پاکستان، کشمیر اور خام خیالی


ہائے اُس زود پشیماں کا پشیماں ہونا۔ ’پاکستان اور کشمیری کسی خام خیالی میں نہ رہیں۔۔۔ اقوام متحدہ میں پاکستان کے لیے کوئی ہار لے کر کھڑا نھیں ہو گا۔‘

وزیر خارجہ کے کشمیر کی دھرتی پر اس بیان کو کن معنوں میں لیں؟ سچ مان لیں یا اُن کے بیان کا اچھوتا انداز سمجھ لیں؟ احساس شکست یا احساس ناکامی؟ اگر ناکامی تو دوش کس کا؟

ستر سال کی پالیسیوں کا یا رونا حالات کی ستم ظریفی کا؟ جناب سوال تو آپ سے ہی ہو گا، تاریخ آپ کو ہی جھنجھوڑے گی کیا آپ تاریخ کے کٹہرے میں کھڑے ہونے کو تیار ہیں؟

جناب وزیر خارجہ صاحب! ’مسلم اُمّہ کے محافظوں کے اپنے مفادات ہیں۔‘
یہ بتانے سے پہلے اتنا تو بتایا ہوتا کہ ہمارے اپنے مفادات کیا ہیں؟

جناب، 70 برسوں میں ہمیں کیوں مسلم اُمّہ کی لکیر کے پیچھے لگا دیا گیا؟ کیوں ہماری خارجہ پالیسیاں بردار ملکوں کی بھینٹ چڑھتی رہیں؟

نیل کے ساحل سے تابخاک کاشغر تک کی آگ ہم اپنے ملک میں کیوں لگاتے رہے؟ برادر ملکوں کے تفرقے کی آگ اپنی سرزمین پر کیوں بھڑکاتے رہے؟

جناب! انڈیا کی 5 اگست کی آئینی ترمیم کا اعلان، جس میں آرٹیکل 370 اور 35 اے کو آئین سے خاتم کیا گیا، دراصل کشمیریوں کو اپنے ساتھ بندھن سے آزاد کر گیا ہے۔

انڈیا نے کشمیریوں کو آئینی آہن سے آزاد کر دیا، مگر ساتھ ہی پاکستان کی خارجہ پالیسی کے تابوت میں کیل ٹھوک دی۔ ایک طرف کشمیر کے نام پر مرتب 70 برس کی خارجہ پالیسی کا بھاںڈا پھوٹا اور دوسری جانب محض کھوکھلے نعروں اور دعووں کی قلعی اترنے لگی۔ پانچ اگست سے تاحال پاکستان کی خارجہ پالیسی کی ناکامی کا ڈھول سرِ عام بج رہا ہے۔

گذشتہ ایک ہفتے میں کئی ایک اجلاس اور بیرون ملک سربراہان کو کی جانے والی کالز سے معاملہ یہاں تک بڑھا ہے کہ ہم اقوام متحدہ کا دروازہ کھٹکھٹانے کی سعی کا اعلان کر چکے ہیں۔

اس سلسلے میں وزیر خارجہ چین کا ’اہم‘ دورہ بھی کر کے آ چکے ہیں اور اُن کے لہجے کی تلخی عوام کو ذہنی طور پر تیار کر رہی ہے کہ اقوام متحدہ پر نہ رہنا۔۔۔ کوئی بھی مستقل رکن کشمیر کی قرارداد پر رکاوٹ بن سکتا ہے۔۔۔ پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر کے صدر اقوام متحدہ کے کردار سے شاکی دکھائی دیتے ہیں۔

سعودی عرب کی تیل کمپنی انڈیا کے ساتھ تاریخ کی سب سے بڑی سرمایہ کاری کو تیار ہے، متحدہ عرب امارات انڈیا کے اس اقدام کو اندرونی معاملہ قرار دے چکا ہے۔ میں گذشتہ کالم ملائشیا اور ترکی کے کردار پر تحریر کر چکی ہوں۔

مسلم اُمّہ کے افق پر ایک ہفتے میں کوئی پوزیشن کہیں نھیں بدلی۔ البتہ وزیراعظم نے چند ایک کالز ضرور گھمائی ہیں، مسلم اُمّہ کی افواج کے اتحاد نے کشمیری مسلمانوں کے لیے تو نھیں مگر یمن میں چند تازہ حملے کیے ہیں اور ہاں کشمیریوں کی حمایت میں چند ریلیاں بھی نکلی ہیں۔ حالت یہ ہے کہ:

دوستی کے پردے میں، دشمنی ہوئی اتنی۔۔۔
رہ گئے فقط دشمن اپنے آشناؤں میں۔۔۔

26 جولائی کو انڈیا کو فضائی راستہ دوبارہ دینے کا فیصلہ ابھی بھی برقرار رکھا گیا ہے۔ البتہ تبدیلی آئی ہے تو کشمیریوں کے عزم میں۔ پہلے سے زوردار تحریک کا آغاز ہو رہا ہے۔

تبدیلی آئی ہے تو بین الاقوامی میڈیا میں جو کشمیر کی تحریک آزادی اور انسانی حقوق کی پامالی پر زور دار طریقے سے لکھ اور بول رہا ہے۔ تبدیلی آئی ہے تو اُن ذہنوں میں جو سوچتے تھے کہ شانے چت ہوں گے تو چند بازو آسرا دیں گے۔

کشمیر کا مقدمہ کشمیری جیت رہے ہیں، مگر کیا ہمیں خود سے چند سوالات نھیں کرنے چاہئیں؟

  1. انڈیا کی کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے سے متعلق ’اچانک‘ فیصلے کی اس پیش قدمی کو بھانپنے میں ہم ناکام کیوں ہوئے؟
  2. اقوام عالم میں تو چھوڑیے، آج مسلم اُمّہ میں ہم کیا حیثیت رکھتے ہیں؟ اور اس کی وجوہات کیا ہیں؟
  3. انڈیا اپنی معاشی طاقت کے بل بوتے پر ہر جگہ اہمیت اختیار کر گیا ہے جبکہ ہم ایک جانب آئی ایم ایف اور دوسری جانب ایف اے ٹی ایف کی تلوار کے نیچے محض آزاد معیشت کے خواب لیے ہاتھ باندھے کس منزل کی جانب بڑھ رہے ہیں؟

بے وقار آزادی ہم غریب ملکوں کی۔۔۔
تاج سر پے رکھا ہے، بیڑیاں ہیں پاؤں میں۔۔۔
سو یوں تار تار دامن ہے ہم پاک دامنوں کا۔۔۔

اب پیش منظر کیا ہو گا؟ آیے، جائزہ لیجیے۔ محض دو تین ماہ میں ایف اے ٹی ایف ڈنڈا لے کر نازل ہو گا اور ہم سے انتہا پسندوں کی مالی معاونت کے خلاف ’عملی اقدامات‘ کا جائزہ لے گا۔ یاد رہے کہ اس سلسلے میں وہ ہم سے پہلے ہی کچھ مزید اقدامات کا مطالبہ کر چکے ہیں۔ آئی ایم ایف بھی ہمارے معاشی اقدامات کا ایکسرے لے گا۔

آئی سی یو میں پڑی معیشت عوام کے نظام تنفس کو برقرار رکھنے میں ناکام ہو گئی تو افراتفری کی سی صورت حال جنم لے سکتی ہے۔

خدا نہ کرے کہ پاکستان کا کوئی ڈی چوک تحریر اسکوائر بنے مگر دگرگوں ہوتے معاشی حالات سانحات کو جنم دے سکتے ہیں۔

حزب اختلاف کی سیاسی اشرافیہ جیلوں میں ہے اور معاشرہ تقسیم در تقسیم ہو رہا ہے ایسے میں ملک میں اتحاد اور یک جہتی کس چڑیا کا نام ہے کم از کم موجودہ قیادت اس سے یا تو بے خبر ہے یا خبر رکھنے میں دلچسپی نھیں رکھتی۔۔۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).