عیداں تے شبراتاں آئیاں!


عید کی خوشی یقیناً ایک الگ خوشی ہوا کرتی تھی جس کو میں نے بالخصوص اپنے بچپن میں سب سے زیادہ محسوس کیا ہے۔ لڑکپن (عورتوں کے لیے بھی عمر کے اس حصے کے لئے غالباً لڑکپن کا لفظ ہی مستعمل ہے، مجھے کنفرم نہیں ) میں بھی محسوس کیا ہے مگر بچپن کی خوشی سے ذرا مختلف پیرائے میں۔ بچپن میں چاند رات کو عید کی صبح تک جگائے رکھنے والی شیریں بے چینی اکثر نئے لباس، نئے جوتے، ہاتھوں پہ مہندی کا رنگ دیکھنے، تیار ہونے، عیدی ملنے، تحفے ملنے، طرح طرح کے کھانے کھانے، ایسے گھروں میں بلا دریغ حاضری لگانے جہاں عموماً ہمیں بچہ ہونے کی بنا پر ساتھ نہیں لے جایا جاتا تھا، بازار جا کر اپنی عیدی سے ملی رقم سے مرضی کے کھلونے یا کھانے کی اشیاء خریدنے سے عبارت تھی۔

لڑکپن میں اس میں ایک خاص طرح کا جذباتی رنگ بھی شامل ہو جاتا تھا جس میں جاگے رہنے کی وجہیں بدل جاتی تھیں جیسے کہ ہار سنگھار کی سوچ کے ساتھ ہی کسی محبوب چہرے کا ذہن میں آ جانا، اس سے وصولے اور اس کے نام لکھے عید کارڈ کے بارے میں طرح طرح کے خیال، اپنی تیاریوں میں کہیں نہ کہیں اس کی پسند ناپسند کا دھیان، نئے ملبوسات میں اس کا ہمیں دیکھنا، ہمارا اس کو دیکھنا، اس کا بے دھڑک گھر میں آ جانے کا انتظار، اس کی دید پر آنکھوں کا تکرار اور ایسی ہی دوسری رومانوی نوعیت کی چھوٹی چھوٹی خالص بے چین خوشیاں۔

سب خوشیوں میں ہمارے یہاں جو خوشی مستقل رہی اور آج بھی قائم ہے وہ ہمیشہ ہر عید کی شام کو نانو کے گھر جانے کی خوشی ہے۔ عید کی شام ہم سب نے نانو ہی کے یہاں رات رہنا ہوتا ہے اور وہاں سونے کی جگہوں پہ لڑائی، کزنز کے ساتھ عیدی کے مقابلے، کس کی کتنی ہوئی، کس کو کتنی ملی، کس کی کتنی رہ گئی، تمام دن اپنے گھر، محلوں میں گوشت بانٹنیں، اکٹھا کرنے، کاٹنے کے تھکن آمیز کام کے بعد نانو کے گھر میں آپسی لڑائی کہ اب میں نانو کے گھر کا گوشت بانٹنے ہر گز نہیں جاؤنگا/گی۔ رات کو نانو کے ساتھ کون سوئے گا، فلاں کے ساتھ مجھے نہیں سونا، ہمارے بچپن میں نانو کہا کرتی تھیں، ”میں ایک آں، میری کھٹ وی ایک ہی اے، کتنے مٹسو اس اپر؟ میں کیہڑا کِدرے نس چلی آں اسے کمرے وچ آں۔“

مگر ہم بہن بھائی اور خالہ زاد کزنز ہر کوئی بضد رہتا کہ میں نے نانو کے پاس سونا ہے۔ نانو دراصل کمرے کی بتی گل کرنے کے بعد ہمیں کہانی سنایا کرتی تھیں اور ہر ایک کو لگتا تھا کہ جو بچہ نانو والی چارپائی پہ ہے کہانی بالخصوص اس کو سنائی جا رہی ہے۔ کہانی کے دوران اگر کسی بچے کی بے چین رگ زیادہ پھڑکے اور وہ اپنی محرومی پر احتجاجاً کسی نئے مدعے پر لڑائی لگا لے تو میری اماں کی بھاری آواز آیا کرتی تھی، ”سہ جاؤ نکیو نئی تے ہنیرے نی ما آ کے کھاسی تُساں نوں“ سب بچے دم سادھے لیٹے لیٹے اپنے اپنے تخیل میں اندھیرے کی ماں کا نقشہ کھینچنے لگتے۔ ۔ ۔

پھر دیکھتے دیکھتے وقت بدلا، ہم بڑے ہو گئے، یونیوورسٹیوں میں جانے لگے، اب تو اپنے گھر بھی نانو کے گھر کی طرح بس عیدوں پر ہی آتے ہیں۔ ہاتھوں میں موبائل لیے، دماغوں میں منطق لیے خود کو ہر طرح کی چھوٹی چھوٹی خوشی سے محروم کرتے گئے۔ عید سے اگلی رات میں اب نہ کوئی مہندی لگاتا، نہ کوئی عید کارڈ سنبھالتا، گھر کے بڑے ابھی بھی اپنی ریتوں کے مطابق راتوں کو ہی گھروں کی صٖفائیاں کرتے، نوافل ادا کرتے، کھانے پکانے کی آدھی تیاری رات میں ہی کر لیتے مگر ہم اب ’انٹلیکچول‘ بھی بن چکے ہیں، دو ایک باری دل بھی ٹوٹ چکا ہے، مذہب اور مذہبی تہواروں پر تنقید ہماری یونیورسٹیوں کے کیفے کی فیشن ٹاک بن چکی ہے لہٰذا اب ہم عید کی اگلی رات ایک مناسب سا میسج ٹائپ کر کے سب کو ایڈوانس عید مبارک بمعہ مختلف طنز آمیز ہیش ٹیگ کے بھیج کے، گھر والوں کو ہمیں صبح سویرے نا جگانے کی تلقین کر کے سو جاتے ہیں۔

اور عید کے دن بد دلی سے نئے کپڑے پہنتے ہیں، گھر آنے والے مہمانوں کو ان چاہا گردانتے ہیں کہ ان سے ہمیں کوئی ”کنیکٹِڈنیس“ نہیں محسوس ہوتی، ہم خیال دوستوں کے ساتھ سارا دن موبائل پر ٹِک ٹِک کرتے ہوئے انہیں بتاتے ہیں کہ یہ سال کا بور ترین دن ہے۔ فیس بک پر سلفیاں اپ لوڈ کر کے ماشاللہ، نائس سے دل بہلاتے ہیں، سب سے خاص والی تصویر سٹوری میں اپ ڈیٹ کرتے ہیں کہ پرستاروں کے پُرستائیش کمنٹس براہ راست انباکس میں آ جایئں اور کچھ دیر چیٹ سے بوریت دور ہوسکے اوراب نانو کے گھر جا کر بھی ہر کوئی الگ کمرے میں اکیلے سونے کی خواہش کرتا ہے کہ ہم اڈلٹس ہیں ہماری پرسنل سپیس کا خیال رکھا جائے۔ ۔ ۔

ایسے میں بھلے عیدوں سے وابستہ خوشی کا ناتا ہم سے نام نہاد رہ گیا ہے مگرعید کا روز پھر بھی ہر گھر میں بطور ایک فیملی فیسٹیول کے منایا جاتا ہے۔ ایکسائیٹمنٹ کا وہ درجہ نہ بھی ہو بہرطور مصروفیت کے اس دور میں اپنے ہی بہن، بھائیوں، چچا، ماموں، کزنز، بھانجے، بھتیجوں سے فرصت سے ملنے کا حسین موقع آج بھی عید کا دن ہی ہمیں فراہم کرتا ہے۔

سن 2019 ء کی آج کی قربان عید پر دل عجیب طور سے اداس ہے کہ میں اپنے آبائی وطن آزاد کشمیر سے دور جرمنی کے شہر میونخ میں سائیبر کھڑکی سے لگ کے اکیلی بیٹھی ہوں۔ عید کے روز اپنی فیملی کا ارد گرد نہ ہونا کیسی ازیت اور دکھ کی بات ہے اسے میں پردیس میں عید کا دن گزار کر ہی محسوس کر پائی ہوں۔

اور ایسے میں جب مَیں وادیِ کشمیر کی موجودہ صورتحال میں عید کے تہوار کو سوچتی ہوں تو دل مزید ڈوب جاتا ہے۔ ایسے میں وادی میں لگے کرفیو، اور وہاں کے پیاروں کا ایک دوسرے سے آزادی سے خوشگوار ماحول میں نہ مل پانا انتہائی تکلیف دہ ہے۔ یہاں ایک اور بات بھی درج کرتی چلوں کہ کوئی اگر اپنی مرضی سے عید نہیں منانا چاہتا یا کسی بھی فیسٹیویٹی کا حصہ نہیں بننا چاہتا یا وہ کسی ذاتی حالاتِ زندگی کی وجہ سے فیملیوں سے دور ہے تو یہ ایک الگ بات ہے مگر کسی کو جبرا ایسے حالات میں رکھا جائے کہ وہ اپنی فیملی سے نہ مل سکے یا عید کی خوشی نہ منا سکے، قربانی نہ کر سکے، عید کی باقی ریتیں نہ نبھا سکے تو یہ بات قابلِ پرداشت نہیں رہتی کہ کسی کو حق نہیں وہ طاقت کے زور پر کسی دوسرے انسان سے اس کے بنیادی حقوق چھین لے۔

وادی میں بھی آج وہ بچپن موجود ہو گا شاید جو آج کی رات صبح عید کی خوشی میں نیند برباد کرنے پرتلا ہو گا، جو شاید ساری رات صبح عید ملنے اور عیدی ملنے کے خواب کھلی آنکھوں سے دیکھتا ہو گا، وہاں بھی آج وہ جوانیاں موجود ہوں گی جو اپنے پیاروں کی راہ تکنے میں آنکھیں سفید کرنے پر مصر ہوں گی، جو محبت میں گُھلے رنگِ حنا سے ہاتھوں کو رنگنے کی چاہ میں ہوں گی، آج وہاں بھی کوئی نہ کوئی اپنی نانو کے گھر جانے کا منتظر ہو گا، آج وہاں بھی کئی ہم جیسے ”اینٹلیکچولز“ ہوں گے جو ہماری طرح صبح دوستوں کو میسج کرنے کے انتطار میں ہوں گے کہ ”یار وٹ آ بورنگ ڈے“، آج وہاں بھی وہ بزرگ اور بڑے موجود ہوں گے جو رات ہی قربانی کی تیاریاں اور صبح کے کھانے کی تیاریاں کرنا چاہ رہے ہوں گے مگر ان پر بھارتی فوج کا تسلط ایسی سب انسانی خواہشات کا گھلا گھونٹے ہوئے ہے اورکشمیریوں کو اس سمے جان کے لالے پڑے ہیں، بچوں کی حفاظت اور گھر میں راشن کی چنتا ہے۔ گھر سے دور بیٹھے پیاروں سے دو منٹ فون پر بات کرنے کی تمنا ہے، گلیوں میں منڈلاتے خوف کے پہرے داروں سے چھٹکارے کی التجا ہے۔ ۔ ۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).