کیا انڈیا نے کشمیر کو وہاں دھکیل دیا ہے جہاں اب واپسی ممکن نہیں؟


Kashmiri women shout slogans during a protest after the scrapping of the special constitutional status for Kashmir by the Indian government, in Srinagar, August 11, 2019

انڈیا کی حکومت کی جانب سے انڈیا کے آئین میں انڈیا کے زیرِ انتظام کشمیر کو حاصل خصوصی خودمختاری ختم کیے جانے کے بعد سے گذشتہ ایک ہفتے سے علاقے میں ایک بےمثال نوعیت کا کرفیو نافذ ہے۔ لندن سکول آف اکانومکس کے پروفیسر سومانترا بوز بیان کر رہے ہیں کہ یہ فیصلہ انڈین حکومت کے لیے کیا چیلنجز سامنے لائے گا؟

اس اکتوبر کے آخر میں جموں اور کشمیر انڈیا کی ایک ریاست نہیں رہیں گے۔

گذشتہ ہفتے انڈیا کی پارلیمنٹ نے ایک بھاری اکثریت کے ساتھ وفاقی حکومت کے اس فیصلے کی تائید کی کہ ریاست کو دو یونین علاقوں جموں و کشمیر اور لداخ میں توڑ دیا جائے۔ یونین علاقوں کے پاس ریاستوں کے مقابلے میں کم حقوق ہوتے ہیں اور حقیقی معنی میں تو وہ دلی کے وفاقی کنٹرول میں ہوتے ہیں۔

ریاست کی تقریباً 98 فیصد آبادی جموں و کشمیر کے علاقے میں ہوگی جس میں دو اہم جز ہیں۔ ایک کشمیر وادی جہاں تقریباً 80 لاکھ لوگ رہتے ہیں اور مسلم اکثریت ہے اور دوسری جانب جموں جہاں 60 لاکھ لوگ رہتے ہیں اور ہندو اکثریت ہے۔ لداخ ایک اونچائی پر موجود صحرا ہے جہاں تین لاکھ لوگ رہتے ہیں جن میں آدھے مسلمان اور آدھے بدھمت کے پیروکار ہیں۔

گذشتہ ہفتے کے واقعات نے ہندو قوم پرستی کا وہ خواب پورا کر دیا جو 1950 کی دہائی کے اوائل میں دیکھا گیا تھا: آرٹیکل 370 کا خاتمہ۔

ہندو قوم پرستوں نے گذشتہ سات دہائیوں سے آرٹیکل 370 کی مخالفت کی ہے اور ملک کی واحد مسلم اکثریتی ریاست کی طمانیت کی علامت کے طور پر دیکھا ہے۔ یہ آرٹیکل ہندو قوم پرستوں کے اس خواب کے بھی منافی تھا کہ انڈیا کو ایک اکائی اور وفاقی کنٹرول والا ملک ہونا چاہیے۔

یہ بھی پڑھیے

’خدشہ ہے کہ انڈیا نیا قتل عام کرنے کا ارادہ رکھتا ہے‘

’عید گزرنے دو، کشمیر میں طوفان آئے گا‘

کشمیر: سخت پابندیوں میں عید پر حالات پرامن

پاکستان، کشمیر اور خام خیالی

جموں اور کشمیر کی از سرِ نو حد بندی بھی ایک پرانا ہندو قوم پرست ہدف تھا۔

2002 میں ہندو قوم پرست تحریک آر آر ایس نے مطالبہ کیا تھا کہ ریاست کو تین حصوں میں بانٹ دیں، ایک مسلم اکثریتی ریاست کشمیر، ہندو اکثریتی ریاست جموں اور تیسرا لداخ جس کو یونین علاقے کا درجہ ہو۔

A Kashmiri woman feeds pigeons at a street during restrictions after the scrapping of the special constitutional status for Kashmir by the government, in Srinagar, August 11, 2019

ساتھ ہی ساتھ ویشوا ہندو پرشاد (وی ایچ پی)، آر آر ایس کی ساتھی تنظیم کا مطالبہ تھا کہ خطے کو چار حصوں میں تقسیم کیا جائے۔ لداخ کو یونین علاقہ بنایا جائے، جموں کو ریاست بنایا جائے۔ کشمیر کو دو حصوں میں بانٹا جائے جہاں ایک حصہ یونین علاقہ ہو جہاں صرف کشمیری پنڈٹوں کو رہنے کی اجازت ہو۔ کشمیری پنڈٹ وادی کی وہ ہندو اقلیت ہے جسے 1990 میں سورش شروع ہونے پر وادی چھوڑنا پڑی تھی۔ اس پلان کے تحت باقی رہ جانے والے علاقے کو مسلم اکثریت کے حوالے کیا جانا تھا۔

وزیراعظم مودی اور وزیرِ داخلہ امت شاہ کا کہنا ہے کہ آرٹیکل 370 کو ہٹانے کا مقصد جموں اور کشمیر میں علیحدگی پسندی کو ختم کرنا ہے۔ یہ بیان غیر مخلص ہے۔

علامتی اقدام

یہ خود مختاری تو ویسے ہی 1950 کی دہائی کے وسط سے لے کر 1960 کی دہائی کے وسط تک کیے گئے متعدد اقدامات کے ذریعے زیادہ تر ختم کر دی گئی تھی۔

1960 کی دہائی کے بعد آرٹیکل 370 کا جو حصہ رہ گیا تھا وہ زیادہ تر علامتی نوعیت کا تھا، ریاستی جھنڈا، ریاستی آئین جو کہ کاغذ کے ایک ٹکرے سے زیادہ کچھ نہیں تھا اور ایک فوجداری نظام جو کہ جموں اور کشمیر کی 1947 سے قبل کی ریاست چھوڑ گئی تھی۔

آرٹیکل 35 اے جس کے تحت ریاست کے باہر سے آنے والوں کے زمین خریدنے پر پابندی تھی اور ریاست کے رہائیشیوں کو نوکریوں میں ترجیح دی جاتی تھی۔ مگر یہ شقیں صرف کشمیر میں تو نہیں۔

متعدد انڈین ریاستوں میں جن میں ہماچل پردیش، اتارکھنڈ اور پنجاب شامل ہیں، میں ایسے قوانین ہیں جو ریاست کے مستقل رہائشیوں کو تحفظ فراہم کرتے ہیں۔

A security personnel stands guard on a street during a lockdown in Srinagar on August 11, 2019, after the Indian government stripped Jammu and Kashmir of its autonomy

1990 کی دہائی میں جس علیحدگی پسندی نے زور پکڑا اس کی اصل وجہ تو 1950 اور 1960 کی دہائیوں میں ختم کی گئی خودمختاری تھی اور ان قوانین کے اطلاق کا انداز تھا، یعنی ریاست میں کٹ پتلی حکومتوں کا لایا جانا اور ریاست کو خوفناک قوانین کے ساتھ ایک پولیس ریاست میں تبدیل کر دینا تھا۔

جموں اور کشمیر کا ریاست کا درجہ ختم کر کے اور اس کے ٹکرے کر کے بی جے پی کی حکومت نے اس سے کہیں زیادہ کر دیا ہے۔ اور یہ ایک ایسا کام ہے جس کی 1947 کے بعد انڈیا میں کوئی مثال نہیں ملتی۔

انڈین وفاق ریاستوں (29 جو کہ اب 28 ہو جائیں گے) سے مل کر بنتا ہے جن کو کسی حد تک خودمختاری حاصل ہے۔ انڈیا کے سات یونین علاقے ہیں جو اب نو ہو جائیں گے اور ان کے پاس وہ درجہ اور اختیارات نہیں جو ریاستوں کے پاس ہیں۔

تقطیب

شاید جموں اور کشمیر کا مزید بٹوارا پلان کا حصہ ہوں جیسا کہ آر آر ایس اور وی ایچ پی 2002 میں چاہتی تھیں۔ مگر اس سے ہندو اور مسلم علاقوں میں مزید تقطیب ہو جائے گی۔

ادھر شیعہ مسلمان جو کہ مغربی لداخ کے کارگل سیکٹر میں رہتے ہیں وہ لداخ کے یونین علاقے میں شمولیت پر ناراض ہیں۔ ادھر لح کی بدھ آبادی اور جموں کی ہندو آبادی بھی ناراض ہے کیونکہ ان کے آرٹیکل 35 اے والے حقوق چلے گئے۔

وزیراعظم مودی نے خطے کے لوگوں کو ترقی والے بہترین مستقبل کا وعدہ کیا ہے۔ انھوں نے جموں و کمشیر میں جلد الیکشن کرنے کا بھی کہا ہے (لداخ میں قانون ساز اسمبلی نہیں ہوگی)۔

ایسے کوئی بھی انتخابات کا وادی کے مسلمان اور جموں کے مسلمان بائیکاٹ کریں گے جس سے یونین علاقے کی ایک کمزور سی حکومت بنے گی جس کی قیادت بی جے پی کرے گی۔

اس حکومت کے جموں و کشمیر کے حوالے سے اقدامات ماضی کی انڈین حکومتوں کے آمرانہ اور وفاقی طاقت والے رویے سے دو پہلوؤں میں مختلف ہے۔

پہلا تو یہ کہ وفاقی حکومتوں نے ہمیشہ کسی کو ساتھ ملایا ہے، کشمیر کی وادی کی اشرافیہ میں سے چن کر۔ مودی اور امت شاہ نے ان کا تو پتہ ہی کاٹ دیا ہے اور وہ راستہ اختیار کیا ہے جس میں طاقت ساری وفاق کے پاس ہو۔

دوسرا یہ کہ 1950 کی دہائی سے کشمیر میں کیے گئے مظالم کا یہ کہہ کر جواز پیش کیا جاتا تھا کہ جموں و کمشیر کی مسلم اکثریتی ریاست کو ملک میں رکھنا انڈیا کے سیکیولر ہونے کے دعوے کے لیے بہت اہم ہے۔ امت شاہ اور نریندر مودی دونوں ہی ہندو قوم پرست ہیں اور انھیں اس جواز کی ضرورت ہی نہیں۔

انقلابی اقدام

اپنے اقدام کی انقلابی نوعیت کے حوالے سے شاید انھوں نے اپنی طاقت سے بڑھ کر کام کا ذمہ لے لیا ہے۔

یہ کشمیر کا جوا شاید بی جے پی کے لیے اکتوبر میں کچھ انڈین ریاستوں میں ہونے والے انتخابات میں تو کام آئے اور شاید اس سے انڈیا کی اقتصادی مشکلات سے بھی توجہ ہٹ جائے۔ مگر اس اقدام کی انقلابی نوعیت نے ہی مسئلہِ کمشیر میں وہ جان پھونک دی ہے جو کہ مستقبل میں دونوں کے لیے مشکلات کا باعث بن سکتی ہے۔

بہت سے جمہوری ممالک میں ایسے خطے ہوتے ہیں جہاں علیحدگی پسند پائی جاتی ہے، برطانیہ میں سکاٹ لینڈ، کینیڈا میں کیوبک، سپین میں کاتالونیا۔

مگر جو بی جے پی نے کیا ہے وہ ایسا ہی ہے جو 1989 میں سربیا کے ملوسوچ نے کوسوو میں کیا، کہ یکطرفہ طور ہر کوسوو کی خودمختاری ختم کر دی اور اس کی البینیائی اکثریت پر ایک پولیس ریاست مسلط کر دیۓ

بی جے پی حکومت کی کشمیر کے حوالے سے نظر ملوسووچ کی کوسوو کے حوالے سے نیت سے زیادہ آگے جاتی ہے اور وہ ہے ان کو محکوم بنانا۔

ہندو قوم پرست حکومت بظاہر چاہتی ہے کہ باغی مسلمان ایک ایسی انڈین قومی شناخت اپنائیں جو کہ ان کی تحریک کی بنائی ہو۔ یہ ایسے ہی ہے جیسے چین اویغور مسلمانوں کے ساتھ کر رہا ہے۔

مگر ہندو قوم پرستوں کو پتا ہے کہ انڈیا ایک آمرانہ ایک پارٹی کی ریاست نہیں ہے۔ یہ بات پریشان کن ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32295 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp