کراچی کی ٹرام کہانی


(کراچی میں ٹرام وے کا عرُوج و زوال)

ہم نے چند ماہ قبل، اس برس 26 اپریل کو کراچی میں ٹرام وے سسٹم کی 44 ویں برسی منائی۔ جی ہاں! 30 اپریل 1975 ء وہ تاریخ تھی، جب 44 برس قبل، پاکستان کے سب سے بڑے شہر اورسندھ کے دارالحکُومت کراچی میں ٹرام وے سرشتے کا اختتام ہوا۔ گویا ٹرام وے کو پاکستان میں مرے لگ بھگ آدھی صدی ہونے کو ہے۔ پاکستان نے ترقی کی راہ پر (اُلٹا) چلتے ہوئے پچھلی تین چار دہائیوں میں جو کچھ کھویا، اس میں کراچی کا یہ منفرد ٹرام وے نظام بھی ہے۔

ہم جب بچپن میں والدین سے سُنا کرتے تھے کہ ’کراچی میں پہلے ٹرام چلا کرتی تھی۔‘ تو بڑوں کی جانب سے اس ’ٹرام‘ نامی چڑیا کا نقشہ بتانے کے باوجُود ہمارے ذہن میں اُس کی جُوں کی تُوں شکل کبھی نہیں آتی تھی کہ ٹرام کیسی ہوگی۔ بس ریل گاڑی سے ملتا جُلتا کچھ نقشہ بنتا تھا کہ ٹرام بھی ایسی ہی ہوگی۔ بھلا ہو اس ٹیکنالوجی کی کرامات کا، جن کی بدولت ہم نے نہ صرف آج سے ڈیڑھ دو دہائی قبل، کراچی میں چلتی ہوئی ٹرام کی تصویریں دیکھیں بلکہ اُس کی حرکت کرتی ہوئی ویڈیوز کا درشن بھی ہوا، جس میں اُس ٹرام کے آس پاس اُس وقت کے محدُود مگر ہنستے بَستے کراچی کے مناظر بھی دیکھنے کو ملے۔

دُنیا دیکھنے کا موقع ملا، تو ٹرام کو نہ صرف اپنی آنکھوں کے سامنے زندہ چلتا پھرتا دیکھنے کا موقع ملا، بلکہ اُس میں سواری کا بھی شرف حاصل ہوا۔ اور یہ بعد میں ادراک ہوا کہ دُنیا جیسے جیسے ترقی کرتی جارہی ہے، ویسے ویسے ٹرانسپورٹ کے متعدد ذرائع میں بے انتہا ترقی کے ساتھ ساتھ اپنی کلاسیکی سواریوں کو محفوظ کرتی بلکہ انہیں ترقّی دیتی جارہی ہے، جن میں سے ٹرام اور تانگہ (بگھی) خاص طور پر قابلِ ذکر ہیں، تاکہ اُن کا وجود سلامت رہے، اور ہم ہیں کہ انگریزوں کی دی ہوئی اس انتہائی کارآمد سوغات کو بھی سنبھال نہ سکے۔

ریلوے کا تو جو حشر ہم نے کیا ہے، اس بارے میں آپ مجھ سے زیادہ واقف ہوں گے۔ سوچتا ہوں اگر بٹوارے کے بعد پاکستان کے حصّے میں آنے والے علاقہ جات میں سے ٹرام وے سسٹم کی طرح ریل گاڑی کا نظام بھی کسی ایک شہر تک محدُود ہوتا، تو ہم اسے بھی کب کا ختم کرچکے ہوتے۔ آپ کو بتاتا چلوں کہ دنیا میں پہلی ٹرام 839 ء میں فرانس میں چلی تھی، جس کو گھوڑے کھینچتے تھے، جبکہ اگر برِ صغیر کا ذکر کریں تو یہاں گھوڑوں کے ذریعے کھنچنے والی پہلی ٹرام 1873ء میں کلکتے میں، جبکہ پہلی الیکٹرک ٹرام 1895ء میں چنّئی میں چلی۔ (یہ دونوں شہر اب بھارت میں ہیں۔ )

کراچی میں ٹرام وے سسٹم کا خواب، 20 ویں صدی کے آغاز سے دو عشرے قبل دیکھا گیا۔ یہ 1881 ء کا سال تھا، جب یہ منصُوبہ بنایا گیا اور انگریز سرکار کی جانب سے اس کی پٹڑی کی تعمیرات کا کام ٹینڈر کیا گیا۔ دو برس بعد 8 فروری 1883 ء کو ایک منصُوبہ بنایا گیا اور برطانوی سرکار سے کراچی میں بھاپ پر چلنے والی ٹرام چلانے کی اجازت لی گئی۔ اس منظُوری کے بعد اکتوبر 1884 ء میں جہاں جہاں سے ٹرام نے گزرنا تھا، وہاں وہاں پر اس کے ٹریک کی تعمیر کا کام شرُوع کیا گیا۔

جب ٹرام کے ٹریک کی تعمیر کا کام شرُوع ہوا تو ’جان برُونٹن‘ نامی انجنیئر نے اس ٹرام وے پراجیکٹ کے چیف انجنیئرکے طور پر خدمات انجام دیں اور 20 اپریل 1885 ء کو کراچی میں اس ٹرام سروس کا آغاز و افتتاح ہوا، جس کی شاندار افتتاحی تقریب کراچی میں (موجودہ) شاہراہِ لیاقت اور عبداللہ ہارُون روڈ کے سنگم پر واقع، سینٹ اینڈریُوز چرچ میں مُنعقد ہوئی۔ یہ تقریب کراچی کی اس دور کی اہم اور پروقار تقریبات میں سے ایک تھی۔

جیسا کہ اُوپر میں نے درج کیا ہے کہ ابتدائی طور پر ٹرام کو بھاپ پر چلنے والے (اسٹیم پاورڈ) انجنز پر چلایا گیا، مگر ایک برس بعد ہی 1886 ء میں ان انجنوں کو ماحولیات دشمن گردانتے ہوئے بند کردیا گیا اور ٹرام کو روایتی انداز میں گھوڑوں کی مدد سے کھینچا گیا۔ 1902 ء میں کراچی میں ٹرام چلانے کی ذمّہ داری ’ایسٹ انڈیا ٹرام وے کمپنی لمیٹڈ‘ کو سونپی گئی۔ 1905 ء میں ٹرام نے ترقی کی منازل طے کرتے ہوئے گھوڑوں کے ذریعے کھنچنے سے جان چھڑائی اور اسے پیٹرول پر چلنے والے انجنوں کی مدد سے کھینچا جانے لگا۔

1905 ء میں ابتدائی طور پر متعارف ہونے والے انجنوں نے 4 برس میں 1909 ء تک تمام سسٹم میں اپنی جگہ بنالی، اور تب تک کراچی کی ہر ٹرام میں پیٹرول پر چلنے والا انجن لگ چکا تھا۔ ٹرام کے پیٹرول پر چلنے والے پہلے دو انجن بنانے کا سہرا ’جان ایبٹ‘ نامی انجنیئر اور ان کے بیٹے ’جان ڈکسن ایبٹ‘ کے سر سجتا ہے۔ یہ دونوں انجن برطانیہ میں بنے۔ ان پیٹرول انجنوں کے لئے ٹرام کا ٹریک ازسرِ نو بنایا گیا، جو گھوڑوں پر چلنے والی ٹرام سے ذرا سا مختلف تھا۔

1914 ء تک کراچی میں پیٹرول سے چلنے والی 37 ٹرامیں دوڑ رہی تھیں۔ ہر ٹرام کو ’ٹرام کار‘ کہا جاتا ہے اور کراچی میں چلنے والی ٹرام کی ہر ’کار‘ (ڈبے ) میں 46 مسافروں کے چڑھنے (بیٹھنے ) کی گنجائش تھی۔ یہ ٹرام 18 کلومیٹر فی گھنٹے کی رفتار سے چلتی تھی، جو رفتار اتنی سُست تھی کہ ٹرا م کے چلتے ہوئے لوگ اس میں سوار ہوتے یا اُتر سکتے تھے۔ 1945 ء میں پہلی دفعہ ٹرام میں ڈیزل کا انجن استعمال کیا گیا، جس کو پیٹرول والے انجن سے زیادہ ماحول دوست قرار دیا گیا۔ 1955 ء تک کراچی میں ڈِیزل سے چلنے والی 64 ٹرامیں دوڑ رہی تھیں۔ 1949 ء میں ’ایسٹ انڈیا ٹرام وے کمپنی لمیٹڈ‘ نے کراچی کا پُورا ٹرام وے سسٹم ’مُحمّد علی ٹرانسپورٹ کمپنی‘ (ایم ٹی سی) کو فروخت کردیا، جس کے مالک شیخ محمّد علی تھے۔

کراچی میں ٹرام 5 رُوٹس پر دوڑا کرتی تھی۔ 20 اپریل 1885 ء میں جب ٹرام چلنا شروع ہوئی، تو اس کا اوّلین اور ابتدائی راستہ (رُوٹ) صدر سے کیماڑی تک تھا۔ 1891 ء تا 1900 ء ٹرام، لارینس روڈ (جس کو اب ’نشتر روڈ‘ کہا جاتا ہے۔ ) سے بھی گزرنے لگی۔ ٹرام کا تیسرا رُوٹ، سب سے پہلے والے راستے کی صدر سے فریئر اسٹریٹ (موجُودہ دائُودپوتہ روڈ) تک توسیع تھی، جو 30 ستمبر 1911 ء کو انجام پائی۔ 17 فروری 1961 ء کو ٹرام کا چوتھا رُوٹ، مینس فیلڈ اسٹریٹ (صدر) تا سولجر بازار قائم ہوا، جس کو 22 اکتُوبر 1928 ء کو چاکیواڑے تک لے جایا گیا۔ جبکہ ٹرام کا پانچواں رُوٹ 1929 ء مینس فیلڈ اسٹریٹ (صدر) تا سولجر بازار پہلے سے رائج رُوٹ کی بندر روڈ (موجُودہ ایم۔ اے۔ جناح روڈ) تک توسیع تھی۔ معروف سائنسدان ڈاکٹر عبدالقدیر خان کے بقول وہ 1950 ء کی دہائی میں جب کراچی میں رہتے تھے، تب ٹرام کا کرایہ ایک آنا ہوا کرتا تھا۔

کراچی میں 1969 ء میں سرکلر ریلوے کا آغاز ہوا، جس کے تحت کراچی بھر میں لوکل ٹرانسپورٹ کے لئے 14 ریل گاڑیاں چلا کرتی تھیں۔ کہا جاتا ہے کہ اس سرکلر ریلوے شروع ہونے کی وجہ سے ٹرام کی اہمیت کم ہوئی اور کچھ کراچی کی ٹرانسپورٹ مافیا نے ٹرام سسٹم کا جینا دوبھر کردیا، ان وجُوہات کی بناء پر خسارے میں جاتے جاتے بالآخر 30 اپریل 1975 ء کو مستقل طور پر ’مُحمّد علی ٹرانسپورٹ کمپنی‘ (ایم ٹی سی) نے کراچی میں ٹرام چلانا بند کردی، اورکراچی میں ٹرام وے سسٹم کا باب ہمیشہ کے لئے بند ہوگیا۔

اور اب کراچی میں ٹرام، بعد میں آنے والی نسلوں کے لئے بس ایک خواب ہی ہے۔ 2017 ء میں کراچی میں میگا صدر منصُوبے کے تحت صدر کے علاقے کی از سرِ نو سجاوٹ میں کاغذوں کی حد تک تو اس میں ٹرام سسٹم کے دوبارہ شروع کرنے کا منصُوبہ شامل ہے، مگر یہ بھی کراچی سرکلر ریلوے کو دوبارہ شروع کرنے والے خواب کی طرح پُورا ہوتا ہوا نظر نہیں آتا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).