نیریٹیو کی جنگ!


شاہ محمود قریشی صاحب نے فرمایا کہ پاکستانیوں کو احمقوں کی دنیا میں نہیں رہنا چائے، دنیا کا اپنے مفادات ہیں اور کشمیر کے معاملے میں ایک نئی جدوجہد درکار ہوگی۔ یقیناً یہ اس حقیقت کا اعتراف ہے کہ انڈیا ایک معاشی قوت ہے اور روایتی سفارتی محاظ پر انڈیا سے مقابلہ دشوار طلب کام ہے۔ تو سوال یقیناً پیدا ہوتا ہے کہ ہمارا موقف دنیا میں کیسے منوایا جائے۔ اس روایتی سفارتی محاظ کا علاوہ ایک اور محاظ ہے جو ان افراد اور اداروں پر مشتمل ہے جو اسانی حقوق کے علمبردار ہیں۔ مگر مسئلہ یہ ہے کہ اس محاذ پر کشمیریوں کا حقوق کی آواز ضرور اٹھ رہی ہے، بلکہ یہ کہا جائے کہ وہی اٹھا رہے ہیں تو بیجہ نہیں ہوگا، مگر کہیں اس ذکر میں پاکستان کا نیریٹیو نہیں ہے۔ سو دونوں محاذوں پر ہم کو مشکلات کا سامنا ہے۔

موجودہ حالات میں ہمارا نیریٹیو دنیا تک پہنچے اس میں سب سے بڑی رکاوٹ ہمارے وہ تضادات ہیں جو ہمارے ملک میں پائے جاتے ہیں۔ رسپونسیبیلٹی کہاں ہے کسی کو نہیں معلوم۔ انڈیا میں جو ہوتا ہے وہ سب مودی اون کرتا ہے اور اگر وہ اون نہ کرے بھی تو سب کو پتا ہے کہ وہی ہے جو نظام چلا رہا ہے سو لنچنگ سے لے ہر چھوٹا موٹا اشو اسی کے کھاتے ہوتا ہے، اس لئے ایک پیج کا فلسفہ وہاں ہے ہی نہیں، انڈیا کا ایک پیج ہے اس پر مودی ہے، وہی اتھارٹی ہے، اسی کی قیادت میں سوشل میڈیا وغیرہ کا نیریٹیو بلڈ ہوتا ہے، پروپیگیٹ ہوتا ہے۔

ہمارے یہاں ایسا نہیں ہے، جو عام نیرٹیو ہے وہ بہت کنفیوزڈ قسم کا ہے جس میں رسپونسیبیلٹی کہیں فکس نہیں پوتی۔ آپ یہ دیکھو اتنے اہم اجلاس میں شمالی اور جنوبی وزیر ستان کے دو ایم این ایز کے پروڈکشن آرڈر نہیں آئے۔ سپیکر سمیت سب نے ہاتھ اٹھائے ہوئے تھے کہ ہم مجبور ہیں۔ جو میسیج حکومت کی جانب سے آنا چاہیے تھا وہ پہلے کور کمانڈر کانفرنس سے آتا ہے۔ آپ کے ملک کا میڈیا مینیج ہے اور وہ حکومت منیج نہیں کر رہی، آپ کی عدالتیں مینیج ہیں وہ بھی حکومتی کام نہیں۔

سو جو ریاست کا فرنٹ فیس ہے وہ تو بے اختیار قسم کا ہے۔ پچھلی حکومتوں کے پاس معیشت ہوتی تھی اس سے وہ بھی چھنی جاچکی ہے، حفیظ شیخ سے لے کر شبر تک ان کا پی ٹی آئی سے تعلق نہیں۔ وہ لا کر بٹھائے گئے ہیں۔ خود وزیر اعظم کا عام تاثر سلیکٹد والا ہے۔ سو دنیا اتنے بے اختیار بندوں کی بات کیسے سنے گی۔ اس صورت حال میں آپ کو ایک مدبر کی ضرورت ہے جس کو دنیا کے انسانی حقوق کے اداروں سے لے کر صحافتی حلقے سنیں۔

آپ مودی اور انڈیا کی یہ ڈپلومیٹک وار روایتی انداز میں جیتے کے قابل نہیں۔ آپ کو غیر روایتی طریقہ اپنانا ہوگا۔ بروٹل فورس کے مقابلے مورل اتھارٹی۔ کیونکہ ماضی میں یہ ہی طریقہ ہے کہ آپ ترقیافتہ ماملک میں پینیٹریٹ ہوسکتے ہیں۔ جب آپ کے پاس مورل ہائی گراونڈ ہوگا تو آپ اپنی بات دنیا کے سامنے رکھ سکتے ہیں۔ اب اس کے لئے کرنا کیا ہے۔

عمران خان صاحب کو اپنی اتھارٹی بنانی ہوگی۔ اس کے لئے پہلا کام ایکسٹینشن نہیں دینی چائیے کیونکہ جب تک موجودہ ٹاپ آرمی لیڈر شپ ہے آپ کا تاثر بے اختیار والا ہی رہے گا۔ باجوہ کے جانے کے بعد آپ کو آرمی کی ٹاپ لیڈر شپ کے سامنے یہ کہنا ہوگا کہ لیٹ می ہینڈل دی تھنگز۔ آپ کو پی ٹی ایم اور عدلیہ کے خلاف مہم جوئی ہوئی ہے اس کو واپس لینا ہوگا۔

۔ آپ کو نواز شریف سے لے کر تمام اپوزیشن کے پاس جا کر یہ باور کروانا ہوگا کہ ان کے خلاف انتقامی کارروائیاں نہیں ہوں گی۔

۔ جو جو پریس اور میڈیا کے خلاف ہو رہا ہے، عمران خان کو بند کروانا ہوگا۔

۔ ملک کے جن جن گروہوں کے مسائل ہیں مسنگ پرسنس کا مسئلہ ہے اس کے لئے ایک با اختیار کمیشن بنانا ہوگا۔

۔ عمران کو پاکستان کی اقلیتوں کے پاس جانا ہوگا اور یہ باور کروانا ہوگا کہ وہ ان کے حقوق کا دفاع کرے گا۔

۔ ایک ٹرتھ اور ری کنسیلیشن کمیشن بنانا ہوگا جس میں ادارواں اور افراد کی حکومتی سطح کی ماضی کی غلطیوں کا ادراک ہوسکے

عمران خان جب یہ سب کرے گا تو یقین مانو وہ ایک سٹیٹس مین بن کر ابھرے گا۔ پاکستان کا جو میڈیا اس کے خلاف ہے وہ اس کے لئے لابنگ کرے گا۔ اور اصل کام شروع ہوگا کہ ہم پاکستانی نیریٹیو دنیا کے سامنے رکھ سکیں گے اور سامنے والا گالی تو دے سکے گا مگر رد نہیں سکتا۔ عمران جہاں جائے گا لوگ اس کو نیلسن میڈیلا کی طرح عزت دیں گے۔ عمران خان کو اپنا ہائی مورل گراونڈ بنانا ہوگا۔ اس وقت شاٹ ٹرم میں آپ کو یہ لیڈر شپ چاہیے جس کے پیجھے لوگ فخر سے کھڑے ہوں اور کرنٹ ورلڈ نے جو انسانی حقوق، آزادی صحافت، اجتماعیت کے اصول وضع کیے ہیں وہ اس کا چیمپین بن کر ابھرے۔ مودی جیسوں کو اسی طرح شکست ہوسکتی ہے۔

آگر آپ کو لگتا ہو کہ آپ ایک محاذ پر نہیں جیت سکتے تو آپ کو ایسا محاذ کھولنا چاہیے جہاں آپ کا پلڑا بھاری ہو۔ مہذب دنیا میں ایک الٹرنیٹیو میڈیم ہے جو تمام سفارت کاری اور پاور سٹرکچر کے سامنے کھڑا ہوتا ہے اور وہ ان حضرات پر مشتمل ہے جو انسانیت کے ساتھ کھڑے ہوتے ہیں۔ آج کشمیر کے اندر جو ہو رہا ہے، وہ وہی لوگ دکھا رہے ہیں۔ کشمیر کے لئے پاور فل آرٹیکلز وہاں سے ہی آرہے ہیں۔ مگر آپ نے ایک بات نوٹس کی ہوگی کہ پاکستان کے لئے حمایت نہیں ہے بلکہ کشمیر یوں کے لئے ہے، ان کے حقوق کے لئے ہے۔

سو پاکستانی بیانیہ سنا نہیں جارہا اس کی واحد وجہ آپ کا اندر کا تضاد ہے۔ اس کو حل کیے بنا آپ باہر بھی میسیج نہیں دے سکتے۔ میری یہ رائے ہے کہ ہم لیڈر شپ پیدا کریں جس کو وہ میڈیم سن سکے اور اس کی بات کو اہمیت دے۔ وہ لیڈر شپ ان کو انسپائر کرے۔ آپ روایتی سفارتی محاذ پر انڈیا کا مقابلہ نہیں کر سکتے مگر آپ ٹیبل ٹن آراونڈ کر سکتے ہیں دوسری جانب سے۔ مگر اس کے لئے ہمارے لیڈر کو ابھرنا ہوگا۔

یزدیت کا مقابلہ کرنے کے لئے کبھی بھی چھوٹا یزید نہیں بنا جاتا بلکہ آپ کو حسینیت کا لباس پہنا پڑتا ہے۔ راون کو راون نہیں مار سکتا، اس کے لئے رام چاہیے ہوتا ہے۔اور اندھیرے کا مقابلہ اندھیرا نہیں کرسکتا بلکہ اس کے لئے آپ کو شمع بننا پڑتا ہے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).