی صدارت تب سابق وزیر اعظم محمد خان جونیجو کے ہاتھ میں تھی جس کے سیکرٹری جنرل سابق وزیر قانون اقبال احمد خان تھے۔ میاں نواز شریف پارٹی کے صوبائی صدر تھے اور جنرل ضیاء الحق کی شدید خواہش تھی کہ ان کے مستقبل کے عزائم کی تکمیل کے لیے مسلم لیگ کی قیادت محمد خان جونیجو اور اقبال احمد خان سے واگذار کرائی جائے لیکن یہ آسان کام نہیں تھا۔

جنرل ضیاء الحق کی خواہش کے پیش نظر مسلم لیگ کی جنرل کونسل کا اجلاس 13 اگست 1988 کو میلوڈی میں واقع اسلام آباد ہوٹل کی بیس منٹ کے ہال میں طلب کیا گیا۔ محمد خاں جونیجو اور اقبال احمد جنرل ضیاء الحق اور ان کے حواریوں میاں نواز شریف اور جنرل فضل حق کے تیور بھانپ چکے تھے اس لیے نہایت سخت انتظامات کرنے کی کوشش کی گئی۔ اعلان کیا گیا کہ اقبال احمد خان کے دستخطوں سے جاری دعوت نامے پر ہی جنرل کونسل کے ارکان ہال میں داخل ہو سکیں گے۔ اور اس کے علاوہ داخلے کی کوشش کرنے والے کو سختی سے روک دیا جائے گا۔

راقم الحروف نے یہ تاریخی ایونٹ نوجوان پولیٹیکل رپورٹر کے طور پر نوائے وقت کے لیے کور کیا۔

rana naeem – raja nadir pervez

منظر کچھ یوں تھا کہ جنرل کونسل کے اجلاس کے داخلی راستے پر جو بیسمنٹ کو جاتا تھا۔ دعوت نامے چیک کرنے کے لیے سابق وزیر مملکت داخلہ راجہ نادر پرویز اور سابق وزیر مملکت برائے دفاع رانا نعیم محمود کو کھڑا کیا گیا۔ انہوں نے بیسمنٹ کے داخلی راستے پر زنجیر لگا کر بند کر دیا اور دعوت نامے چیک کرنا شروع کر دیے۔ یہ بات ذہن میں رہے کہ راجہ نادر پرویز 1971 میں جنگی قیدی بنے تھے اور سرنگ کھود کر بھارت کی قید سے بھاگ نکلے، معروف کتاب “فتح گڑھ سے فرار” انہی کی بہادری کی کہانی ہے، دو دفعہ ستارہ جرات حاصل کیا۔

رانا نعیم ایک بڑے زمیندار لیکن دلیر اور جی دار جوان تھے۔ اوجڑی کیمپ کی انکوائری کمیٹی میں نہایت سخت مؤقف اختیار کرنے پر جنرل ضیاء الحق کے عتاب کا نشانہ بنے۔ دونوں راجپوتوں نے کسی کو جانے دیا اور کسی کو روک دیا۔ تماشہ تب لگا جب بہاولنگر سے عبدالستار لالیکا کے کزن عالم علی لالیکا جنرل کونسل کے اجلاس میں شرکت کے لیے پہنچے۔ انہیں بتایا گیا کہ ان کا نام فہرست میں نہیں ہے لیکن عالم علی لالیکا نے اندر جانے پر اصرار کیا، عالم علی لالیکا بالکل اپنے کزن عبدالستار لالیکا کی طرح لمبے تڑنگے اور بھاری تن و توش کے مالک تھے۔ انہوں نے زور لگایا اور داخلی راستے پر لگی زنجیر ٹوٹ گئی، عالم علی لالیکا آگے بڑھے تو فیصلہ کن انداز میں راجہ نادر پرویز اور رانا نعیم محمود نے انہیں مل کر اٹھایا اور سر سے اوپر اٹھا کر ڈمبل کی طرح زمین پر پھینک دیا جس سے زور دار دھڑام کی آواز پیدا ہوئی۔ عالم علی لالیکا نے تکلیف کے باعث شور مچا دیا اور دھکم پیل کرتے ہوئے گرتے پڑتے بیسمنٹ میں واقع ہال کی طرف بھاگ پڑے۔ اب انہیں روکا نہ جا سکا۔ البتہ سابق وزیر مملکت ناصر بلوچ کو روکنے کی کوشش کی گئی تو دھکم پیل میں ان کا ازار بند ٹوٹ گیا جس سے ایک نئی صورتحال پیدا ہو گئی۔

راجہ نادر پرویز اور رانا نعیم محمود کی کوششیں تب ناکام ہو نے لگیں جب صوبہ سرحد کے جوانوں کے جتھے لے کر جنرل ریٹائرڈ فضل حق آ پہنچے اور پھر اجلاس کے ہال میں ایک ہاہاکار مچ گئی۔ نواز شریف پہلے ہی آ چکے تھے۔ اجلاس کی کارروائی شروع کرنے کے لیے سیکرٹری جنرل اقبال احمد خان نے بڑی کوشش کی لیکن ہال میں موجود میاں نواز شریف اور جنرل فضل حق کے حامیوں نے ایک نہ چلنے دی۔ میاں نواز شریف کو اس کارروائی کے دوران راجہ ظفر الحق، فدا محمد خان سمیت کئی اہم راہنماؤں کی حمایت حاصل تھی جو جنرل ضیاء الحق کے ایجنڈے کے لیے پارٹی قیادت تبدیل کرنے پر مصر تھے۔ یہ ہنگامہ آرائی کئی گھنٹے تک جاری رہی۔ زندہ باد اور مردہ باد کے نعرے لگتے رہے۔

یہ پاکستان کی سیاسی تاریخ کا ایک بد قسمت دن تھا۔ تحلیل کی جانے والی قومی اسمبلی میں میاں نواز شریف کے حامی ارکان کھانے کے بڑے کڑچھے اٹھا کر ڈائننگ ٹیبلز پر کھڑے رقص کر رہے تھے اور تمام مقامی زبانیں گالیوں کے لیے اس طرح استعمال کی جا رہی تھیں کہ پیشہ ور بدمعاش بھی شرما جائیں۔

میں اس تمام منظر کو اپنی نوٹ بک پر منٹ اور سیکنڈ کے ٹائم کے ساتھ قلمبند کر رہا تھا کہ اس روز میں نے لمحہ بہ لمحہ رپورٹنگ کا فیصلہ کر رکھا تھا۔

ہنگامہ آرائی کے ان لمحات کے دوران میں نے دیکھا کہ سٹیج کے سامنے مہمانوں کے لیے رکھے گئے صوفے پر میاں نواز شریف اور اقبال احمد خان کے درمیان محمد خان جونیجو بیٹھے ہیں۔ میں لپک کر پہنچا اور صوفے کے پیچھے چپک کر بیٹھ گیا۔ مہاں نواز شریف کہہ رہے تھے۔ “جونیجو صاحب، آپ دیکھ لیں صورتحال بہت خراب ہو رہی ہے کارکن بہت غصے میں ہیں، بہتر یہی ہو گا کہ آپ استعفیٰ دے دیں”۔

جونیجو صاحب نے اپنے بائیں بیٹھے اقبال احمد خان کی طرف دیکھا۔ اقبال احمد خان نے کہا “سوال ہی پیدا نہیں ہوتا”۔ محمد خان جونیجو نے نواز شریف کی طرف دیکھ کر کہا کہ “میرا بھی یہی جواب ہے”۔ نواز شریف نے کہا کہ صورتحال کو ٹھنڈا کرنے کا اس کے سوا کوئی راستہ نہیں ہے اس لیے آپ بہتر ہے کہ فیصلہ کر دیں”۔ جونیجو صاحب کا جواب پھر وہی تھا اور کچھ مزید دلائل کی ناکامی کے بعد میاں نواز شریف محمد خان جونیجو کے پاس سے اٹھ کھڑے ہوئے۔

اقبال احمد خان نے محمد خان جونیجو کے کان میں کہا کہ ہمیں یہاں سے نکل جانا چاہیے۔ محمد خان جونیجو اٹھ کھڑے ہوئے۔ ان کے ارادے کو بھانپ کر جنرل فضل حق کے جوانمرد ٹوٹ پڑے اور محمد خان جونیجو کے لیے سنبھل کر چلنا مشکل ہو گیا۔ مجھے اپنی بیوقوفی پر آج بھی حیرت ہوتی ہے کہ اس بھرے مجمعے کے اندر دھکے کھاتے محمد خان جونیجو کو میں نے اپنے دائیں بازو کے حصار میں لے لیا اور کہا، “سائیں آپ چلیں”۔

محمد خان جونیجو باہر کی طرف چلنے لگے، لیکن بڑھتے ہوئے دباؤ کے باعث چلنا مشکل ہو رہا تھا۔ وہ لمحہ بھی آیا کہ میں مجھے لگا کہ میرا دایاں بازو محمد خان جونیجو کی گردن میں پھندا بن رہا ہے۔ محمد خان جونیجو نے بے ہنگم شور کے درمیان اونچی آواز میں کہا، “سائیں آپ اپنا بازو نکال لو اب میرا سانس بند ہو رہا ہے”۔ میں پیچھے ہٹ گیا۔ میاں نواز شریف اور جنرل فضل حق کے حامی جونیجو اور اقبال احمد کو دھکیلتے ہال سے باہر لے گئے۔

اس کے بعد کھانے کی میزوں پر جو کچھ ہوا وہ اس قدر بھیانک داستان ہے کہ لکھنے کے الفاظ نہیں۔ کارپٹ پر بیٹھے جنرل فضل حق اور نواز شریف کے حامی یوں ہڑبونگ مچا رہے تھے کہ خدا کی پناہ۔ جس کے ہاتھ سویٹ ڈش لگی وہ ڈونگا لے اڑا۔ جس کے ہاتھ میں سلاد لگا وہ طشتری لے اڑا۔ ہوٹل کے قالین پر کھانا اور اس کے اجزاء کچرے کی طرح بکھرے ہوئے تھے۔ خود میرے سمیت رپورٹرز نے کھیر کے اس ڈونگے سے بھوک مٹائی جسے بھائی صالح ظافر ہوٹل کے کچن سے اٹھا لائے تھے۔

میاں نواز شریف اور جنرل فضل حق، جنرل ضیاء الحق کا دیا گیا مشن مکمل نہ کر سکے۔ اسی شام ایک الگ اجلاس کے بعد مسلم لیگ کے ایک نئے دھڑے کا قیام عمل میں لایا گیا۔ جس کے صدر فدا محمد خان بنائے گئے اور سیکرٹری جنرل میاں نواز شریف۔ لیکن قدرت کو کچھ اور ہی منظور تھا۔ ٹھیک چار دن بعد 17 گست کو خیرپور ٹامیوالی میں سی 130 گر کر تباہ ہو گیا۔ جنرل ضیاء اپنے منصوبوں اور عزائم سمیت پراسرار شعلوں کی نذر ہو گئے۔ اگر قدرت یہ فیصلہ نہ کرتی تو پتہ نہیں وطن عزیز آج کس شکل میں ہوتا ؟ کبھی کبھی مجھے خیال آتا ہے کہ آج جب نواز شریف خود ایک انتہائی سخت مؤقف اپنا کر پس دیوار زنداں ہیں، انہیں یاد تو آتا ہو گا کہ ان کے ہاتھوں کیا کچھ ہوا اور کیا کچھ ہوتے ہوتے رہ گیا ؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).