خطبہ حج کی عالمِ اسلام کے موجودہ حالات سے لاتعلقی


حج کا خطبہ سننے کے بعد میں نے ہیڈ فون کانوں سے نکال کر ٹیبل پر رکھ دیے۔ لیپ ٹاپ بند کردیا اور اس پرچے کو پڑھنا شروع کر دیا جس پر میں نے امام حج الشیخ محمد بن الحسن آل الشیخ کے خطبہءِ حج کے نکات درج کیے تھے۔

آں جناب کا خطبہ فصیح و بلیغ عربی پر مشتمل تھا۔ آواز بڑی یونیک اور خطیبانہ تھی۔ قرآن و حدیث کے موتی پہ در پہ بکھیرتے چلے گئے۔ ساری تقریر منطقی ربط کی کنگھی سے سلجھی ہوئی اور دلیل کی ڈوری میں بندھی ہوئی تھی۔ اول تا آخر ایک ربط اور تسلسل تھا۔ الغرض تقریر اپنے اندر حسنِ بیان کے تمام تر اوصاف اور فصل الخطاب کے تمام تر محاسن کو سموئے ہوئے تھی۔ البتہ یہ بھی ایک کڑوا سچ ہے یہ تقریر عالمِ اسلام کے موجودہ مسائل کے تذکرے، ان کے حل اور اس کے لیے خصوصی توجہ سے یکسر خالی تھی۔

میں نے خطبے کے مندرجات پر ایک نظر ڈالی۔ خطبہ تقویٰ کی اہمیت سے شروع ہوا۔ توحید و رسالت کے عقیدے کی وضاحت کی گئی۔ اتحاد اور اعتصام بحبل اللہ کا بیان ہوا۔ رحمت و شفقت مرکزی موضوع تھا۔ رحمت سے متعلقہ شاید ہی کوئی قرآنی آیت ترک کی گئی ہو۔ یہ بھی بیان ہوا کہ اللہ، رسول صلی اللہ علیہ وسلم، انبیاؑ، صحابہ، ملائکہ اور صلحا سب کے ہاں مرغوب اور پسندیدہ ہے۔ پھر حصولِ رحمتِ خداوندی کے طریقوں اور دعا پر جا کر خطبہ ختم ہو گیا۔

میں سوچنے لگا کہ آج کا خطبہءِ حج امتِ مسلمہ کی حالیہ صورتِ حال سے کس قدر لاتعلق تھا۔ امامِ حج نے رحمت و شفقت کو موضوع بنایا جب کہ عالمِ اسلام کا جغرافیہ کچھ اور مطالبہ کر رہا ہے۔ حج میں سر منڈوانے کے فضائل پر حدیث سنائی گئی مگر ان حرمان نصیبوں کے دلاسے کے لیے کسی آیت کی تلاوت نہ ہوئی جن کے سروں کی فصل دشمن کی درانتی سے مولی گاجر کی طرح کٹتی چلی جارہی ہے۔ اور پکار پکار کر کہہ رہے ہیں :

ربنا اخرجنا من ہذہ القریۃ الظالم اھلھا (النساء۔ 75 )
”اے اللہ! ہمیں ظالموں کی اس بستی سے رہائی نصیب فرما۔ “

صحابہ کرام کی تعریف کرتے ہوئے ”رحماء بینھم“ کی آیت تلاوت کی گئی مگر یہ اطلاع نہ دی گئی کہ قرآن نے اسی آیت کی ابتداء میں ان کا ایک وصف ”اشداء علی الکفار“ بھی بیان کیا ہے اور آج کے حالات اس وصف سے متصف ہونے کا بھی تقاضا کر رہے ہیں۔ دعاؤں کا سائبان اتنا وسیع تھا کہ شاہ عبد العزیز، سعود، فیصلؒ، فہد، سلمان بن عبدالعزیز اور محمد بن سلمان تک سارے شاہی خانوادے کو اپنی چھاؤں میں لے لیا مگر کشمیر، بوسنیا، افغانستان، عراق، شام اور فلسطین سمیت سارا عالمِ اسلام فلاکت کی دھوپ میں جلتا رہا۔

یہ خوب کھول کھول صراحت سے کر بیان کیا گیا کہ سعودی فرماں رواؤں کے دستِ مبارک سے حرمین کی توسیع اللہ تعالیٰ کی ایک بہت بڑی رحمت ہے مگر کنایوں اور اشاروں میں بھی یہ اطلاع نہ دی گئی کہ زحمتوں کی ایک کالی گھٹا بابری مسجد سے لے القدس تک تمام سجدہ گاہوں کو زد میں لینے والی ہے اس کے سد باب کے لیے بھی تدبیر کی جائے۔ 27 منٹ اور 28 سیکنڈ کی اس طویل تقریر میں مسلمانوں کے حق میں دو جملے بولے گئے :

”اللھم اصلح احوال بلادھم و تول شؤونھم“
”اے اللہ! ان کے ملکوں کے حالات درست فرما دے اور ان کے معاملات کی نگہبانی فرما۔ “

درد مندوں سے نہ پوچھو کہ کہاں بیٹھے ہیں
تیری محفل میں غنیمت ہے جہاں بیٹھے ہیں

یہ سارے احوال خطبہ حج کے ہیں جو اس خطبہ حجۃ الوداع کی تقلید میں دیا جاتا ہے جس میں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمان کی جان، مال، عزت اور آبرو کو حرمت و تقدیس میں مکہ مکرمہ، حرم کعبہ، شہر ذوالحجہ اور یومِ کے ہم پلہ قرار دیا۔ معاشرتی عدل و انصاف سے لے کر خوارج کے فتنے کے ظہور اور ان سے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے قتال تک عالم اسلام کی ایک ایک قضیے اور مسئلے پر گفتگو فرمائی۔

حج مسلمانوں کا ایک عظیم اجتماع ہے۔ یہ ایک ایسے فقید المثال اجتماع کا مظہر ہے جس کی نظیر دنیا کے کسی دوسرے مذہب میں نہیں ملتی۔ خطبہ حج سننے دنیا بھر سے 25 لاکھ کے قریب مسلمان میدانِ عرفات میں جمع ہوتے ہیں۔ پھر آج کے جدید ترین ذرائع ابلاغ ندائے عرفات کو دنیا کی معروف زبانوں میں ترجمہ کر کے اربوں انسانوں تک پہنچا دیتے ہیں۔ یہاں پر نصب منبر سے اٹھائی جانے والی آواز حکمرانوں سے لے عام آدمی تک ہر ایک کے دل میں غیر معمولی وقعت اور عظمت رکھتی ہے۔

یہاں کا اشارہ بھی حکم کا درجہ رکھتا ہے۔ اگر یہاں دیا جانے والا خطبہ اور دعائیں بھی یوں روایتی واعظانہ روش کا مظہر بن کر اٹھیں گی اور عالمِ اسلام کی زمینی صورتِ حال اور واقعاتی منظرنامے سے اس قدر لاتعلق ہوں گی تو پھر یہ حرمان نصیب امت کس کے شانے پر جا کر اپنا سر ٹیکے گی اور کسے جا کر اپنا دکھڑا سنائے گی۔

آخر میں خطبہ حج پر معروف عالمِ دین مفتی سید عدنان کاکا خیل کا تبصرہ ملاحظہ کیجیے :

”آج کا خطبۂ حج کسی طور اس دُکھیاری امت کی ترجمانی نہیں تھا۔ کاش مسلمانوں کے اس عظیم الشان اور عدیم النظیر اجتماع میں کشمیر، فلسطین و افغان مسلمانوں کے لیے دعا ہی کی توفیق ہو جاتی جیسے اپنے بادشاہ کے لیے کی:

تیرا امام بے حضور، تیری نماز بے سُرور
ایسی نماز سے گزر، ایسے امام سے گزر“


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).