شاہ جی اور لال آندھی


”آج لال آندھی آنی ہے۔ میں دیکھ رہا ہوں آسمان پہ خدا کا جلال نظر آنے کو ہے۔ بہت احتیاط سے رہنا۔ استغفار پڑھو، توبہ کرو۔ اللہ کے آگے سر کو جھکا لو اور اس کے جلال سے پناہ مانگو۔ آج زمین بھی بے قرار ہے اور آسمان بھی غضبناک۔“ شاہ جی بولتے تھے تو ہم سب خاموشی سے سنتے تھے۔ ہمارے دلوں میں دہشت بیٹھ جاتی تھی۔ ہم ڈرنے لگتے۔ اللہ سے توبہ تائب کرتے اور شہداء کربلا کے لئے دعا کرتے۔

کشمیر آئے ہوئے مجھے دو ہفتے گزر چکے تھے۔ شدید گرمی تھی۔ پسینہ خشک ہی نہیں ہوتا تھا۔ لیکن رات موسم بہتر ہو جایا کرتا۔ صبح فجر سے بھی پہلے سب جاگ جاتے تھے۔ گائے بھینس کا چارہ ڈال کر چاچی آٹا گوندھنے لگتی۔ بڑی چاچی سارے بچوں کو جگا کر ناشتے کی تیاری کرنے لگتی تھی۔ چاچی زلیخا دودھ دھو کر کچھ پینے کو رکھتی تو کچھ جاٹی میں ڈال دیتی۔ میں بھی خوب مدھانی ہلا ہلا کر چاچی کا کام کرواتی اور چاچی ڈھیر سارا مکھن نکال کر شاہ جی اور بے جی کو بتاتی کہ ”دیکھیں آج کتنا ڈھیر سارا مکھن نکال لیا ہماری چندہ نے۔“ شاہ جی خوش ہوتے۔ مجھے دعا دیتے اور پھر ہمارے بڑوں بزرگوں کے قصے سنانے لگتے۔

محرم شروع تھا اور روز شام کو بڑی چاچی اور سارے بچے نوحہ کرنے پھپھو کی طرف چلے جاتے۔ چاچی زلیخا بھی کام نمٹا کر چلی جاتی اور ہم شاہ جی کے پاس رہ جاتے۔ ہمارے یہاں سینہ کوبی کی اجازت نہ تھی۔ بس عام اہل سنت کی طرح روزے رکھے جاتے اور دعاؤں کا اہتمام ہوتا۔ واقعہ کربلا کا درس اور بچوں کو امام حسین علیہ السلام کی شہادت کے واقعات بیان کرنا معمول تھا۔

اس روز بلا کی گرمی تھی۔ گاؤں کی مسجد سے دو افراد کی وفات کی خبر سن چکے تھے۔ پھر دوپہر کے وقت ایک دم شور مچ گیا۔ ہم سب کچے کمرے میں لیٹے ہوئے تھے جہاں لینٹر والے کمروں کی بانسبت ٹھنڈک تھی۔ ساتھ کیلے اور امرودکے پیڑ بھی دیوار اور چھت پر دھوپ کو روک لیتے تھے۔

”ہائے، ہائے“ چاچی نسیم سینہ پیٹتی ہوئی صحن سے ادھر کو آرہی تھی۔ ”ہائے، ہائے، ہائے، زلیخا چل جلدی کر ضمیر کا لڑکا مر گیا۔ “

چاچی زلیخا تو جیسے سکتے میں آگئی۔ ”ہائے نسیم باجی کیا کہہ رہی ہو؟“ چاچی بے یقینی سے بولی۔ ”ہائے بچارے کو لو لگ گئی۔ معصوم بچہ گرمی نہ برداشت کرسکا،“ نسیم چاچی اب موٹے موٹے آنسو بھی گرا رہی تھی۔ ”بچارہ بچہ تڑپتا رہا کہ گرمی لگ رہی ہے۔ مجھے برف دو۔ ہائے اتنی گرمی میں برف کہاں ملتی ہے۔ “

نسیم چاچی سر پہ ہاتھ رکھے رو رہی تھی۔ اس روز بڑا مشکل دن گزرا۔ کئی کمزور دل والوں کا دل بند ہوگیا۔ خود میں نہیں جانتی کہ کیسے برداشت کرتی رہی ایسی شدت کی گرمی؟ بچہ بالکل ساتھ والے گھر میں ہی رہتا تھا اس لیے سب انتظامات چچا لوگوں کے ذمہ تھے۔ میت کو فوری غسل دے کر دفنانے کا انتظام کیا گیا کہ گرمی میں مردہ پھول جانے کا خطرہ تھا۔ بس جب سارے جنازہ لے گئے تبھی شاہ جی نے بولنا شروع کیا۔

”وہ جلال میں ہے۔ اس کے محبوب مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے شہزادوں کو بے دردی سے شہید کردیا گیا۔ وہ اپنے محبوب کو صدمے میں پا کرجلال میں ہے۔ بچو اس کے غضب سے! پڑھو درود وسلام!“ شاہ جی بولتے جارہے تھے اور ہمارے دل لرزاں تھے۔

پھر یک دم آسمان کا رنگ بدل گیا اور کچھ ہی دیر میں سرخ آسمان جیسے خون برسانے کو ہے۔ مائیں بچوں کو لے کر گھروں کو بھاگنے لگیں۔ مرد جانوروں کو ان کے چھپر کی طرف لے گئے۔ ایسے جیسے سب کو خوف تھا۔

پھر ایک زور کی آواز آئی جیسے کوئی چیخ سی بادلوں کو چیر گئی ہو۔ پھر زور دار جھکڑ چلنے لگے۔ کچھ نظر نہیں آرہا تھا۔ سب سرخ تھا۔ ہمیں مرغی کے دڑبے کی طرح کمرے میں بند کردیا گیا۔ لیکن میری بے چینی تھی کہ لکڑی کے دروازے میں بنے سوراخوں سے باہر دیکھتی تھی کہ آخر یہ فضا ایسے کیسے سرخ ہوگئی اچانک؟ اس سے پہلے میں نے سرخ آندھی بچپن میں دیکھی تھی جب اسی طرح سب یک دم سرخ ہوگیا اور امی نے گھر کی کھڑکیاں دروازے بند کردیئے اور جائے نماز بچھا کر بیٹھ گئیں تھیں۔

رات جب آندھی تھمی تو بارش ہونے لگی۔ اور بہت گرج چمک کے ساتھ ہوئی۔ پھر بجلی چمکی اور بہت خوفناک انداز سے آواز آئی۔ پتا چلا کہ اوپر پہاڑی پہ کسی گھر پہ جاگری اور کچھ چیڑ کے درختوں کو بھی جلا دیا۔ اب ہم بھی ڈرنے لگے۔ بے جی اپنے پوتے پوتیوں کو سمیٹنے لگیں۔ اونچی آواز میں کلمہ پڑھنے لگیں۔ بے جی زور زور سے کلمہ پڑھنے لگیں تاکہ بارش کے ساتھ ہواؤں کی خوفناک آوازیں بچوں کے کانوں میں نہ جائیں لیکن آوازیں اتنی اونچی تھیں کہ لگتا تھا بے شمار بلیاں ایک ساتھ بین کررہی ہوں۔

ساری رات شدید بارش اور جھکڑ چلتے رہے۔ ہمیں پتا نہ چلا کہ کب سوئے۔ صبح جب اٹھے تو کچے صحن میں ٹوٹی ہوئی درختوں کی شاخیں اور کچھ سامان بکھرا پڑا تھا۔ چاچو کے ساتھ چاچی بھی سمیٹنے اور صحن صاف کروانے میں مصروف تھیں۔ ہم بچوں نے بھی منہ ہاتھ دھو کر بڑوں کا ساتھ دیا اور سب صفائی کروانے لگے۔ مسجد سے اعلان ہورہے تھے۔ گرمی سے فوت ہونے والوں کے بعد رات طوفان سے بھی بہت سی ہلاکتیں ہوگئیں تھیں۔ سارا گاؤں سوگوار تھا۔

شاہ جی اب صحن میں مغرب کی جانب منہ کیے کھڑے تھے۔ ”نیاز پکاؤ۔ معصوم حسین شاہ۔ نیاز پکانے کاوقت ہوگیا۔“ شاہ جی بڑے چاچو کو حکم صادر فرما رہے تھے اور چاچو انتہائی فرمانبرداری سے حکم کی تعمیل کرنے چل پڑے۔ بڑی پھپھو اور بڑی چاچی نے مل کر لنگر تیار کیا۔ فوتگی والے گھرانوں کو بھی بھجوانا تھا۔ شاہ جی کے سامنے دعا اور فاتحہ کے لئے نیاز کا کھانا رکھا گیا۔ شاہ جی نے دعا کے لئے ہاتھ اٹھا دیے۔ دعا پڑھ کر سارے بچوں کو پاس بلایا اور دم کیا۔ پھر اپنے ہاتھ سے کچھ نیاز بانٹی اور پھر شاہ جی درخت کے نیچے بچھی چارپائی پہ لیٹ گئے۔

میں بھی شاہ جی کے پاس بیٹھ گئی۔ وہ لیٹے ہوئے تھے لیکن آنکھیں بند نہ کیں بلکہ خلا میں گھور رہے تھے۔ کیسی پراسرار شخصیت تھی شاہ جی کی۔ نرم گو اور مشفق انسان۔ سارے گاؤں والے عقیدت سے ہاتھ چومتے۔ دعا کے لئے کہتے۔ شاہ جی کی دعا میں اللہ نے بڑی طاقت رکھی تھی۔ مریض صحت مند ہوجاتے۔ اللہ کے حکم سے مشکلیں ٹل جاتیں۔ ایک بات جو مجھے حیران کرتی تھی کہ شاہ جی زیادہ تر پاؤں سے ننگے پھرتے۔ کچے صحن میں شاہ جی گھومتے پھرتے رہتے اکثر ایک چھڑی بھی ان کے ہاتھ میں ہوتی۔ محرم کا بہت احترام اور تکریم کیا کرتے تھے۔ لنگر سارا مہینہ چلتا تھا۔ چاچیاں بھی کبھی تھکتی نہیں تھیں۔ سارا دن گھر کے کام اور گاؤں والوں کی خدمت کرتی رہتی تھیں۔

چار دیواری تو تھی نہیں اس لیے ہر کوئی آتا جاتا تھا۔ گاؤں کے بچے پہلے سے لگے دسترخوان پر آکر بیٹھ جاتے اور کھانا کھا کر اٹھ جاتے۔ چاچی پھر صاف برتن لگا دیتی اور استعمال شدہ برتن دھونے کے لئے رکھ دیتی جہاں گاؤں کی نائن بیٹھی دھو رہی ہوتی۔ نیاز کا کھانا چاچی خود بناتی لیکن دیگر کاموں میں گاؤں کی عورتیں ہاتھ بٹاتی تھیں۔ میں بچوں کی پلٹن لے کر اوپر بڑی چاچی کے صحن میں چلی جاتی جہاں سے ایک طرف گاؤں کا نظارہ ہوتا اور دوسری طرف پہاڑی چٹانیں اور ان پر چیڑ کے درختوں کی لمبی قطاریں بہت خوبصورت نظر آتی تھیں۔

ہم اکثر چیڑ کے ساتھ لگی کونیں توڑ کر اس میں موجود نیزے (اس کا میوہ جو دیکھنے اور کھانے میں چلغوزے جیسا ہوتا ہے ) کھایا کرتے تھے۔ پھر وہ خوشے تنور میں ڈال دیتے جہاں ان کی لکڑی جل کر تندورگرم کرنے میں مدد دیتی تھی۔ شاہ جی نویں دسویں محرم پہ بہت غمزدہ رہتے۔ ایسے ہی مجھے یاد ہے اللہ بخشے میری نانی بھی کہا کرتی تھیں کہ ”یہ بہت سخت دن ہیں۔ احتیاط کرو۔ “ ایک قریبی عزیز ہماری ان باتوں اور روایتوں کا بڑا مذاق اڑاتے اور محرم کے سوگ کو ناجائز قرار دیتے۔ فرماتے ”تم لوگوں نے بدعتیں گھڑ لیں۔“ نعوذ باللہ وہ ساری عقیدت کو خرافات کہا کرتے تھے۔

ایک روز یونہی نویں دسویں محرم کے روزے پر اعتراض فرما رہے تھے کہ ان کے بڑے بھائی آگئے۔ وہ منع کرنے لگے کہ ”ایسے نہ بولو۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے نواسے کا دکھ تو کائنات کی ہر شے کو ہے۔ کیوں خود کو مصیبت میں ڈالتے ہو؟“

وہ بولے۔ ”یہ ساری فضول باتیں ہیں۔ سوگ تین دن کا ہوتا ہے۔ اب اتنی صدیاں گزر گئیں لیکن آپ لوگ تو شرک میں اور بدعت میں پڑے ہیں۔ “ وہ اور بھی بہت کچھ کہہ گئے لیکن ان کے بھائی نے ان کے سامنے ہاتھ جوڑ دیے کہ اس طرح ان سیدالشہدا کا مذاق نہ بناؤ کہیں اللہ کی پکڑ نہ آلے تم کو۔

اس وقت مغرب ہونے کو تھی۔ جب ان کے بھائی نے کہا کہ مغرب سے پہلے گھر کو چلے جاؤ چھوٹی بچیاں ساتھ ہیں۔ مجھے خوف آرہا ہے۔ لیکن وہ ہنستے رہے اور نماز مغرب کے بعد نکلے۔ گھر روڈ کے دوسری طرف تھا۔ کراس کرتے وقت انہوں نے چھوٹی بچی کا ہاتھ پکڑ لیا اور بڑی بچی ساتھ کھڑی تھی۔ گاڑیاں تیز آرہی تھیں کہ اچانک ایک دلخراش چینخ گونجی۔ ایک کار نے زوردار بریک لگائی۔ اس کی آواز سے وہ گھبرا گئے۔ ان کی چھوٹی بچی نے زور زور سے ان کا بازو ہلایا۔ ”ابو۔ ابو۔ آپی کہاں ہے؟ “

وہ ادھر ادھر دیکھ رہے تھے کہ بچی کہاں گئی؟ اتنے میں چھوٹی بچی نے انگلی سے اشارہ کیا۔ کار کے بونٹ پہ وہ بالکل سیدھی لیٹی ہوئی تھی۔ کار سے ایک صاحب گھبرائے ہوئے نکلے اور جلدی سے بچی کو اٹھاکر ہسپتال لے جانے کا کہنے لگے لیکن بچی کے والد تو جیسے حواس ہی کھو بیٹھے تھے۔ ہمیں فون آیا اور امی میں اور بھائی فورا ہسپتال کو نکل گئے۔ مجھے کچھ خیال آیا اور میں نے بنک کا اے ٹی ایم کارڈ بھی ساتھ اٹھا لیا۔ جب ہم ہسپتال پہنچے تو ہمارے عزیز کی حالت کسی اجڑے ہوئے گلستان کا منظر پیش کررہی تھی۔

وہاں ان کے بڑے بھائی بھی پہنچ گئے اور دھاڑیں مار مار کر رونے لگے۔ ”تجھے بولا تھا۔ مت مذاق بنا کربلا کا۔ تجھے بولا تھا۔ یہ محرم کے چار روز تو خدا بھی جلال میں ہوتا ہے۔ احتیاط کر۔ ہائے معصوم بچی کی جان لے لی تونے۔“ وہ اب سینہ پیٹنے لگے تو امی نے بڑھ کر روکنے کی کوشش کی۔

”نہ کرو یہ کام۔ مت کرو ایسے۔ کیوں پیٹتے ہو سینہ۔“ بس وہ ہسپتال تھاکہ ماتم کدہ بن گیا۔ جن لوگوں کی کار سے بچی ٹکرائی تھی وہ بھی اسی طرح کے خیالات کے مالک تھے اور محرم میں سوگ منانے پر دوسروں کو جاہل بدعتی اور مشرک تک کہہ جانے سے دریغ نہ کرتے تھے۔ اس روز وہ اپنی ساری فیملی سمیت دسویں محرم کی چھٹی منانے نکلے تھے اور خوب ہلہ گلہ اور شاپنگ کرکے واپس آرہے تھے۔ انہوں نے محرم کی چھٹی تو قبول کی مگر اس چھٹی کا وسیلہ قبول نہ کیا۔ اس واقعے نے سارے خاندان کو ہلا کر رکھ دیا۔

جو لوگ محرم کا احترام نہ کرتے تھے وہ بھی ڈر گئے اور اللہ سے نفلوں اور دعاؤں کے واسطے سے معافی مانگنے لگے۔ ہمارے عزیز نے کار ڈرائیور پر مقدمہ کردیا اور پھر دونوں ایک کربناک عذاب میں گرفتار ہوگئے۔ بچی کی ماں کچھ عرصہ تک ذہنی توازن گنوا بیٹھی اور ہر وقت کہتی تھی۔ ”یہ ایک خواب ہے۔ میری رانی ابھی آجائے گی۔ ابھی میری آنکھ کھل جائے گی۔ یہ تو خواب ہے۔ ڈراؤنا خواب!“

شاہ جی مغرب کے وقت اٹھ بیٹھے۔ جائے نمازبچھایا۔ اور پھر لمبے لمبے سجدے تھے شاہ جی کے۔ لنگر تقسیم ہوچکا تھا۔ شاہ جی سرجھکائے بیٹھے تھے۔ ”نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا نواسہ، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی امت پہ قربان ہوگیا! “شاہ جی کی آنکھوں سے پہلی بار آنسو گرتے دیکھے۔

شاہ جی فرماتے تھے ”لال آندھی آنی ہے۔ کربل کی خون آلود مٹی اڑے گی۔ پناہ مانگو اللہ سے معافی مانگو۔ ہم منافق ہیں۔ ہم منافق ہیں۔ ہمارے کفر نے معصوموں کی جان لی۔ ہمارے پست حوصلے ظالم کے ہاتھ مضبوط کرگئے۔ ہم ہیں گناہگار۔ ہم ہیں خطا کار۔ سجدوں میں گر جاؤ۔ گڑگڑاؤ۔ معافی مانگو اپنے گناہوں کی معافی مانگو۔ جھکڑ چلے گا۔ دعا کرتا ہوں تمہارے گناہ بھی اڑا کر لے جائے۔ دعا کرتا ہوں یہ آندھی تمہارے اندر سے کفر بھی کھینچ کر لے جائے۔ آندھی آئے گی۔ تیاری رکھو۔ آندھی آئے گی! “


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).