صوفی اور بولتی مورتیاں


ماں نے گرما گرم پراٹھے کے اوپر تازہ نکلے مکھن کی چمکتی ہوئی ٹکیا رکھی اور ساتھ میں اسٹیل کی چھوٹی سی کٹوری میں تھوڑا سا شہد ڈال کر پلیٹ آگے کو سرکائی، جہاں باورچی خانے کے دروازے کے بالکل سامنے زمین پہ بچھی چھوٹی سی دری پر صوفی روز کی طرح ناشتہ کر نے کے لئے بیٹھا تھا۔ ماں بیٹا کا برسوں سے یہی وتیرہ تھا۔ صوفی دانت مانجھ کر، نہا دھوکر، عبادت سے فارغ ہوکر ناشتہ کرنے آتا تھا اور ماں باورچی خانے میں چوکی پہ بیٹھی اس کے لیے گرماگرم پراٹھا تیار کرتی تھی۔

کبھی ایسا نہیں ہوا کہ صوفی کے آنے اور ماں کے توے سے پراٹھا اتارنے میں کوئی وقفہ آیا ہو۔ مگر آج ماں کی مسکراہٹ میں اداسی سی تھی۔ صوفی نے ماں کی ہلکی مسکراہٹ میں چھپی اداسی کو بھانپ لیا تھا، مگر خاموش رہا۔ ایسی اداسی اس نے ماں کے چہرے پہ اس وقت بھی دیکھی تھی جب گھات لگائے بلے نے مرغی کے بچے کو اپنے ظالم پنجوں میں دبوچا اور یہ جا وہ جا۔ مادہ مرغی دوسرے چوزوں کواللہ کے آسرے چھوڑ، اپنے پر پھلائے، گرن اکڑائے، کڑکڑاتی بلے کے پیچھے لپکی تو پیچھے سے ماں جی ہاتھ میں جھاڑن پکڑے دوڑیں۔

مگر بلا، پلک جھپکنے جتنی دیر میں دیوار کے پار گم ہو گیا۔ ادھر ادھر بہتیرا تلاشا مگر بھوک کی دوزخ میں جلتا بلا کہاں ہاتھ آنا تھا۔ مرغی نے اپنے باقی چوزے پروں میں دبائے اور چوکنی ہو کر عجیب عجیب سی آوازیں نکالنے لگی۔ مگر ماں کے جی کا چین چھن گیا۔ ”موا بلا، معصوم چوزہ اور غریب مرغی“ کا ورد پورا دن ان کے لبوں پر رہا اور آنکھوں کی نمی نہ خشک ہونے پائی۔

ناشتہ کرتے صوفی نے کن اکھیوں سے کئی بار ماں کو دیکھا مگر کوئی سوال کرنے کی ہمت نہ جٹا پایا اور سر جھکائے ناشتہ کرتا رہا۔

آخر ماں نے چپ کا روزہ توڑا۔

”آج صبح جب میں پرندوں کو دانہ دینے نکلی تو ایک بے چاری بے جان چڑیا دیوار کے کونے پہ ٹکی ہوئی تھی۔ پتہ نہیں کس پہر دم دیا۔ کہاں ہوں گے اس کے بھوکے بچے“۔ ماں کی آنکھوں میں نمی اور لہجے میں درد محسوس کیا جاسکتا تھا۔

صوفی نے اپنی سادہ سی ماں کے چہرے کو بغور دیکھا۔ لرزتے آنسو ڈھلکنے کو تھے، جنہیں ماں نے دوپٹے میں جذب کر لیا تھا۔

صوفی نے بستہ اٹھایا مگر روز کی طرح رخصت مانگنے کی بجائے، آنگن کی طرف چل دیا اور لمحہ بھر میں ایک چھوٹی سی چڑیا اٹھائے ماں کے قریب آن بیٹھا۔ ”یہ لیں آپ کی چڑیا۔ “

”ہیں؟ “ ماں حیرت زدہ رہ گئی۔

”میں نے بنائی تھی۔ آپ کے لئے۔ صحن کی مٹی سے۔ “ یہ کہہ کرصوفی مسکرایا تو ماں کا چہرہ بھی یکبارگی کھل اٹھا۔

اسے پتہ بھی نہیں چلا کہ کب۔ کچی۔ نرم۔ لچکتی۔ گدگداتی مٹی نے اس سے بولنا شروع کردیا تھا۔ جیسے ہی مٹی اس کے ہاتھوں میں آتی، اسے ایسا لگتا گویا سرسراتی مٹی اس کے ہاتھوں کو ایک عجیب پیغام دینے کی کوشش کر رہی ہے۔ جیسے ٹرانسمیشن ہو۔ وہ زمین پہ بیٹھتا تو اپنے آس پاس بیٹھے دوستوں پہ نظریں جماتا کہ کیا ان کے اندر بھی محسوسات کی وہی ہلچل ہے جو وہ محسوس کر رہا ہے، جیسے مٹی میں روح ہو۔ زندگی ہو۔ کوئی پیغام ہو۔

کئی بار تو وہ ان نہ سمجھ میں آنے والے پراسرار پیغامات کے تسلسل سے گھبرا کر، مٹی کو چھوڑ کر ہڑبڑا کر گھر کی طرف بھاگ جایا کر تا تھا۔ مٹی کیا کہتی تھی؟ کبھی اداسی بھرے لمحات میں دھنک رنگوں سے سماں بدل دیتی تھی تو کبھی خاموشی کے اسرار کو مزید گہرا بناتی تھی۔ کبھی دن کی روشنی کو رات میں بدل دیتی تھی تو رات کو کائنات میں۔ ایسی سرگوشیاں کرتی تھی کہ اس کے جسم کا رواں رواں کانپنے لگ جاتا تھا۔ چہرہ و جسم کپکپانے لگتے تھے اور آنکھ سے رواں ہوجایا کرتے تھے۔

ایک آدھی اترتی صبح کی کرن نے گویا ایک کند سا تیشہ اس کے ہاتھوں میں تھمادیا تھا۔ لرزتے دل، بھیگتی آنکھوں اور آنسوؤں کی روشنی میں اس نے گندھی ہوئی نرم مٹی سے ایک چڑیا بنائی۔ مٹی، تیشے اور ہاتھوں کے باہمی ربط سے لمحوں میں سلیٹی سی چڑیا نمو پاچکی تھی۔ زرد شاخوں اور چُرمرے پتوں سے مماثل، رخصت ہوتی بہار کے سارے رنگ گویا مٹی نے اس چڑیا کے وجود پر لیپ دیے تھے۔ صوفی نے دھیرے سے وہ چڑیا لے جا کرآنگن کے ایک کونے میں رکھ دی۔

دیہات کی ایک عام، معاملات منفعت سے کوسوں دور، زمین و آسمان اور دن ورات کے تعلق سے بندھی زندگی میں پرندوں کی حمد و ثنا سے صبح جاگتی ہے۔ سویرے اٹھ کر ماں کا پہلا کام پرندوں کو باجرہ ڈالنا ہوتاتھا۔ چوں چوں کرتی چڑیاں مٹکتی ہوئی دانہ چگنے لگیں۔ دیوار سے ٹکی چڑیا دانہ چگنے کے لئے آگے نہ بڑھی تو ماں نے افسوس سے اسے دیکھا۔ اسے گمان بھی نہ گزرا کہ یہ مٹی کی چڑیا ہے اور تاسف سے بولی، ”بھوکی رہ گئی بے چاری۔ “

بس وہی دن تھے جب صوفی کو ولایت مل گئی۔ مٹی گوندھتا جاتا تھا اور نقش ابھرتے جاتے تھے۔ مٹی باتیں کرتی، گنگناتی، رقص کرتی تھی، جسم بنتی تھی۔ گیت گاتی تھی۔ چہرے پہنتی تھی۔ کبھی قدیم زمانوں کی معزول شاہزادیاں لباس سے مٹی جھاڑتی قرنوں کا سفر کر کے اس کے آنگن میں کھڑی مسکراتی تھیں۔ لچکتی کمر، کنول کے پھولوں ایسے پاوٴں، صراحی دار گردن، لباس پر ٹنکا ہر موتی، ٹانکہ، ستارہ، سب مٹی کی انگلیوں اور نفیس برش کی مدد سے چمکتے دمکتے چھم چھم آنکھوں کے سامنے ناچنے لگتے تھے۔

تو کبھی نورانی چہروں والے دور دیش کے بزرگ ماتھے اور ہاتھوں پر لکھی تحریروں سمیت اس کے ہاں پدھارتے تھے۔ وجیہہ و شکیل مرد، دمکتی پیشانی، لچھے دار بال، فراخ سینہ، چوڑے شانے، وہ چہرے جو کبھی اس کے تصور میں بھی نہیں آئے تھے، مٹی اپنے ساتھ لے آتی تھی۔ نقوش، جسمانی خدوخال، تاثرات، لباس، انداز۔ ۔ سب کچھ مٹی میں رلا ملا ہوتا، اس کا اپنا کچھ بھی نہیں ہوتا تھا۔ ہاں بس متحرک انگلیاں اور کسی سحر، کسی طلسم کے زیر اثر ساری فضا۔ ایسے سمے اس کو بھوک لگتی نہ پیاس، نہ سردی لگتی نہ گرمی۔ کسی کے ہونے کا احساس ہوتا نہ کسی کے آنے یا جانے کا۔ کئی کئی دن وہ مٹی کی سنگت میں گزار دیتا اور جب کوئی وجود اس مٹی سے تشکیل پا جاتا تو پھر وہ گویا اپنے آپ میں لوٹ آتا تھا۔

دوست یار آپس میں باتیں کرتے۔ یار مٹی گونگی ہوتی ہے۔ مگر اس کے ہاتھ میں آکر بولتی ہے۔ کہتا ہے مٹی کی مرضی مجھ سے جو چاہے بنوالے۔ میں کچھ سوچ کر بناؤں گا تو مٹی کی دیوی ناراض ہوجائے گی۔ کبھی کبھی رات کو خاموش سوئی ہوئی مٹی کی ڈھیری کے پاس ہم اس کو اُداس دیکھتے ہیں۔ صبح آتے ہیں تو وہ مٹی کسی پیکر میں ڈھلی ہوتی ہے۔ اور صوفی چہک رہا ہوتا ہے۔ رات والی گمبھیرتا، ٹھہری اُداسی اور بے قراری۔ کا دور دور تک پتہ نہ ہوتا۔

اسے علم تک نہیں ہوا کہ اس کی شہرت دور دور تک پھیل چکی تھی اور اس کی بنائی مٹی کی مورتوں کے چرچے ہر جگہ ہو رہے تھے۔ اسے، اور اس کے شہہ پاروں کو دیکھنے لوگ دور دور سے آنے لگے۔ چونکہ پورا شہر اسے جانتا تھا لہٰذا جب بھی کوئی اجنبی اس کا پتہ پوچھتا شہر میں داخل ہوتا، کوئی نہ کوئی اسے صوفی تک پہنچا دیتا۔ صوفی کام روکے بغیر، آنے والوں کو چائے پانی پوچھتا اور ان کی حیرت میں ڈوبی تعریفیں سن کر ہوں ہاں میں جواب دیتا رہتا۔

کوئی اسے حیرانگی وانہماک سے کام کرتے دیکھتا تو کوئی اس کے فن پارے پہروں دیکھتا رہتا۔ نہ تو اسے اپنی وڈیو بنوانے پر اعتراض تھا نہ اپنی مورتیوں کی۔ جو سوال اس سے پوچھا جاتا ہو اس کا جواب سادگی اور ایمانداری سے دے دیا کرتا تھا۔ اس کی یہی باتیں انٹرویوز کے طور پر جگہ جگہ شائع ہو جاتیں تو کئی صحافی اسے ان اخبارات اور رسائل کی کٹنگ لا کر دیتے تھے جن میں اس کے آرٹ اور فن پاروں کے متعلق تصویریں چھپی ہوئی ہوتی تھیں، جنہیں دیکھ کر وہ ایک طرف رکھ دیا کرتا تھا۔

بھی کبھی اس کے دوست اسے بتایا کر تے تھے کہ جن لوگوں نے اسے کام کرتے دیکھ کر اس کی تصویریں اور وڈیو ز بنائی تھیں وہ سوشل میڈیا پر وائرل ہوگئی ہیں جس کی وجہ سے بے شمار لوگ اسے اور اس کے فن پاروں کو پسند کرنے لگے ہیں مگر صوفی تو مٹی کے عشق میں یوں گرفتار تھا کہ اس کی ساری دلچسپی مٹی کی آواز سننے اور اس کے ساتھ انصاف کرنے تک محدود تھی۔ اسے صرف اتنا جاننے میں دلچسپی تھی کی گندھی ہوئی مٹی میں سمائی مورت کو وہ روپ کیسے عطا کرے کہ مٹی خوش ہو جائے۔

انہی دنوں اسے بہت سے لوگوں نے بلاوے بھیجنے شروع کیے، کبھی دوستوں تو کبھی احباب کے ہاتھوں۔ مگر کسی دوسرے شہر جانے یا کسی بڑے آرٹ سٹوڈیو کا تصور اس کے لئے بالکل اجنبی اور نیا تھا۔ یہ تو سارے دوستوں کی ضد نے اسے مجبور کیا کہ اسے کم از کم ایک بار کسی اہم بلاوے پر شہر جانا چاہیے۔ اسے سب سے زیادہ تامل اپنی مورتیوں کو کسی گاڑی میں رکھ کر لے جانے پر تھا۔ وہ انہیں خراش آنے کے تصور سے بھی ڈرتا تھا۔ آخرکار جب ایک اہم صحافی نے اسے اس بات کی یقین دہانی کروائی کہ اس کے چند فن پارے نہایت احتیاط سے ماہر ین کی نگرانی میں لے جائے اور واپس لائے جائیں گے تب اس نے جانے کی حامی بھری۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں

ڈاکٹر شہناز شورو
Latest posts by ڈاکٹر شہناز شورو (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3 4