افسانوں کے مجموعے ”خوابوں کی پرورش“ سے ایک افسانہ ”رسی“۔


سیاہ کالی رات کسی ظالم کی حکومت کی طرح ہر طرف پھیلی ہوئی تھی۔ کسی بے حیا حسینہ کی سیاہ زلفوں کی طرح سیاہ رات۔ ایسی سیاہ رات، لگتا تھا کہ اُس نے کبھی سحر کا رُخِ زیبا چومنا تو درکنار دیکھا تک نہیں تھا۔ کبھی کسی چاند کے بوسے تو کیا لینے تھے اُس کے درِ حسن پر سر جھکانے کامزا تک نہیں چکھا تھا۔

یہ کالی سیاہ بھیانک رات ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہی تھی۔ کسی غریب کے برے دنوں کی طرح بڑھتی ہی جارہی تھی، پھیلتی ہی جا رہی تھی۔ اوپر سے کسی عیار ناگن جیسی تارکول کی سیاہ سڑک جو شیطان کی آنت کی طرح اس طرح دراز تھی کہ جیسے وہ بے منزل اور بے نشان ہو۔ اس سیاہ سڑک پر سیاہ ٹائروں کے چلنے کی آواز اور ٹرک کے سیاہ منہ میں دھنسے اُس کے سیاہ انجن کی ہیبت ناک آواز نے فضا میں ایک عجیب سی دہشت اور وحشت پھیلا رکھی تھی۔ اور تو اور سنگِ میل بھی اس رات کا سیاہ لبادہ اوڑھے ہوئے تھے۔

ٹرک کے اگلے حصے کی چھت کے اوپر حمید سونے کی کوشش کررہا تھا لیکن اس کا تنگ دل کمبل کبھی اُس کے پیروں سے اُتر جاتا کبھی سر سے۔ اِسی کھینچا تانی میں کبھی کبھی اُ س کے پاؤں چھت کے ارد گرد لگے جنگلے سے ٹکرا جاتے۔ وہ جنگلے کو زور سے پاؤں مارکراپناغصہ نکال لیتا۔ ابھی سونے کی کوششیں جاری تھیں کہ ٹرک کا کنڈکٹر بھی اوپر آ گیا۔ اُسے اوپر آتے دیکھ کر حمید نے پوچھا،

”اوے! تم کدھر۔ “

کنڈکٹر نے اُ س کے کمبل میں گھستے ہوئے جواب دیا،

”سونے۔ “

یہ کہہ کر وہ کمبل میں گھس گیا۔

”اوئے پائی! ادھر ایک ہاتھ کی جگہ میں کہاں تُو سوئے گا، کہاں میں۔ “

حمید نے اُسے جھنجوڑتے ہوئے کہا۔

”کس نے کہا تم ادھر سوئے گا، ادھر ہم سوئے گا۔ “

کنڈکٹر نے دوسری طرف کروٹ لیتے ہوئے کہا۔

”اوئے خان کے بچے۔ دیکھو مجھے سونے دو میں پہلے ہی بہت دکھی ہوں۔ میں نے سوچا تھا میں سو جاؤں تو شاید میرا دکھ کچھ کم ہو جائے۔ “

حمید نے باہر دیکھتے ہوئے کہا۔

”اومیر اخدایا۔ تمہیں اس چھوٹی سی عمر میں کیا دکھ لگ گیا۔ “

کنڈکٹر اُٹھ کر بیٹھ گیا۔

”ہائے۔ او یار میرا چُنا جو بکنے جارہا ہے۔ “

حمید نے ایک آہ بھرتے ہوئے کہا۔

”اے بھائی تیرا نام کیا ہے۔ “

کنڈکٹر کو بھی نیند نہیں آرہی تھی اس لئے وہ حمید کے ساتھ باتیں کرتے ہوئے کچھ وقت بتانا چاہ رہا تھا۔

”یار میرا چُنا۔ “

یہ کہہ کر اُس نے اپنی بائیں طرف نیچے منہ کر کے پُکارا۔

”میلا چُنا کیسا ہے۔ تھکا تو نہیں۔ “

نیچے سے اُسے آواز سنائی دی،

”میں۔ ں۔ ں“

”اوئے تیرا خیر۔ تُو ایک بکرے سے پیار کرتا ہے۔ “

حمید نے ہولے سے کہا، ”ہاں“

جیسے کوئی لڑکی اظہارِ محبت میں ہاں کہہ رہی ہو۔

”یہ بکرا نہیں ہے یہ میری جان ہے، یہ چھوٹا سا تھا ہمارے ہمسایوں کے گھر، اُس کی۔ نا۔ ماں مر گئی۔ تو میں نے بے بے سے پانچ سو روپے لے کر خرید لیا۔ “

”اوئے! بکری کا بچہ پانچ سو روپے میں۔ “

پہلے تو کنڈکٹر نے حیرانی کا اظہار کیا پھر خود ہی جواب دیا،

”ہاں بھائی مہنگائی بھی تو بہت ہے۔ بہت ستھرا مل گیا بھائی۔ “

”ہاں مرنے ولا تھا نا۔ وہ تومیں تھا جو گود میں لے کر اُنگلی پر دودھ لگا کر اسے دودھ پلاتا تھا۔ “

حمید نے اندھیرے آسمان کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔

”ہوں۔ “

کنڈکٹرنے اندھیرے میں اُ س کی آنکھوں کی طرف دیکھا۔

”پتہ ہے میں نے بے بے سے وعدہ کیا تھا کہ میں اِسے بچوں کی طرح پالوں گا۔ پیغمبر نے بھی تو اپنے بچے کو قربانی کے لئے پیش کردیا تھا۔ پتہ ہے تمہیں۔ “

”ہاں اتنا بھی ہم کافر نئیں۔ وہ بچہ بھی پیغمبر تھا۔ “

” ہاں اتنا بھی ہم کافر نئیں۔ وہ بچہ بھی پیغمبر تھا۔ “

کنڈکٹر نے حمید کی باتوں میں دلچسپی کا اظہار کرتے ہوئے جواب دیا۔

”پتہ ہے میں اسے بکری کا دودھ پلاتا تھا۔ پھر جب اس نے شٹالا کھانا شروع کر دیا تو میں نے اپنے گھر کے پیچھے ایک کھیت بنایا جہاں میں نے شٹالا ُاگایا، وہ خالص شٹالا تھا بڑا خالص، گھر کے پانی کا۔ باقی تو کھادوں کے مارے ہوتے ہیں۔ پتہ ہے نا تمہیں، گندے پانی گندی کھادیں۔ “

”ہاں ہاں میں کوئی ہندوستان سے نہیں آیا ادھر کا ہی ہوں۔ “

کنڈکٹر نے جواب دیا۔

”تو یہ خالص شٹالا کھا کر۔ “

” شٹالا کیاہوتا ہے۔ “

کنڈکٹر نے حمید کی بات کاٹتے ہوئے پوچھا۔

”میں کوئی ہندوستان سے نہیں آیا ادھر کا ہی ہوں۔ بڑا آیا ادھر کا۔ شٹالے کا نہیں پتہ۔ اوئے پائی پٹھے ہوتے ہیں۔ “

”پٹھے۔ پٹھے۔ “

کنڈکٹر نے یہ نیا لفظ یاد کرنے کی کوشش کی۔ اگرچہ اُسے یہ ابھی بھی سمجھ نہیں آیا تھا۔ البتہ رسوائی سے بچنے کے لئے اُس نے ہاں میں سر ہلا دیا۔

”بے بے بھی اس کا بہت خیال رکھتی تھی۔ گھی والی روٹی پکا کر اُس پر مکھن لگا کر کھلاتی تھی۔ یہ اتنا حرامی ہے بے بے کے علاوہ کسی کے ہاتھ سے روٹی نہیں کھاتا تھا۔ اور پتہ ہے جیسے کاکو اور منُی بے بے کے پاس بیٹھ کر کھاناکھاتے تھے یہ بھی ویسے ہی اُن کے ساتھ جڑ کر کھانا کھاتا تھا۔ ایک دفعہ یہ بیمار ہو گیا تو ہم اسے شاہ جی کہ مزار پر لے کر گئے وہاں چھوٹے شاہ جی نے ایک رسی دی اور کہا یہ ہمیشہ اس کی گردن میں ڈالے رکھنا۔ وہ دن گیا آج کا دن آیا چُنا کبھی بیمار نہیں ہوا۔ “

”اچھا۔ تو تم لوگ اس کو بیچتے کیوں ہو۔ “

کنڈکٹر نے حمید کی باتوں میں دلچسپی لیتے ہوئے پوچھا۔

”ہائے! ہم نے تو سوچا تھا کہ ہم اسے اللہ کی راہ میں قربان کریں گے لیکن کیا کریں وہ مُنی کی شادی ہے نا۔ پیسے کم تھے اس لئے بے بے نے کہا کہ اُسے بیچ کر مُنی کے لئے فرنیچر بنائیں گے۔ ہم سب نے بہت کوشش کی۔ میں تو بے بے کی بات کو سمجھ گیا تھا۔ لیکن مُنی بڑی مشکل سے سمجھی وہ تو رو رو کر بے بے سے کہہ رہی تھی اگر چُنے کو بیچ کر میری شادی کرنی ہے تو نہ کرو۔ پر کیا کریں یار۔ “

”اوے یار تو نے تو مجھے میری کہانی سُنا دی۔ میرے لالے نے تو ہمارا گھر بیچ کر بہن کو جُدا کیا تھا۔ جب ہمارا باجی کا شادی ہوا تو ہم باجی کو جدا کر کے تورو رہے تھے مگر یہ سوچ سوچ کر زیادہ رو رہے تھے کہ اب ہمارا گھر بھی چھن جائے گا۔ یہ بہنیں کیوں ہوتی ہیں۔ “

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3