ماحُور شہزاد: والد کا خواب پورا کرنے والی پاکستان کی بیڈمنٹن چیمپیئن


ماحور شہزاد

ماحور گذشتہ چار برس سے پاکستان کی نمبر ایک بیڈمنٹن کھلاڑی ہیں

بیڈمنٹن کے کھیل کی نگراں عالمی تنظیم بیڈمنٹن ورلڈ فیڈریشن نے جب اِس سال جولائی میں کھلاڑیوں کی تازہ ترین درجہ بندی جاری کی تو تاریخ میں پہلی بار ٹاپ 150 کھلاڑیوں میں ایک پاکستانی کھلاڑی ماحُور شہزاد کا نام بھی شامل تھا۔

ماحُور گذشتہ چار برس سے پاکستان کی نمبر ایک بیڈمنٹن کھلاڑی ہیں جبکہ پچھلے تین سال سے وہ نیشنل چیمپیئن بھی ہیں۔

بی بی سی سے ملاقات میں ماحُور شہزاد کا کہنا تھا کہ فٹبال کے بعد بیڈمنٹن دنیا کا سب سے مقبول کھیل ہے اور یہی وجہ ہے کہ اِس کھیل میں مقابلے کا رجحان انتہائی سخت ہوتا ہے۔

‘بیڈمنٹن ورلڈ فیڈریشن کے تحت منقعد ہونے والا مقابلہ کھیلنا کسی بھی کھلاڑی کے لیے اعزاز کی بات ہوتی ہے اور اگر کوئی اِن مقابلوں کے کوارٹر فائنلز تک بھی پہنچ جائے تو اِسے ایک بڑی کامیابی تصور کیا جاتا ہے۔

’اِسی طرح اگر کوئی کھلاڑی ورلڈ رینکنگ میں ٹاپ 150 میں جگہ بنانے میں کامیاب ہو جائے تو اُس کا شمار بہترین بیڈمنٹن کھلاڑیوں میں کیا جانے لگتا ہے۔‘

قومی اور بین الاقوامی بیڈمنٹن سرکٹ میں ماحور شہزاد کی اب تک کی کامیابیوں کی فہرست کافی طویل ہے۔

انھوں نے پاکستان انٹرنیشنل بیڈمنٹن ٹورنامنٹ 2017 کے سنگلز میں سونے اور ڈبلز مقابلوں میں کانسی کا تمغہ جیتا جبکہ جنوری 2017 میں نیشنل بیڈمنٹن چیمپیئن شپ کے سنگلز مقابلوں کی فاتح رہیں اور خواتین کے ڈبلز مقابلوں میں دوسری پوزیشن حاصل کی۔

ماحور جنوبی کوریا میں ہونے والی ایشیئن گیمز 2014 میں پاکستان کی نمائندگی بھی کر چکی ہیں جس کے بعد انھوں نے 2015 اور 2016 میں منعقد ہونے والے آل پاکستان رینکنگ بیڈمنٹن ٹورنامنٹ کے خواتین کے سنگلز مقابلے جیتے جبکہ نیشنل بیڈمنٹن چیمپیئن شپ 2015 میں دوسری پوزیشن حاصل کی تھی۔

اُنھوں نے پاکستان انٹرنیشنل 2016 میں دوسری پوزیشن حاصل کی جبکہ 2017 میں منعقد ہونے والے ٹورنامنٹ کی فاتح رہیں۔

باپ کا خواب جو بیٹی نے پورا کیا

اس سوال پر کہ کھیل تو بے شمار ہیں لیکن انھیں بیڈمنٹن کھیلنے کا ہی خیال کیوں آیا تو اُنھوں نے بتایا کہ اِس کھیل کی طرف راغب کرنے میں گھر کے ماحول کا بہت بڑا ہاتھ تھا۔

‘میرے پاپا نے جونیئر لیول تک بیڈمنٹن کھیلا تھا اور اُن کی خواہش تھی کہ اُن کی بیٹیاں بھی یہ کھیل کھیلیں۔ بچپن میں جب پاپا پریکٹس کیا کرتے تھے تب میں بھی دیکھا دیکھی اُن کی نقل کیا کرتی تھی۔ پھر میں نے دوسرے بچوں کی طرح گلی میں بیڈمنٹن کھیلنا شروع کیا۔’

ماحور بتاتی ہیں کہ 13 سال کی عمر میں انھوں نے پہلی بار جونیئر نیشنل انڈر 19 چیمپیئن شپ میں حصہ لیا اور فاتح رہیں۔

’اُس وقت میرے والدین کو میری صلاحیت کا درست اندازہ ہوا۔ اُنھیں لگا کہ کہ اگر مناسب سہولیات فراہم کی جائیں تو میں قومی اور بین الاقوامی مقابلوں میں کامیابیاں حاصل کر سکتی ہوں اور بیڈمنٹن میں اپنا مقام بنا سکتی ہوں۔‘

‘میرے پاپا ہی میرے کوچ ہیں’

ماحور شہزاد کہتی ہیں کہ اُن کی کامیابیوں کے پیچھے والدین کی برسوں کی محنت ہے۔

’شروع ہی سے پاپا مجھے روز صبح پریکٹس کراتے ہیں۔ ابتدا میں وہ میرے لیے انٹرنیشنل ٹورنامنٹس منتخب کیا کرتے تھے۔ اب بھی بیرونِ ملک دوروں کے لیے ویزے کی بھاگ دوڑ کے ساتھ ساتھ سفر اور رہائش کے اخراجات بھی وہی برداشت کرتے ہیں۔’

ماحور کا کہنا ہے کہ ہر مقابلے کے بعد اُن کے والد ساتھ بیٹھ کر میچ کی ویڈیو دیکھتے ہیں اور خامیوں کی نشاندہی اور اُن کو دور کرنے کے لیے مشورے بھی دیتے ہیں۔

ماحور شہزاد

ماحور شہزاد: ایک شٹل ڈیڑھ سو سے دو سو روپے کی آتی ہے

لڑکی ہونا آسان نہیں

ماحور کا کہنا تھا کہ گھر والوں کی حمایت اور مدد کی وجہ سے اُن کے لیے کھیلوں کی طرف آنا اِتنا مشکل نہیں تھا لیکن دیگر لڑکیوں کے لیے صورتحال کافی مختلف ہے۔

’اکثر والدین سمجھتے ہیں کہ کھیل وقت کا زیاں ہے اور اس کے ذریعے باعزت روزگار کا حصول ممکن نہیں۔

’ماں باپ کا نظریہ یہ ہوتا ہے کہ لڑکیوں کی شادی ہو جانی ہے تو اِس لیے انھیں صرف گھر پر توجہ دینی چاہیے۔ اِسی لیے لوگ اپنی بیٹیوں کو کھیلوں کی طرف نہیں بھیجتے اور اس شعبے میں صرف وہی لڑکیاں کامیاب ہوتی ہیں جن کے والدین اُن کا ساتھ دیتے ہیں۔’

کوئی اکیڈمی نہیں

ماحور شہزاد کہتی ہیں کہ پاکستان میں بیڈمنٹن کے فروغ میں حائل سب سے بڑی رکاوٹ ملک میں بیڈمنٹن اکیڈمیوں کا نہ ہونا ہے۔

’میرے پاپا خود بیڈمنٹن کے کھلاڑی رہ چکے ہیں تو وہ مجھے ٹریننگ کرا دیتے ہیں لیکن دیگر کھلاڑیوں کے لیے کوچز ڈھونڈنا بہت مشکل کام ہے کیونکہ پاکستان میں بیڈمنٹن کے بہت کم کوالیفائیڈ کوچ ہیں۔

‘یہاں کھلاڑیوں کو خود ہی کوچ ڈھونڈنے پڑتے ہیں اور نجی کلبوں میں فیس ادا کر کے بیڈمنٹن کورٹس استعمال کرنے کی اجازت حاصل کرنی پڑتی ہے۔ کوئی ایسا نظام نہیں ہے جو کھلاڑیوں کو بتائے کہ اُنھیں کس طرح ٹریننگ کرنی ہے اور دن بھر کا شیڈول کس طرح ترتیب دینا ہے۔

’اپنی ٹریننگ کا نظام الاوقات مجھے خود ہی تیار کرنا پڑتا ہے۔ اگر اکیڈمیاں ہوں تو کھلاڑیوں کے لیے بہت سہولت ہو جائے گی۔

ماحور شہزاد

غیرمقبول کھیل

اس سوال پر کہ ہر چھوٹے بڑے شہر کے گلی محلوں میں نوجوان اور بچے بیڈمنٹن کھیلتے نظر آتے ہیں لیکن اِس کے باوجود پاکستان میں یہ ایک غیر مقبول کھیل کیوں ہے، ماحور کا کہنا تھا کہ بیڈمنٹن کے بارے میں آگہی کی کمی ہے۔

وہ چاہتی ہیں کہ میڈیا بیڈمنٹن کے قومی مقابلے ٹی وی پر براہِ راست دِکھائے کیونکہ اِس طرح لوگوں کو اِس کھیل کے بارے میں معلومات ملیں گی اور وہ قومی کھلاڑیوں کے بارے میں جانیں گے۔

‘جب میری ورلڈ رینکنگ بہتر ہوئی اور میڈیا پر میرا ذکر ہوا تو لوگوں کی اِس کھیل میں دلچسپی خودبخود بڑھ گئی۔ اب نوجوان لڑکے لڑکیاں مجھ سے رابطہ کرتے ہیں کہ وہ بھی یہ کھیل کھیلنا چاہتے ہیں۔‘

مہنگا کھیل

ماحور نے یہ بھی کہا کہ بیڈمنٹن ایک مہنگا کھیل ہے اور اِس کے اخراجات اُٹھانا ہر کسی کے بس کی بات نہیں۔

’ایک شٹل ڈیڑھ سو سے دو سو روپے کی آتی ہے اور ایک ٹریننگ سیشن میں کم از کم تین سے چار شٹل استعمال ہو جاتی ہیں، اِس طرح صرف شٹل کا ہی روزانہ کا خرچ پانچ سے چھ سو روپے ہے۔ اس کے علاوہ اچھی کوالٹی کا ریکٹ تقریباً چالیس سے پچاس ہزار روپے کا آتا ہے۔

’یہی نہیں بیڈمنٹن کورٹ اور کوچ کی فیس بھی کھلاڑیوں کو اپنی جیب سے ادا کرنی پڑتی ہے، اس لیے بیڈمنٹن سستا کھیل ہرگز نہیں ہے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ حکومت بیڈمنٹن فیڈریشن کو بھی مناسب فنڈز فراہم نہیں کر رہی جس کی وجہ سے کھلاڑی بہت کم بین الاقوامی مقابلوں میں شرکت کر پاتے ہیں۔

اولمپکس کھیلنے کی خواہش

اب ماحور شہزاد کی نظریں اولمپکس پر ہیں۔ وہ بتاتی ہیں کہ قومی سطح پر کامیابی کے بعد اب اُن کا ہدف بین الاقوامی بیڈمنٹن سرکٹ میں نام پیدا کرنا ہے۔

‘میرا ارادہ ہے کہ میں ٹوکیو اولمپکس سے پہلے زیادہ سے زیادہ بین الاقوامی مقابلوں میں حصہ لوں تاکہ میری ورلڈ رینکننگ بہتر ہو۔ اِس طرح اگر میں ٹاپ 70 کھلاڑیوں میں جگہ بنانے میں کامیاب ہو گئی تو 2020 میں جاپان میں ہونے والے اولمپکس میں شرکت کر سکوں گی۔’

کھیل کے ساتھ ساتھ تعلیم بہت ضروری

ماحور شہزاد کراچی کے انسٹیٹیوٹ آف بزنس ایڈمنسٹریشن سے فارغ التحصیل ہیں اور وہ کہتی ہیں کہ کھلاڑیوں کو کھیل کے ساتھ ساتھ اعلیٰ تعلیم بھی حاصل کرنی چاہیے۔

ان کا کہنا تھا کہ ان کے بیڈمنٹن کریئر میں اُن کے تعلیمی اداروں نے بہت ساتھ دیا۔

’سکول اور یونیورسٹی والوں کو معلوم تھا کہ میں ایک نیشنل لیول کی کھلاڑی ہوں، اس لیے اگر کبھی امتحانات کے دوران مقابلے ہوتے تو وہ میرا دوبارہ امتحان لے لیا کرتے تھے۔ ٹیچرز بھی اکثر کلاسز کے بعد مجھے پڑھایا کرتے تھے۔

’جب میں نے آئی بی اے میں داخلہ لیا تو انھوں نے بھی میرا ساتھ دیا اور غیر حاضریوں کے باوجود میرا تعلیمی سلسلہ منقطع نہیں ہونے دیا۔‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32292 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp