احمد فراز: آخری مشاعرہ، آخری ملاقات



فراز صاحب سے میری پہلی ملاقات 1975 میں اس وقت ہوئی تھی جب وہ یوم مئی کے مشاعرے میں اسلام آباد سے کراچی آئے تھے۔ اُن دنوں کراچی میں ترقی پسند ساتھیوں کی دعوت پر وہ ہرسال اس مشاعرے میں شرکت کے لیے آتے تھے۔ ایر پورٹ پر ان کا استقبال کرنے والوں میں اپنے دوست مجاہد بریلوی کے ساتھ ساتھ میں نے بھی زبردستی اپنا نام شامل کروالیا تھا کہ کم از کم ان کو قریب سے دیکھنے کا ایک موقعہ تو ملے گا۔ وہ ان کی شہرت اور مقبولیت کے عروج کا زمانہ تھا لیکن اُن سے اصل شناسائی کا دور ٹورنٹو میں 1982ء سے شروع ہوا جب وہ ایک سیاسی جلاوطن شاعر کی حیثیت سے پہلی بار کینیڈا آئے اور مجھے برسوں ان کی میزبانی کا موقع ملا۔

آخری بار اُن سے جون 2008ء کو واشنگٹن میں ملاقات ہوئی جو اُن کی زندگی کا آخری مشاعرہ ثابت ہوا۔ امریکہ کے پاکستانی نژاد ڈاکٹروں کی تنظیم ’اپنا‘ کے زیر اہتمام واشنگٹن میں چار روزہ کنونشن تھا جس میں ایک محفل ِ مشاعرہ کا بھی اہتمام کیا گیا تھا جس کی صدارت احمد فراز صاحب فرمارہے تھے اور مہمان خصوصی پروفیسر گوپی چند نارنگ تھے۔ اس مشاعرے میں کینیڈا سے مجھے بھی مدعو کیا گیا تھا۔

جمعہ 72 جون کی شام جب میں واشنگٹن پہنچا تو وہاں ہال میں بہت سے لوگ نظر آئے جن میں ایک طرف توپاکستان کے سفیر برائے امریکہ حسین حقانی تھے تو دوسری طرف وکلا تحریک کے روح رواں اعتزاز احسن تھے اور وہ دونوں اپنے اپنے ہم خیال لوگوں کے درمیان گھرے ہوئے تھے۔ اس شام ادبی برادری کے کسی بھی فرد سے میری ملاقات نہ ہوسکی البتہ دوسری صبح ابھی میں سو کر بھی نہ اٹھا تھا کہ فراز صاحب کا فون آیاکہ فوراً کمرے میں آجاؤ۔

فراز صاحب مجھ سے ہمیشہ کی طرح بڑی محبت سے بغلگیر ہوئے۔ اس بار مجھے وہ بہت کمزور نظر آئے۔ کہنے لگے کہ معمولی سا اسٹروک ہوا تھا لیکن اب میں بالکل ٹھیک ہوں۔ حالانکہ ان کے چہرے پر ”بالکل ٹھیک“ والے اثرات بالکل نہ تھے۔ انہوں نے اسلام آباد میں سال ِ گزشتہ ہونے والے اپنے اسٹروک کا پورا واقعہ سنایا کہ کس طرح آدھی شب کے بعد انہیں ہلکا سا اسٹروک ہوا مگر فوراً اسپتال جانے کے بجائے صبح کا انتظار کرتے رہے کہ کون اتنی رات گئے ڈاکٹروں کو تکلیف دے؟

کہنے لگے کہ اسلام آباد کے اسپتال میں تین یا چار دن تک میں بیڈ پر ہی تھا کہ پھر اچانک میں نے سوچا کہ یہاں پڑے پڑے بور ہورہا ہوں ’کیوں نہ بستر سے اٹھ کر اسپتال کا چکر لگایا جائے۔ سو میں نے ایک خاصا بڑا چکر لگایا اور جب واپس بستر پر آیا تو ڈاکٹروں کو بھی حیرانی تھے کہ یہ سب کچھ کیوں کر ہوا؟ سب ڈاکٹروں کی متفقہ رائے تھی کہ ایسا Few in Millions ہوا کرتا ہے۔ ابھی وہ اپنی بیماری کے واقعے کا ذکر ہی کر رہے تھے کہ اتنے میں فون کی گھنٹی بجی۔

دوسری طرف پروفیسر گوپی چند نارنگ تھے۔ فراز صاحب نے کہا یار اُن سے کہدو کہ وہ بھی یہیں آجائیں مگر نارنگ صاحب نے لابی میں آنے کے لیے کہاتو ہم دونوں نیچے لابی میں آ گئے۔ ہوٹل کی لابی میں بہت سے لوگ جن میں زیادہ تر ڈاکٹر تھے اور اسی کنونشن میں شرکت کے لیے آئے تھے ’فراز صاحب سے آ آ کر ہاتھ ملا رہے تھے۔ ایک ڈاکٹر صاحب نے انہیں اپنی بیوی سے ملواتے ہوئے کہا کہ یہ آپ کی بہت بڑی مداح ہیں اور اس کنونشن میں صرف اور صرف آپ کو سننے کے لیے آئی ہیں۔

خاتون نے آگے بڑھ کر سلام کیا اور تصویر کھنچوانے کے ساتھ ساتھ ان سے کہنے لگیں کہ آج کی صبح میری زندگی کی بہت خوب صورت صبح ہے ’میں تو سوچ رہی تھی کہ آپ کو‘ رات مشاعرے ہی میں دیکھ سکوں گی مگر حسن اتفاق دیکھیے کہ یہاں آپ کو اتنی نزدیک سے دیکھنے اور آپ سے ملنے کا موقعہ مل گیا۔ فراز صاحب صرف مسکرا دیے اور میں ان کی مقبولیت پر ناز کرتا رہا۔ اس دوران نارنگ صاحب نے کہا کہ کیوں ناباہر نکل کر کسی ایسی جگہ چائے پی جائے جہاں لوگوں کی بھیڑ بھاڑذرا کم ہو۔

فراز صاحب نے شرط لگادی کہ ریسٹورنٹ ایسا ہونا چاہیے جس کے باہر بیٹھ کر سگریٹ بھی پی جا سکے۔ وہ شراب کے بغیر تورہ سکتے تھے لیکن سگریٹ کے بغیر ان کا گزارا مشکل تھا۔ مجھے اچانک دس بارہ سال پہلے کا ٹورنٹو کا ایک واقعہ یاد آگیا جب ان کی ایک مداح نے کہا فراز صاحب آپ اتنے اچھے شاعر ہیں مگر سگریٹ کیوں اتنا پیتے ہیں؟ پھر اپنی بات میں مزید وزن پیدا کرنے کے لیے کہا کہ جدید تحقیق کے مطابق ساٹھ فیصد سے زیادہ لوگوں کو سگریٹ کی وجہ سے ہی کینسر ہوتا ہے۔

فرازصاحب کہاں چوکنے والے تھے انہوں نے برجستہ جواب دیا کہ تحقیق تو بالکل ٹھیک ہے اس پر مجھے کوئی اعتراض نہیں ہے لیکن میں ساٹھ فیصد لوگوں میں نہیں ہوں بلکہ ان چالیس فیصد لوگوں میں سے ہوں جن کو سگریٹ پینے سے کینسر نہیں ہوتا لہٰذا آپ مجھے سگریٹ پینے دیں۔ یہ کہہ کرانہوں نے ایک سگریٹ اور سلگا لیا اور وہ خاتون مسکرا کر رہ گئیں۔

اس دن واشنگٹن میں موسم بہت اچھا تھا ہم لوگ اپنے ہوٹل سے نکل کر قریب کے کسی ریسٹورانٹ کی طرف پیدل چل دیے۔ میں نے پہلی بار محسوس کیا کہ فراز صاحب کو چلنے میں کچھ دشواری پیش آرہی ہے۔ وہ بہت آہستہ آہستہ چل رہے تھے اور ان کے بولنے کے انداز میں بھی وہ روانی نہیں تھی جو اُن کی پہچان تھی۔ اب ہمیں کسی ایسے ریسٹورنٹ کی تلاش تھی جہاں فراز صاحب اطمینان سے بیٹھ کرسگریٹ پی سکیں۔ بڑی مشکلوں کے بعد ایک دیسی ریسٹورنٹ میں ایسی سہولت نظر آئی۔

ہم لوگ باہر بیٹھ کر چائے پینے اور گپ شپ کرنے لگے۔ فراز صاحب وہاں سے جلداٹھنے کے موڈ میں نہیں تھے لیکن ہم لوگ کانفرنس کے اُس سیشن میں ضرور شرکت کرنا چاہتے تھے جس میں ایک ہی اسٹیج پر حسین حقانی ’اعتزاز احسن اور جسٹس وجیہ الدین اپنے خیالات کا اظہار کرنے والے تھے۔ فراز صاحب کے اٹھنے اٹھنے نے اتنی دیر کردی کہ ہم وہاں وقت پر نہ پہنچ سکے جس کا ہمیں بے حد افسوس تھا۔ کانفرنس میں جانے سے پہلے فراز صاحب واش روم میں چلے گئے جہاں خلاف ِ توقع کافی وقت لگ گیا۔ جب پندرہ بیس منٹ سے زیادہ کا عرصہ گزر گیا تو نارنگ صاحب نے مجھ سے کہا اندر جاکر دیکھیے خیریت تو ہے۔ اتنے میں فراز صاحب مسکراتے ہوئے باہر آگئے۔ انہوں نے ہم سے کچھ کہا تو نہیں لیکن ایسا معلوم ہوتا ہے کہ انہیں گردے کی تکلیف تھی جس کا اظہار بعد میں ہوا۔

فراز صاحب تنہا نہیں رہنا چاہتے تھے انہوں نے نارنگ صاحب اور مجھ سے کہا کہ کچھ دیراُن کے کمرے میں بیٹھیں مگر ہم دونوں کا خیال تھا کہ رات کو مشاعرے میں دیر تک جاگنا ہوگا لہٰذاتھوڑی دیر آرام کر لیا جائے۔ طے یہ ہوا کہ شام سات بجے لابی میں ملیں گے مگر میں ابھی کمرے میں سونے کی کوشش ہی کر رہا تھا کہ فون کی گھنٹی بجی دوسری طرف احمد فراز ’فیض صاحب والے انداز میں کہہ رہے تھے بھئی کہاں رہ گئے؟ اب تواندھیرا ہونے والا ہے۔

میں نے گھڑی کی طرف دیکھا تو ابھی شام کے صرف ساڑھے پانچ بجے تھے اور ہم لوگ انہیں چار بجے کے قریب اُن کے کمرے میں چھوڑ کر آئے تھے۔ میں نے کہا فراز صاحب ہمیں تو سات بجے ملنا تھا۔ کہنے لگے ارے چھوڑیں سات وات بجے کو ’بس فوراً یہاں آجائیں۔ جب میں ان کے کمرے میں پہنچا تو دیکھا کہ وہ بستر پر آرام کرنے کے بجائے کرسی پر بیٹھے ہوئے ہیں۔ کہنے لگے یار یہ کافی میکر یہاں رکھا ہوا ہے مگر مجھے اس کا طریقہ استعمال نہیں معلوم۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3