ریاست اور مذہب کو الگ الگ کیسے کیا جائے؟


”ہمارا مسئلہ کیا ہے؟ ’

استاد نے توقف کیا، وہ جاننا چاہ رہے تھے کہ ”ہمارا“ سے مراد کیا ہے، کیا یہ طالبعلم جغرافیائی لکیروں کے جال میں الجھا ہواہے ہا مذہبی حدبندی کے، جب سوال کرنے والا ہی الجھن کا شکار ہو تو جواب کیسے تشفی کرے گا، لیکن استاد نے اسے نظرانداز کیا اور گویا ہوِے

”ہمارا مسلئہ یہ ہے کہ ہم محکوم ہیں“

طالب علم کے آنکھوں میں بے الجھن کے سائے لہرائے کہ آزادی حاصل کیے ہوِے سات عشرے ہو گئے

”علم وعمل دونوں میدانوں میں ہم محکومی کے ادبار سے نجات حاصل نہ کرسکے، سیاست کے عملی میدان کا جائزہ لیں ہم نے“ رعایا ”۔ عوام کا الانعام۔ کا رویہ اختیار کیا، مذہب کی دنیا میں جھانک کر دیکھیں ہم یا“ مرید ”ہیں یا“ مقلد ”“

استاد نے بظاہر پانی کا گھونٹ لیا اور حقیقتاً ہمیں جملے کو ہضم کرنے کا موقع دیا پھرگویا ہوئے۔

”عمرانی معاہدے کے تحت ہم“ شہری ”ہیں رعایا نہیں، ریاست“ ماں ”نہیں بلکہ ایک فریق ثانی ہے، تمام شہری اس معاہدے میں برابرکے حصے دار ہیں، یہ ریاست کی ذمہ داری ہے کہ وہ سب کی جان، مال اور آبرو کی حفاظت کرے بغیر رنگ، نسل، فرقہ کی تفریق کیے، سب کے لیے یکساں مواقع پیدا کرے، اقلیت کو اکثریت کے جبر سے حفاظت کی ضمانت دے، ریاست کا ہر ادارہ ہمارے سامنے جوابدہ ہو، ریاست کے ہر فیصلے میں خارجی ہو کہ داخلی“ ہماری رائے ”فیصلہ کن ہو، ریاست کا قیام ہماری بقا اور نمو کے لیے ہو نہ کہ ریاست اپنی بقا کے لیے ہمارے خون کی طالب ہو“

”سیاست کی طرح مذہب کے میدان میں بھی ہم نے حریت کے بجائے غلامی کا رویہ اختیار کیا۔ ابوحنیفہ رح نے جب کہا“ فھم رجال ونحن رجال ”تو اس کا مطلب یہی تھا کہ رسولﷺ کے بعد قران و سنت کے سوا اب کوئی حجت نہیں، اب ہمیں کسی غلامی کا قلادہ اپنی گردن میں نیہں ڈالنا، وحی منقطع ہوئی، اب“ ہر ”کسی کے فتوِی اور حکم پر“ ہر کوئی ”سوال کر سکتا ہے اور“ ہر کسی ”کو جواب دینا پڑے گا، مذہب کی ہر تعبیر کوعقل کی کسوٹی پر پرکھا جائے گا، کسی مذہبی طبقے کو تعبیرواحد کا اختیار حاصل نہیں، جو ماں کے پیٹوں سے آزاد جنے گئے کسی کو حق نہیں کہ انہیں غلام بنائے“

استاد نے دریا کو کوزے میں بند کیا

”ہمارا اجتماعی مزاج غلامی کا خوگر ہے۔ مذہب اور سیاست کی یک جائی کا ایک نتیجہ یہ بھی ہے۔ “

دونوں کا ادغام زہرہلاھل ثابت ہوا، یہ ”ہمارا“ نہیں انسانیت کا سانحہ ہے، ہم سے پہلے مغرب اس سفر سے گزر چکا، اس کی سرگزشت میں ہمارے لیے نشانیاں ہیں اور سامان نصیحت بھی۔

معلوم تاریخ میں یہ حادثہ دو ددفعہ ہوا پہلے ”ان“ کے ساتھ پھر ”ہمارے“ ساتھ :

مذہب کے ماننے والوں کو دنیا کا اقتدار حاصل ہوا۔

مذہب کی ریاست پر فتح یا ریاست کا کسی مخصوص مذہبی بیانیے پر اپنی اقدار کی بنیاد بنانا،

حریت فکراورسماجی نامیاتی ارتقا کو جبر کے ذریعے دبانے کا سبب بنی۔ ریاست ”ماں“ بن گئی جس کے لیے ”عوام“ کی ”قربانی“ کو صرف روا ہی نہیں بلکہ فرض قرار دیا گیا اور مذہب وہ ”باپ“ ٹھہرا جس کے جبر کو تربیت قرار دیا گیا۔

پہلا حادثہ تب روننما ہوا جب قسطنطین اٰعظم نے 337 ء میں عیساَیت قبول کی اورایک اقلیت کو دنیا کا سب سے غالب اقتدار حاصل ہوا، رومی قوم جس نے یہودیوں کی فرمائش پرعیسیﷻکو مصلوب کیا اورپھران کے حواریوں شمعون اور پال کوروم میں مصلوب کیا عیسائیت کے ہاتھوں مفتوح ہوئی، اہل مذہب کو اس درجہ اقتدار حاصل ہو کہ 1077 میں رومی بادشاۃ ہنری کو پوپ گریگوری کے سامنے معافی کے کیے اتلی کے شہر ”کنوسا“ میں پیدل حاضر ہونا پڑا، Road to Canossa کا افسانہ وہیں سے مشہور ہے۔

Schwoiser_Heinrich_vor_Canossa

بارہویں صدی کی Inquisition کی تحریکیں، گیارہویں صدی کی صلیبی جنگیں اورسترہویں صدی میں گلیلیو کی پیشی تاریخ کا حصہ ہیں کس طرح پوپ نے ریاستی طاقت کے ذریعے نہ صرف مذہبی غارت گری کا بازار گرم کیا بلکہ حریت فکر کو بھی جبر کے ذریعے کچل دیا۔

گلیلیو کی پیشی ( 1615 ) ، جوزف نیکولیس کی تصویرکشی

مغرب نے اس سفر کو کیسے طے کیا اور اس میں اٹھنے والی ناتواں آوازیں کیسے تواناں ہوئیں یہ ایک الگ موضوع ہے، اس کشمکش کی ایک جھلک سمجھنے کے لیے سولہویں صدی کا ایک منظردیکھیے :

مارچ 1517 میں پوپ لیو نے ”جنت کے پروانے“ بیچنے کا اعلان کیا، تاکہ اس کمائی سے چرچ کی تعمیر مکمل کی جاسکے۔ کوئی بھی یہ ٹکٹ لے کر برزخ کے جہنم سے بچ سکتا تھا، صرف اپنے لیے نہیں بلکہ اپنے گزرے ہوئے پیاروں کو بھی جہنم کی اس کرب سے آزاد کراسکتا تھا، مارٹن لوتھر نے اسے عسائیت کے عقائد کے خلاف مذہب کا تجارتی استعمال قرا دیا اور اپنے مشہور 95 تھیسس وٹن برگ (جرمنی) کے چرچ پر لٹکاَئے، اس پاداش میں اسے 1521 میں Diet of Worms کے سامنے پیش ہونا پڑا۔

آَیے ان الزامات کو پڑھتے ہیں جو اس کونسل میں لوتھر پر لگائے گئے، ویل ڈیوراں نے اپنی کتاب Heroes of History میں نقل کیا ہے :

”مارٹن تمہارا یہ دعوِی کہ صحیفہ ہی حجت ہوگا ہمیشہ سے بدعتیوں کا بہانہ رہا ہے، تم نے کیسے مان لیا کہ صرف تم ہی ہو جس نے صحیفوں کے صحیح معانی کو پایا ہے، کیا تم اپنی رائے ان تمام مشہور لوگوں پر مقدم رکھتے ہو جو پہلے گزرے، تمہیں کوئی حق نہیں کہ تم سوال اٹھاؤاس“ مقدس روایتی ایمان ”پر جسے عیسی نے قائم کیا ہے، حواریوں نے پھیلایاہے، شہیدوں کے خون سے سینچا گیا ہے، مقدس کونسل نے مہرثبت کی اور جس کی چرچ نے تصدیق کی ہے اورجس کو زیر بحث لانے کی ممانعت بادشاہ اور پوپ دونوں نے کی ہے، سو اب اس پر کوئی بحث نہیں۔ مارٹن صاف دل سے بغیرحیل وحجت کے جواب دو کیا تم اپنی کتابوں کی غلطیوں سے اظہار برات کرتے ہو“

Luther_at_the_Diet_of_Worms

ان الزمات میں آپ ”مذہبی ریاست“ کا بیانیہ اور ریاست۔ مذہب کے گٹھ جوڑکا خوبی سے اندازہ کر سکتے ہیں جو اس وقت ”ان“ کو درپیش تھا اور اسی کی بازگشت آج ”ہمارے“ ہاں سنائی دیتی ہے۔

لوتھرکس طرح یورپ کی نشاۃ ثانیہ کا آغاز بنا اور کس طرح ”وہ لوگ“ پوپ۔ شہنشائیت کے کھیل کو توڑکر صنعتی اور سائنسی دور میں داخل ہوئے یہ الگ کہانی ہے۔

دوسرا سانحہ ساتویں صدی میں تب پیش آیا جب عرب میں ملوکیت کا آغاز ہوا، اہل مذہب کی سلطنت کا پھیلاوّ اتنا ہوا کہ آج کے دور کے ملک شام، فلسطین، اردن، یمن اور مصران کے صوبے ٹھہرے، آٹھویں صدی کے مشہور عباسی خلیفہ ہارون رشید نے بادلوں کو دیکھ کر کہا تم جہاں جاکر بھی برس جاوّ تمہارا خراج ہمیں پہنچ جائے گا۔

ملوکیت سے پہلے یہ حال تھا کہ ہرعام شخص بادشاہ وقت کا کرتہ ناپتا تھا، ضعیف عورت کی سرعام تنقید پرحق مہرکے بارے خلیفہ اپنی رائے تبدیل کرلیتے، قاضی حاکم وقت کو طلب کرلیتا اب یہ حال ہوا کہ ”محنہ“ جیسے مسئلہ َ پر احمد بن حنبل نے کوڑے کھائے۔ 1258 میں ہلاکو خان نے اس سلطنت کا شیرازہ بکھیر دیا، بغداد جو علم وفن کا مرکز تھا اس کے دریا قلم کی سیاہی سے کالے ہوگَے َ، یہی وہ وقت ہے جب تصوف کو شیوع حاصل ہوا اور ہم نے مذہب جو حریت فکر کا دعویدار تھا مرید اور مقلد میں محصور کردیا۔

اس خطے پر نظرڈالیے جس میں ہم رہتے ہیں، یہاں پر کھیل مختلف انداز میں کھیلا گیا، پاکستان سادہ الفاظ میں اس بنیاد پر حاصل کیا گیا کہ ایک اکثریت اقلیت کو اس کے جائز حقوق دینے سے گریزاں تھی، چاہیے تو یہ تھا کہ وہ اقلیت جس کو جدوجہد کے بعد اکثریت کا درجہ ملا اقلیتوں کے حقوق بارے زیادہ حساس ہوتی۔

اوروہ حساس بھی تھی، ذرا بانی پاکستان کی تقریرپڑھیے اس سے پہلے کہ ہم وطن عزیز میں اقلیتوں کے حقوق پر نظر ڈالیں :

You may belong to any religion or caste or creed that has nothing to do with the business of the State۔ As you know، history shows that in England، conditions، some time ago، were much worse than those prevailing in India today۔ The Roman Catholics and the Protestants persecuted each other۔ Even now there are some States in existence where there are discrimination made and bars imposed against a particular class۔

Thank God، we are not starting in those days۔ We are starting in the days where there is no discrimination، no distinction between one community and another، no discrimination between one caste or creed and another۔ We are starting with this fundamental principle that we are all citizens and equal citizens of one State۔ The people of England in course of time had to face the realities of the situation and had to discharge the responsibilities and burdens placed upon them by the government of their country and they went through that fire step by step۔

Today، you might say with justice that Roman Catholics and Protestants do not exist; what exists now is that every man is a citizen، an equal citizen of Great Britain and they are all members of the Nation۔ Now I think we should keep that in front of us as our ideal and you will find that in course of time Hindus would cease to be Hindus and Muslims would cease to be Muslims، not in the religious sense، because that is the personal faith of each individual، but in the political sense as citizens of the State

بنانے والوں کا بیانیہ تو واضح تھا، لیکن یہاں پر بھی ملائیت اور ریاست نے اپنی پرانی شراب نئے پیمانے میں پیش کی، ان کے گٹھ جوڑ کا سب سے تاریک رخ اقلیتوں کے حقوق کی پامالی میں نکلتا ہے، صرف ”ایک“ بیانیہ ہی قابل قبول ٹھہرتا ہے، جب آپ نے ریاست کو ”مسلمان“ کیا تو اقلیتوں کے ساتھ وہی ہوا جوہوتا آیا ہے وہ کم درجے کے شہری قرار پائے، Open Door foundation کے مطابق پاکستان نومبر 2015 سے اکتوبر 2016 تک عیسائی اقلیتوں پو ظلم میں سب سے پہلے نمبر پررہا پوری دنیا میں 1329 چرچ حملوں میں سے 600 پاکستان میں ہوئے، ہزارہ کی شیعہ آبادی کا قتل، ہندوّں لڑکیوں کے ساتھ جبری شادی، احمدیوں پرحملے، اورکزئی میں سکھوں کی املاک کی تباہی ایک بڑی کہانی کی ہلکی سی جھلک ہیں۔

اس آگ نے اپنا دامن بھی جلایا، ریاست نے ملائیت سے مل کرایک معرکہ سر کرنے کا فیصلہ کیا، 1979 سے 1989 تک جس بیانیے کا ہم راگ الاپتے رہے اس سے دنیا میں طاقت کا توازن تو درہم برہم ہوگیا لیکن ہمارا معاشرہ جس شکست و ریخت کا شکار ہوا اس کا مداوا کرتے کرتے ہمارے کئی پھول مرجھا گئے اور کئی پھل زہر آلود ہوگئے۔

اھل مذہب کی جدوجہد اقتدار کے لیے سیاست کا میدان نہیں بلکہ بلند اقدار کے لیے معاشرہ ہے، ان کو حکم تھا کہ وہ سیاستدان کو مسجد لے کر آتے اس کے بجائے وہ ایون میں پہنچنے کی سعی لگ گئے۔ علما کا رشتہ معاشرے کے ساتھ حاکم اور محکوم کا نہیں بلکہ داعی اور مدعو کا ہے، دعوت کا مزاج سیاست یکسرمختلف ہے، داعی جب حق کو پیش کرتا ہے تو وہ کسی اجر کا طلبگار نہیں ہوتا جبکہ سیاستدان اقتدار کے حصول کے لیے عوام کا دروازہ کھٹکھٹاتا ہے۔

اہل مذہب آفاقی اخلاقی اصولوں کی ترویج و تبلیغ کرتا ہے جبکہ سیاستدان زمینی حقاَق کے مطابق بیانیے کو ترتیب دیتا ہے۔ اہل مذہب کا کام انسان کو ”اس دنیا“ کے لیے تیار کرنا ہے، کسی طلب کا ادنی سا شاَئبہ بھی اس کے مقام کو گہن لگا سکتا ہے۔ جب اقبال نے کہا جدا ہو دیں سیاست سے۔ تو اس کا مطلب ہرگز یہ نہیں تھا کہ ملا ایوان میں جا گھسے بلکہ سیاسی اصولوں میں ”اخلاقیات“ کی پاسداری تھا نہ کہ ”چنگیزیت“ کی۔

اہل مذہب جب ریاست میں دخول کرتے ہیں تو وہ ریاست کو ایک مخصوص لباس اور ”واحد“ بیانیہ دیتے ہیں جو ریاست کو ان شہریوں کے لیے جو اس بیانیے کے ناقد ہیں اجنبی بنادیتا ہے یا دوسرے درجے کا شہری، اور ریاست جس کا کام عمرانی معاہدے کے تحت سب کے ساتھ یکساں سلوک کرنا تھا اقلیتوں کے لیے جبر کو روا رکھتی ہے۔ اور پھر اس جبر سے سائنس پر الحاد، دوسرے مذہب کے ماننے والوں پر گستاخی اور فنون لطیفہ پر بے راہ روی کا الزام لگتا ہے۔

اس جبر کے خلاف اہل مغرب کی جدوجہد ہمارے لیے آ َینے کی حیشیت رکھتی ہے، سوال یہ ہے کہ کیا ہم تاریخ سے سبق سیکھنے کے لیے تیار ہیں؟ یا پھرہم نے اہل مغرب کی تاریخ سے یہ سیکھا ہے کہ مذہب سے بے زار کیسے کیا جاتا ہے؟ کہیں ہم تصادم کی راہ پر تو نہیں چل رہے جس کا نتیجہ مذہب سے بے کانگی اور بے زاری ہے؟ کیا ہم اپنے گرد کی ناتواں آوازوں کی قدر کرتے ہیں؟ یا انہیں جلا وطن کرتے ہیں؟ کیا ہم اپنے گرد لوتھر کی آواز سن سکتے ہیں؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).