ہوشیار باش! دینی محفلوں میں ”اجازت“ ضروری ہے!


میرا تعلق ایک دینی گھرانے سے ہے۔ کافی عرصے سے انگلینڈ میں مقیم ہوں۔ میرے دینی رجحانات کو دیکھتے ہوئے ایک صاحب میرے گھر تشریف لائے اور فرمانے لگے ”ماشاء اللہ! آپ دینی آدمی ہیں اور یہاں آپ کے ماننے والے بھی کافی ہیں۔ آپ کو یہاں ایک مسجد“ کھول ”لینی چاہیے“۔ ”کھول“ کا لفظ مجھے بڑا عجیب محسوس ہوامگر میں نے اس کی نیت پہ کوئی شک نہ کیا۔ میں نے یہی سمجھا کہ شاید وہ اپنی بات مناسب الفاظ میں بتا نہیں سکا۔

کچھ دنوں ہی گزرے تھے کہ ایک بزرگ عالم دین جو کافی عرصے سے برطانیہ میں دین اسلام کی ”خدمت“ کا فریضہ سرانجام دے رہے ہیں، نے بھی بڑی رازداری سے نصیحت کی کہ مجھے یہاں اپنا کوئی نہ کوئی اسلامی سنٹر ”کھول“ ہی لینا چاہیے۔ انہوں نے مزید وضاحت یوں کی ”برطانیا (میری رائے میں برطانیہ، لکھنا غلط ہے ) میں آج کل حالات بڑے خراب ہیں۔ یورپی یونین سے نکلنے کے بعد یہ حالات اور بھی بدتر ہونے لگے ہیں۔ ان حالات میں دین کے کام میں بڑی“ برکت ”ہے“۔ ایک تو لفظ ”برکت“ سیاق و سباق میں ویسے ہی فٹ نہیں ہو رہا تھا کہ اوپر سے ان کا تلفظ بڑا عجیب تھا۔ بہرحال ان کے ادائیگی نے مجھے سمجھا دیا کہ ”برکت“ سے ان کی کیا مراد ہے۔ مزید تسلی ایک آنے والی محفل میں بھی ہوگئی۔

جی ہاں! میں نے اس محفل میں نعت پڑھی تو لوگوں نے کرنسی نوٹ خوب نچھاورکیے۔ جب محفل ختم ہوئی تو میزبان نے مجھے ایک لفافہ بھی عنایت فرمایا۔ جب باہر آنے لگا تو ایک حاجی صاحب جو اکثر محافل میں نقیب پائے جاتے ہیں، نے مجھے کہا ”ماشاء اللہ! آج آپ کی نعت بڑی“ لگی ”ہے“ اور ”خدمت“ بھی ٹھیک ہوئی ہے۔ اسی لیے تو میں کہتا ہوں کہ دینی کاموں میں اللہ نے عزت بھی بڑی رکھی ہے اور ”خدمت اور ترقی“ بھی جلدی اور خوب ہوتی ہے ”۔ کامیابی، خدمت اور عزت سے کیا مراد ہے؟ یقیناً آپ بھی بڑی اچھی طرح سمجھ گئے ہوں گے۔

اسی طرح ایک اور محفل میں ایک صاحب سے تعارف ہوا۔ یہ حضرت ایک معروف نعت خوان ہیں اور بڑے ہی سریلے ہیں اوراپنی ”سر“ کا فائدہ بھی خوب اٹھاتے ہیں۔ عاجزی بھی کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی۔ محفل میں آئے، سپیکر ہاتھ میں لیا اور کہنے لگے ”اتنے عظیم لوگوں کی موجودگی میں میری کیا مجال کہ میں کچھ عرض خدمت کروں؟ بس“ حاضری ”لگواؤں گا اور اس کے بعد“ اجازت ”چاہوں گا“۔ اب یہ الگ بات کہ انہوں نے تب تک سپیکر نہیں چھوڑاجب تک لوگ ”اجازت“ دیتے رہے اور حضرت صاحب بھی اپنے فن میں کافی ماہر تھے کہ انہوں نے بڑے بڑے کنجوسوں کی جیبوں سے بھی ”اجازت“ نکلوا کر ہی دم لیا۔

جب ذرا ”اجازت“ دینے کا معاملہ تھم چکا تو سپیکر چھوڑا اور بانی محفل کے پاس آکر بیٹھ گئے۔ دوتین منٹ تک بڑی بے چینی سے پہلو ”مارتے“ رہے اور پھر کہنے لگے ”اب ہمیں“ اجازت ”دیجیے کہ ہم نے آگے بھی ایک جگہ“ حاضری ”لگوانی ہے“۔ میزبان بھی بڑے سادہ دل تھے اور غالباً پہلی دفعہ محفل کروارہے تھے، ان کو سمجھ نہ آئی، کہنے لگے ”جناب! آپ کی بڑی مہربانی کہ یہاں تشریف لائے۔ اگر مجبوری ہے تو آپ تشریف لے جا سکتے ہیں“۔

اب نعت خوان صاحب بڑے پریشان ہوئے، انہوں نے نقیب محفل کی طرف دیکھا۔ وہ بھی چونکہ اس میدان کا پرانا کھلاڑی تھا، لہذا آنکھوں کا اشارہ سمجھ گیا۔ وہ مذکورہ نعت خوان کے قریب آئے اور اپنا سر ان کی طرف جھکا یا۔ نعت خوان، نقیب کے کان میں یوں گویاہوا ”میزبا ن کو سمجھ ہی نہیں آرہی۔ آپ نے مجھے بلایاتھا۔ اب آپ کی ذمہ داری ہے کہ مجھے“ اجازت ”لے کر دیں“۔ نقیب محفل یہ سن کرکہنے لگا ”میں کہاں سے لے کردوں تجھے“ اجازت؟ آپ خود ایک پرانے آدمی ہیں لہذا خود مانگ لیں ”۔

یہ سن نعت خوان نے اپنا سا منہ بنایا اور کہنے لگا“ لگتا ہے میزبان صاحب کو پتا نہیں چل رہا۔ میں نے دوتین بار انہیں کہاہے کہ مجھے ”اجازت“ چاہیے۔ میں نے آگے ایک اور بہت ہی ”بڑی“ محفل میں  ”حاضری“ لگوانی ہے مگر میزبان صاحب ہیں کہ ”اجازت“ دینے کا نام ہی نہیں لے رہے۔ لگتا ہے کہ آج کی محفل ”فی سبیل اللہ“ ہی جائے گی ”۔

اس طرح کے واقعات کو کافی عرصہ بیت چکاہے۔ اب تو لوگوں کی کافی ٹریننگ ہو چکی ہے۔ اگر آپ کو کسی دینی محفل میں جانے کا موقع ملے تو آپ دیکھیں گے کہ پروگرام شروع ہوتے ہی ”اجازت“ کا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے۔ لوگ جب محسوس کرتے ہیں کہ نعت خوان جی تھکے ہوئے لگ رہے ہیں تو وہ اپنی جگہ سے اٹھتے ہیں، سبحان اللہ کہتے ہیں، اپنی جیب میں ہاتھ ڈالتے ہیں اور حسب توفیق ”اجازت“ نکال کر حضرت کے قدموں میں رکھ دیتے ہیں۔ کچھ لوگ تو ”اجازت“ ہاتھ میں لے کر اپنی جگہ سے اٹھتے ہیں اور اور دور سے چلتے ہوئے حضرت جی کی طرف آتے ہیں تاکہ سب لوگ دیکھ لیں کہ فلاں حاجی صاحب بڑی ”اجازت“ دے رہے ہیں۔

ہاں! اگر یہ اجازت پیر صاحب کو دینی ہو تو باقاعدہ دوزانو ہو کر بیٹھا جاتا ہے، پیر صاحب کے ہاتھ چومے جاتے ہیں اور پھر یہ ”اجازت“ حضرت صاحب کی جیب میں ڈال دی جاتی ہے یا ہاتھ میں تھما دی جاتی ہے اور پیر صاحب بڑی ”بے نیازی“ سے یہ اجازت اپنے پیچھے بیٹھے ہوئے ”خلیفہ“ کی طرف اچھال دیتے ہیں جو اس بابرکت ”اجازت“ کو بڑی عقیدت سے ایک بیگ میں ڈال دیتا ہے۔ یہ تو وہ ”اجازت“ ہے جو محفل کو گرمانے اور ”ذوق“ پیدا کرنے کے لیے دی جاتی ہے۔

اصل ”اجازت“ محفل کے بعدبوقت ”رخصت“ دی جاتی ہے جو بسا اوقات لفافوں میں بند اور ”طے شدہ“ ہوتی ہے۔ اور مزے کی بات یہ ہے کہ اسی ”اجازت“ کی بنیاد پر یہ فیصلہ کیا جاتا ہے کہ محفل کس قدر ”کامیاب“ ہوئی ہے۔ اس کامیابی کے لیے ”اج محفل چنگی لگی اے“ کا کوڈاستعمال کیا جاتا ہے۔ جس قدر ”اجازت“ زیادہ نچھاور کی جائے اور دی جائے، محفل کو بھی اسی قدر کامیاب قراردیاجاتا ہے۔ پیرصاحبان کا میزان بھی یہی ہے۔ پیروں کے ہاں کسی مرید کی عقیدت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاتا ہے کہ اس نے پیر صاحب کی ”خدمت“ کتنی کی تھی اور دورے کی کامیابی کا میزان یہ ہوتا ہے کہ اس ”تبلیغی دورے“ میں کل ملاکر ”اجازت“ کتنی بنی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).