کشمیر: انڈین حکومت نے اعتراف کیا ہے کہ صورہ میں پتھراؤ ہوا تھا


انڈین حکومت نے پہلی بار نو اگست کو سرینگر کے علاقے صورہ میں مظاہرے کے واقعے کو تسلیم کیا ہے۔

واضح رہے کہ بی بی سی نے رپورٹ کیا تھا کہ نو اگست کو جمعے کی نماز کے بعد سخت ترین کرفیو کے باوجود صورہ کے علاقے میں احتجاجی مارچ ہوا تھا اور انڈیا مخالف نعرے بازی کی گئی تھی لیکن حکام نے ایسے کسی واقعے سے انکار کیا تھا۔

انڈین حکومت کی وزارت داخلہ کے ترجمان کی جانب سے ٹویٹ میں کہا گیا کہ ‘میڈیا نے نو اگست کو صورہ میں ہونے والے واقعات پر خبر نشر کی تھی۔ اس دن چند لوگ نماز کے بعد واپس آ رہے تھے مگر چند شر پسند عناصر ان کے ساتھ موجود تھے۔

’حالات میں بگاڑ پیدا کرنے کی غرض سے ان لوگوں نے سکیورٹی حکام پر بغیر کسی وجہ پتھراؤ کیا لیکن سکیورٹی حکام نے تحمل سے کام لیتے ہوئے امن و امان برقرار رکھنے کی کوشش کی۔ ہم یہ بات دوبارہ دہرانا چاہتے ہیں کہ آرٹیکل 370 ختم ہونے کے بعد سے جموں و کشمیر میں اب تک ایک گولی بھی نہیں چلی ہے۔’

یہ بھی پڑھیے

کیا مسلمانوں نے 370 کے خاتمے کے حق میں جلوس نکالا تھا؟

کشمیر: سخت کرفیو میں انڈیا مخالف مظاہرے جاری

’میں اپنے بیٹے کو بھی بندوق اٹھانے کے لیے تیار کروں گا`

آرٹیکل 37 کے خاتمے اور اس کے بعد کشمیر کے معاملے پر بی بی سی اردو کا خصوصی ضمیمہ

https://twitter.com/PIBHomeAffairs/status/1161224285240922112

بی بی سی ویڈیو

یاد رہے کہ بی بی سی نے جمعے کو صورہ کے علاقے میں ہونے والی کشیدگی کی ویڈیو جاری کی تھی اور حکام نے مظاہرین کو منتشر کرنے کی غرض سے چھرے اور اشک آور گیس کا استعمال کیا تھا۔

ویڈیو نشر ہونے کے بعد انڈین حکومت نے کہا تھا کہ اس نوعیت کا کوئی بڑا مظاہرہ نہیں ہوا تھا جبکہ بی بی سی کی جانب سے جاری کی گئی ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ بڑی تعداد میں مظاہرین سڑکوں پر جمع تھے اور فایرنگ کی آوازیں بھی سنی جا سکتی ہیں۔

بی بی سی کے نامہ نگار ریاض مسرور کے مطابق کشمیر پولیس کے انسپکٹر جنرل نے دعوٰی کیا ہے کہ گزشتہ نو روز کے دوران تشدد کا کوئی واقعہ بھی پیش نہیں آیا۔

جبکہ سری نگر کے دو بڑے ہسپتالوں کے ڈاکٹروں نے بتایا ہے کہ بیس سے زیادہ ایسے نوجوانوں کا علاج ہو رہا ہے جن کے چہرے اور جسم پر آہنی چھرے لگے ہیں۔

کشمیر محصور، نو روزہ کرفیو سے زندگی مفلوج

انڈیا کا زیرانتظام کشمیر عید الاضحٰی کے موقع پر مجموعی طور پر امن رہا، لیکن مختلف بندشوں کی وجہ سے معمولات زندگی بہت زیادہ حد تک متاثر ہیں۔

بھارت کے زیرانتظام کشمیر میں گزشتہ نو روز سے عام زندگی مفلوج ہے۔ سخت ترین ناکہ بندی اور مواصلات کے سب ہی ذرائع منقطع ہونے کی وجہ سے وادی کے کسی بھی حصے سے کوئی خبر موصول نہیں ہو رہی۔ تاہم پیر کو عیدالاضحٰی کے موقع پر صورتحال مجموعی طور پر پرسکون رہی۔

حکومت کا کہنا ہے کہ جامع مسجد، درگاہ حضرت بل، سید یعقوب صاحب درگاہ، عیدگاہ اور دوسرے اہم مقامات کے سوا ہر جگہ لوگوں نے مقامی مساجد میں نمازِ عید ادا کی۔

بھارتی حکومت نے پانچ اگست کو انڈیا کے زیر انتظام جموں کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت ختم کر دی تھی۔

اس موقع پر کشمیری راہنماؤں فاروق عبداللہ، عمرعبداللہ اور محبوبہ مفتی سمیت ہند نواز جماعتوں کے درجنوں لیڈروں کو گرفتار کر لیا گیا۔

سرکاری ذرائع سے کے مطابق ان راہنماؤں میں سے بعض کو دلی اور آگرہ منتقل کیا گیا ہے۔

جبکہ وزرا سمیت کئی راہنماؤں کو سری نگر میں جھیل ڈل کے کنارے واقع شیرِ کشمیر انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز میں رکھا گیا ہے، جسے وقتی طور پر سب جیل قرار دیدیا گیا ہے۔

علیحدگی پسند راہنماؤں میر واعظ عمر فاروق اور سید علی گیلانی کو ان گھروں میں نظر بند کرکے رکھا گیا۔ گیلانی کے رشتہ داروں کا کہنا ہے کہ وہ نہایت علیل ہیں۔

متعدد بار وزیر رہنے والے نیشنل کانفرنس کے لیڈر علی محمد ساگر کے نواسے یاور نے بتایا کہ وہ اپنے نانا اور ماموں سے ملنے کے لیے کئی روز سے کوشش کر رہے ہیں مگر انھیں ملاقات کی اجازت نہیں ملی۔

سابق وزیر نعیم اختر کی بیٹی کا کہنا ہے کہ کئی روز کی منت سماجت کے بعد انہیں اپنے والد کو دوایاں پہنچانے کی اجازت دی گئی۔

سابق رکن اسمبلی انجنیئر رشید کو نیشل انویسٹی گیشن ایجنسی نے دہشت گردی کی فنڈنگ کے شبہ میں دلی سے گرفتار کر لیا ہے۔

بندشوں میں نرمی کے دوران اچانک سختی کر دی جاتی ہیں جس کی وجہ سے باہر گئے ہوئے شہریوں کو گھر واپسی میں دشواری ہوتی ہے۔

پندرہ اگست کو انڈیا کے یوم آزادی کے موقع پر ضلعی سطح پر تقریبات کے لیے سیکورٹی کے انتظامات کیے جارہے ہیں۔ اور منگل کے روز سرینگر کے بخشی سٹیڈیم میں اس سلسلے میں باقاعدہ مشق کا اہتمام کیا گیا۔

ریاست کے گورنر ستیہ پال ملک نے راہول گاندھی کے کئی بیانات کے ردعمل میں انہیں چلینج کیا تھا کہ وہ خود آکر دیکھیں کہ یہاں حالات کس قدر پرسکون ہیں۔

راہول نے بعد میں ٹویٹ کے ذریعہ اعلان کیا کہ اگر حکومت کانگریس کے وفد کی نقل و حرکت کو یقینی بنائے تو وہ کشمیر جائیں گے۔

چند روز قبل کانگریس کے راہنما اور سابق مرکزی وزیر غلام نبی آزاد کشمیر کے دورے پر پہنچے تو انہیں سرینگر کے ہوائی اڈے سے دلی واپس بھیج دیا گیا تھا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32497 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp