مسئلہ کشمیر کے ”آؤٹ آف باکس“ حل کا وقت آن پہنچا؟


ستر برسوں سے سلگتے اور کبھی بھڑکتے مسئلہ کشمیر نے کشمیریوں کے لیے ان سر زمین کو جس طرح جہنم زار بنا دیا ہے اس کے لیے ماضی میں جھانکنے کی بجائے حالیہ خونیں صورتحال ہی کافی ہے۔ نریندر مودی سرکار کے مقبوضہ کشمیر کی بھارتی آئین میں خصوصی حیثیت کے خاتمے کے اقدام نے کشمیر میں بے چینی اور خوف کے ساتھ بغاوت کے جذبات کو بھی بڑھاوا دے دیا ہے۔ آج مقبوضہ کشمیر عملی طور پر بھارتی افواج کی چھاؤنی میں تبدیل ہو چکا ہے جہاں مظلوم کشمیری ایک کربناک صورت حال کا شکار ہیں اور اس سے اٹھنے والے درد و رنج کا احساس اور ادراک اس خطے سے باہر بسنے والوں کو شاید اس طرح نہ ہو پائے کہ جس طرح ان کی رگ و پے میں دوڑ جاتا ہوگا جو ہر روز اپنی انکھوں سے ایک نئے ظلم کو ٹوٹتا دیکھتے ہیں۔

ستر برسوں سے زائد لٹکتے اس مسئلے اور مقبوضہ خطے میں روز جنم لینے والے انسانی المیے کے بعد کیا وقت نہیں آن پہنچا کہ اس مسئلے کے حل کے لیے پاکستان اور بھارت کو اپنے روایتی مؤقف سے پیچھے ہٹ کر کسی ”آؤٹ آف باکس“ حل کی طرف بڑھنا چاہیے۔ نریندر مودی سرکار نے کشمیر کی بھارتی آئین میں خصوصی حیثیت کو ختم کر کے کشمیر کو ہندوستانی یونین کا حصہ تو بنا دیا لیکن یہ بھارت معاندانہ ان جذبات کو دبا نے سے قاصر ہو گا جو اب ہر کشمیری کے اندر سرایت کر چکے ہیں۔

کشمیر کے حل طلب مسئلے کے بلاشبہ تین فریق پاکستان، بھارت اور کشمیری ہیں لیکن اس کا اول فریق کشمیری ہیں اور وہی اس وقت سب سے زیادہ متاثر ہیں۔ کشمیر پر روایتی مؤقف سے بھارت آج تک کشمیریوں کے جذبہ حریت کو دبا سکا اور نہ ہی پاکستان ”کشمیر بنے گا پاکستان“ کے نعرے کو عملی صورت میں ڈھالنے پر قادر ہے۔ بھارت اپنی فوج اور اسلحے کے بل بوتے پر کشمیریوں کی آزادی کی خواہش کو مٹانے میں قاصر رہا اور پاکستان بزور بازو کشمیر کو بھارت کی گرفت سے چھڑانے میں کامیاب ہو سکا۔

آپریشن جبرالٹر، کارگل مہم جوئی اور عسکریت پسندی اس کا واضح ثبوت ہیں کہ پاکستان اس مسئلے کو اسلحے کے بل بوتے پر حل کرنے میں نا کام رہا۔ عالمی حالات اور پاکستان کی موجودہ معاشی صورتحال بھی اس بات کی متحمل نہیں ہو سکتی کہ کشمیر پر ایک نئی جنگ چھیڑی جا سکے۔ مقبوضہ کشمیر کے اندر عسکریت پسندی کی حمایت اور اس کے لیے پاکستان کے اندر بیس کیمپ کا تصور بھی محال ہے کیونکہ ایف اے ٹی ایف نامی تلوار کی تیز دھار سے بچنے کے لیے ہم پہلے ہی ہاتھ پاؤں مار رہے ہیں۔

بھارت بھی اس خام خیالی کا شکار ہے کہ انتظامی، فوجی اور آئینی ترمیم کے ذریعے وہ کشمیر کو انڈیا یونین کا حصہ بنا کر وہ مسئلے کو حل کر چکا ہے۔ ایک ایسی پیچیدہ صورت حال میں جب بھارت اپنا قبضہ بزور قوت رکھنے پر ڈھٹائی سے ڈٹا ہوا ہے، پاکستان اقوامِ متحدہ کی قراردادوں کے سہارے اس مسئلے کے حل کی خوش فہمی کا شکار ہے اور کشمیری ایک جہنم میں زندگی پر مجبور ہیں تو پھر ایک غیر روایتی سوچ کے ذریعے اس مسئلے کو حل کرنے کی کوشش کی طرف بڑھنا چاہیے۔

پاکستان کو سب سے پہلے بھارتی سرکار کے حالیہ اقدام کو کالعدم قرار دلوانے کے لیے سفارتی اور سیاسی طور پر اپنی کوششوں کو تیز تر کرنا چاہیے۔ اس محاذ پر کامیابی کے روشن امکانات ہیں کیونکہ کشمیر کی بھارتی آئین میں خصوصی حیثیت ختم کرنے کے خلاف بھارت کے اندر سے بھی شدید تنقید جاری ہے اور بین الاقوامی سطح پر بھی یہ اقدام مذمت اور تنقید کی زد میں ہے۔ ایک مربوط اور جامع سفارتی کوشش کے ذریعے مقبوضہ کشمیر کی بھارتی آئین میں سابقہ حیثیت کو بحال کروایا جا سکتا ہے۔ ایک بار یہ حیثیت بحال ہو جائے تو پھر کشمیر کے مسئلے کے لیے اس فارمولے پر کام کی کوششوں کا آغاز ہونا چاہیے کہ جو زمینی حقائق سے مطابقت رکھتی ہوں۔

بین الاقوامی قوتوں کی ثالثی کے چھتری تلے پاکستان اور ہندوستان کو کسی ایک ایسے معاہدے کی طرف بڑھنا چاہیے جس میں ستر برسوں سے روایتی مؤقف سے دستبردار ہوکر ایک حقیقی اپروچ کو اپنانا ہو گا۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان پاکستان کا حصہ بن چکے ہیں ان کی آئینی حیثیت کچھ بھی ہو لیکن وہ پاکستان میں اب ایسے ضم ہو چکے ہیں کہ پاکستان سے الگ ان کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔ جموں کو ہندو اکثریتی خطہ ہے وہ بھی ہندوستان یونین کے ساتھ ذہنی اور مذہبی طور پر ہم آہنگ ہے۔

لداخ میں ہندوستان کے حالیہ اقدام سے قبل کوئی ایسی بے چینی نہیں تھی سوائے اس کے کہ چین کے ساتھ اس خطے پر اس کا تنازعہ ہے۔ لیکن چین اور ہندوستان اس پر ایک دوسرے کے ساتھ اس طرح برسر پیکار نہیں ہیں جس طرح پاکستان اور ہندوستان کشمیر کے مسئلے پر ایک دوسرے سے سینگ اڑائے ہوئے ہیں۔ آزاد کشمیر، گلگت بلتستان کو پاکستان اور جموں و لداخ کو ہندوستان یونین کا حصہ بنانے پر اگر دونوں ملک باہمی طور پر رضامند ہوتے ہیں تو اب مسئلہ وادی کا رہ جاتا ہے جو اصل میں دونوں ممالک کے درمیان باعث نزاع ہے۔

اس سلسلے میں پہلے قدم کے طور پر وادی کو بین الاقوامی ثالثی کے سائے تلے اس حد تک خود مختاری دی جائے کہ وہ امن و امان کے لیے اپنی پولیس فورس قائم کرسکے اور اپنے وسائل پیدا کرنے کے لیے ٹیکس لگا سکے اور بیرون ملک سے تجارتی تعلقات قائم رکھ سکے۔ اسی طرح اس حد تک آزادی ہو کہ وہ ہندوستان اور پاکستان سے آنے والے سیاحوں کو ریگولیٹ کر سکے۔ یہ اسکیم تبدیلیوں اور ترامیم کے لیے اوپن ہو جو بین الاقوامی ضامنوں کی زیر نگرانی کی جا سکیں۔

یہ اسکیم ایک خاص مدت تک نافذ رہے اور اس کے بعد وادی کے لوگوں کی مرضی معلوم کی جائے کہ وہ پاکستان، ہندوستان یا اپنی آزاد حیثیت کے بارے میں کیا رائے رکھتے ہیں۔ کشمیر کے ”آؤٹ آف باکس“ حل کی طرف ہندوستان اور پاکستان کو بڑھنا ہوگا کیونکہ روایتی مؤقف پر چمٹے رہنے سے مسئلہ کشمیر حل نہ ہو سکا اور کشمیریوں کے لیے ان کی اپنی سر زمین جہنم بنا دی گئی۔ چینی انقلاب کے رہنما چیئرمین ماؤ زے تنگ نے کہا تھا کہ حقائق تصورات سے زیادہ اہم ہوتے ہیں۔

کشمیر سے جڑے حقائق اس بات کی گواہی دیتے ہیں کہ پاکستان اور ہندوستان اپنے تصورات کے مطابق ستر برسوں میں حل نہ ڈھونڈ سکے اور شنید ہے کہ روایتی مؤقف اگلے ستر برس بھی اس مسئلے کو حل نہ کر پائیں گے۔ کیا وقت آ نہیں پہنچا کہ ایک قابل عمل حل کی طرف بڑھا جائے تاکہ کشمیریوں کو ان کی وادی جنت نظیر واپس دلائی جا سکے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).