دفعہ 370 اور جموں کشمیر


میرے ذہن میں ایک سوال ہے کہ دفعہ 370 کے خاتمہ کے بعد جموں کشمیر کی نوعیت تبدیل ہو کر پاکستان کے زیر انتظام گلگت بلتستان جیسی یا اس سے بھی بدترین ہو گئی ہے۔

پاکستان نے جس طرح CPEC منصوبہ یا نیلم جہلم پروجیکٹ شروع کیا یا یک طرفہ طور پر تجارتی معاہدے سے دستبرداری، واہگہ اور سمجھوتہ ایکسپریس کی بندش کا راستہ اختیار کیا ہے اگر بھارت اس صورتحال سے فائدہ اٹھاتے ہوئے پاکستان کی طرز پر انڈس واٹرز ٹریٹی سے دستبردار ہو جاتا ہے اور لداخ سے جہاں وہ دریائے سندھ، وادی کشمیر میں دریائے جہلم اور جموں میں دریائے چناب پر سندھ طاس معاہدے کے مطابق جنرل ضیا اور جنرل مشرف کی حکومتوں کی رضامندی کے ساتھ، متعدد ڈیم تعمیر کر چکا ہے، دریاؤں کا رخ تبدیل کرکے آنے والے برسوں میں پاکستان میں مستقل خشک سالی کی بنیاد رکھ دے گا۔ بھارت کی جانب سے ان دریاؤں پر پاکستان کی فوجی حکمرانوں جنرل ضیاء اور جنرل مشرف کی اجازت سے درج ذیل ڈیم تعمیر کیے گئے :۔

1۔ چناب سلال ڈیم

2۔ سورو چوٹک ہائیڈرو الیکٹرک پلانٹ

3۔ چناب دُل ہستی ہائیڈرو الیکٹرک پلانٹ

4۔ کشن گنگا کشن گنگا ہائیڈرو الیکٹرک پلانٹ 7.55 ایم سی ایم

5۔ انڈس نیمو بزگو ہائیڈرو الیکٹرک پلانٹ

6۔ چناب رتلے ہائیڈرو الیکٹرک پلانٹ 23.86 ایم سی ایم

7۔ چناب سلال پن بجلی گھر

8۔ دریائے جہلم دری اوری۔ 2 ڈیم 6.34 ایم سی ایم

9۔ چناب بگلیہار ڈیم

بھارت ان ڈیموں کے ذریعے نہ صرف پاکستان آنے والے جموں کشمیر کے تمام دریاؤں، سندھ، جہلم اور چناب بشمول ان کے بلکہ معاون دریاؤں کے، رخ موڑنے کی بھی صلاحیت رکھتا ہے، جبکہ سندھ طاس معاہدے کے مطابق ان دریاؤں کے پانی پر پاکستان کا استحقاق ہے۔

آگر بھارت یہ دریا روک لیتا ہے تو ایسی صورت میں دریائے سندھ کا انحصار دریائے کابل جو افغانستان سے پاکستان میں داخل ہوتا ہے، اور دریائے چترال پر رہ جائے گا جو تربیلہ ڈیم کی ضرورت پوری نہیں کر سکتے، اسی طرح دریائے جہلم کا انحصار دریائے کاغان اور راولپنڈی کے نالہ لئی پر رہ جائے گا جو منگلہ ڈیم کی ضرورت پوری نہیں کر سکتے۔ جبکہ سیالکوٹ ہیڈ مرالہ جو دریائے چناب پر ہے مکمل طورپر خشک ہوجائے گا۔

بھارت کے حالیہ اقدامات پاکستان کے فیصلہ سازوں سے ایک نئی حکمت عملی کا تقاضا کرتے ہیں، جن کا مقصد قانون آزادی ہند 1947، کے علاوہ یو این سیکیورٹی کونسل اور یو این انڈوپاک کمشن کی قراداد کے مطابق پاکستان کے زیر انتظام ریاست جموں کشمیر میں ”عوام کی آزادانہ مرضی کے اظہار“، ”بہتر حکومت اور انتظامیہ کی تشکیل“ پر مبنی اصولوں پر ہو، جس کی ذمہ داری حکومت پاکستان کو سونپی گئی تھی۔ حکومت پاکستان کے پاس واحد قابل عمل راستہ مندرجہ ذیل اصولوں پر مبنی ہوسکتا ہے :۔

1۔ آزادکشمیر، گلگت، بلتستان اور چترال سمیت کے پی کے میں ضم کیے جانے والے ریاستی حصوں کو دوبارہ ایک وحدت میں بحال کیا جائے اور ان کی آئینی و قانونی تشکیل کے لئے آئین ساز اسمبلی کا حق دیا جائے

2۔ اس ریاست کو اقوام متحدہ کی قراردادوں کی روشنی میں بین الا قوامی قوانین کا جواز حاصل ہے، چونکہ یو این کمشن نے جموں کشمیر پر اپنی قرارداد میں آزادکشمیر کے لئے حکومت پاکستان کو یہ ذمہ داری سونپ رکھی ہے کہ وہ ”عوام کی آزادانہ مرضی کے اظہار“، ”بہتر حکومت اور انتظامیہ کی تشکیل“ پر مبنی حکومت تشکیل دے۔ اس طرح اس کی نوعیت فلسطینی ریاست یا شمالی قبرص (ترک سایپرس) یا روسی آبخازیہ کی طرز پر کلی یا جزوی طور پر تسلیم شدہ ہو سکتی ہے۔ شاید ان سے بڑھ کر بھی کیونکہ یہ اقوام متحدہ کے قائم ادارے کے مطالبہ پر قائم ہو سکتی ہے۔

3۔ اس ریاست کی ملکیت اور حاکمیت میں منگلا ڈیم، نیلم جہلم، سی پیک، دیامر بھاشا ڈیم اور ان علاقوں میں دیگر میگا پراجیکٹس میں شراکت داری کے لئے ان پر مجوزہ وحدت کا حق ملکیت تسلیم کیا جائے

آگر آج ان مسائل کو ان کے بنیادی اجزاء کی بنیاد پر حل نہ کیا گیا تو والے وقتوں میں جنرل ایوب، جنرل ضیاء اور جنرل مشرف کی حکومتوں کی جانب سے بھارت کو پانی اور دریاؤں کے مدعا پر دی جانے والی رعایتیوں سے، مشرقی پاکستان میں ملٹری آپریشن اور بھٹو کی پھانسی جیسے فوجی فیصلوں سے بھی بدترین حالات پیدا ہوں گے۔ پنجاب اور سندھ کی سرسبز زمینیں خشک سالی کا شکار ہو جائیں گی۔

اللہ کرے میرے یہ خدشات غلط ہوں مگر بھارت میں انتخابی مہم کے دوران وزیراعظم مودی نے سرینگر میں معنی خیز انداز میں کہا تھا کہ پاکستان کو کشمیر میں پانی یا خون میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا ہوگا۔ جنرل ایوب، جنرل ضیاء اور جنرل مشرف کی حکومتوں نے تو آدھا پانی دیا تھا، کیا اب کوئی سارا پانی ہی دے دے گا؟

آخری سوال کہ کیا بھارت کے ساتھ محترمہ بینظیر بھٹو اور میاں نواز شریف کی اعتماد سازی کی حکمت عملی پاکستان کے بہترین مفاد میں نہ تھی۔ 370 کے ہٹانے جانے کے مضمرات بہت جلد سامنے آنا شروع ہوں گے۔

عاشق ہمدانی
Latest posts by عاشق ہمدانی (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).