زور دار طمانچہ


زور دار تپھڑ کی آواز سنکر میں نے مڑکر پیچھے کی طرف دیکھا تو ”میرو“ فرش پر پڑا زار و قطار سے رو رہا تھا، سیٹھ شمبے اپنے پہرے داروں کی پہرے میں نیچے کی سیڑھی سے اتر کر اپنے مرسڈیز گاڑی کی طرف جارہا تھا۔ اور ہال کے باہر موجود لوگ ”میرو“ کو لعنت ملامت کررہے تھے۔ مجھ سے جب رہا نہیں گیا تو میں نے میرو کو اٹھا کر گلے لگایا۔

لوگ سمینار ختم ہونے کے بعد اپنی مرسڈیز گاڑیوں میں سوار ہوکر اپنے اپنے منزل کی طرف روانہ ہورہے تھے۔”میرو“ دبے دبے آواز میں بہت کچھ کہنا چاہتے ہوئے بھی رو رہا تھا۔ ”میرو“ سے میری دوستی اس وقت ہوئی تھی جب ”میرو“ صبح سویرے اخبارات کے بنڈل اور چنے کے کاٹن لئے یونیورسٹی کے ہر کلاس روم میں بغیر انٹری کے داخل ہوتا تھا۔ اسے روزی روٹی کی فکر تھی اور معاشرے کو بے سہارا لوگوں کا مذاق اڑانے کا شوق تھا۔

”میرو“ اپنے والدین کا اکلوتا بیٹا ہونے کی وجہ سے غربت کے ہاتھوں مجبور ہوکر اخبارات اور چنے بیچ کر جی رہا تھا۔ کیونکہ ”میرو“ کے والد اس سماج کے ظلم و ستم کا شکار ہوکر منشیات کا ایسا عادی بنا ہوا تھا کہ اس کی زندگی کا ہر لمحہ منشیات کے وہ پڑی تھے جو کبھی چوری تو کبھی بھیک اور کبھی ”میرو“ سے زبردستی چھین کر اپنے نشہ کو پورا کرنے میں لگا ہوا تھا۔

آج یونیورسٹی میں بچوں کے عالمی دن پر چونکہ سمینار ہورہا تھا۔ میرو یہ سمجھ کر آیا تھا کہ شاید بچوں کے بہتر مستقبل کے لئے آج کچھ اہم اعلان ہوگا اور میرو کو بھی کسی اچھے سکول میں مفت کا تعلیم ملے گی۔ چند منٹ پہلے آج کے سمینار کے مہمان خاص ”شمبو اینڈ شگنز انٹرپرائز“ کے مالک سیٹھ شمبے اپنے خطاب میں شہر کے بے سہارے بچوں کے لئے ”شگنز“ اسکالرشپ کا اعلان کرچکے تھے۔ اس بات پر زور دے رہے تھے کہ شہر میں موجود ان تمام بچوں کی تعلیم کی ذمہ داری میری کمپنی لے گی، جو غربت کے ہاتھوں مجبور ہوکر پڑھنے کی ادھوری خواہش رکھتے ہیں اور مسٹر شمبے جب ”شگننز اسکالرشپ کا اعلان کر رہاتھا تو سینکڑوں لوگوں سے بھرا ہوا ہال تالیوں کے آواز سے ایسا گونج اٹھا کہ شاید ہر ایک کو نیا منزل مل گئی۔

فوٹو گرافروں نے اپنے کیمروں کا رخ مسٹر شمبے کی طرف موڑ دیا۔ ہال کے آخری کونے سے جب میری ہنسی نکل گئی تو ہال میں سناٹا چھا گئی، اور مسٹر شمبے کو اپنی تقریر مختصر کرکے ہال سے باہر نکلنا پڑا۔ جب مسٹر شمبے ہال سے باہر نکل رہا تھا تو گیٹ کے قریب موجود ”میرو“ نے کچھ کہنا چاہا کہ زور دار تھپڑ میرو کے گال پر پڑی۔ کیونکہ شہر کی سب سے بڑی کمپنی کے مالک کو یہ بات ناگوار گزری کہ کوئی پھٹے پرانے اور میلے کپڑوں کے ساتھ اس سے بات کرنا چاہ رہا ہے۔ میرو کی اس گستاخی پر مسٹر شمبے نے میرو کے گال پر ایسا تھپڑ رسید کیا کہ وہ منہ کے بل زمین پر گرگیا اور اس کے گال سرخ ہوگئے۔

اب سمینار ختم ہوچکا تھا۔ سارے لوگ اپنی اپنی منزل کی طرف جاچکے تھے۔ میرو نے اتنا کہہ کر کہ مجھے چپ کردیا کہ تم جاؤ مسٹر شمبے سے اپنا حساب لے لو تم میری روداد لکھ نہیں سکتے۔ میں سر نیچے جھکائے اپنی آنسووں کو صاف کر رہا تھا کہ اتنے میں پروفیسر جان نے مجھے گلے لگاتے ہوئے کہا کہ بیٹا معاف کیجے ہم سب شرمندہ ہیں۔ اس شہر میں سینکڑوں میرو رہتے ہیں جو کہ معاشرے کی بے رحمی اور ظلم کے آگے بہرے، گونگے اور اندھے بنے ہوئے ہیں۔ پروفیسر نے گہری سانس لیتے ہوئے ہوئے اتنا کہا کہ بیٹا جاؤ اور ایسے سینکڑوں میرو کی آواز بنو۔

پروفیسر کے زبان سے یہ سنتے ہوئے میں اپنی موٹر بائیک کو کک لگا کر ایک ایسی منزل کی تلاش میں نکلا جہاں مجھے سینکڑوں میرو مل سکتے تھے اور میری کہانی کو ایک نیا روپ۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).