اسلام آباد میں پلاسٹک کے تھیلوں پر پابندی: امیدیں، خدشات اور ممکنہ حل


پلاسٹک بلاشبہ ہماری زندگیوں میں انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ ہمارے روز مرّہ استعمال کی کئی چیزیں بشمول ہمارے موبائل فون، ہمارے لیپ ٹاپ، اور یہاں تک کہ ہماری انٹرنیٹ ٹیکنالوجی تک وجود نہ رکھتی اگر پلاسٹک نہ ہوتا تو۔

مگر جہاں یہی پلاسٹک ہماری زندگیاں آسان بناتا ہے، تو وہیں اس سے ماحول بھی آلودگی کا شکار ہوتا ہے اور جنگلی و سمندری حیات کو نقصان پہنچتا ہے۔

اگرچہ پاکستان میں ماضی میں بھی پلاسٹک پر پانچ دفعہ پابندی کا اطلاق ہوچکا ہے لیکن ہر کچھ عرصے بعد پابندی لگانے والے اور پابندی کرنے والے پابندی کرنا بھول جاتے ہیں۔

لیکن اب حکومت ایک مرتبہ پھر یہ عزم کیے ہوئے ہے کہ اب کی بار تو پلاسٹک سے چھٹکارہ حاصل کر کے ہی رہا جائے گا۔

بھلے ہی یہ اقدام ابھی صرف اسلام آباد تک محدود ہے مگر اس کی کامیابی ملک کے دیگر علاقوں میں ایسے ہی پروگرامز کے لیے بلیو پرنٹ ثابت ہوسکتی ہے۔

وفاقی حکومت 14 اگست کے بعد اسلام آباد میں پلاسٹک پر پابندی عائد کر رہی ہے۔ اس پابندی کے حوالے سے وزیراعظم کے مشیر برائے موسمیاتی تبدیلی ملک امین اسلم بتاتے ہیں کہ:

‘سنہ 1990 میں پاکستان میں ایک کروڑ پلاسٹک بیگ بنتے تھے اور آج 55 ارب پلاسٹک بیگ بنتے ہیں۔ اور یہ 55 ارب پلاسٹک بیگ پھر ہر شہر میں آپ کا استقبال کرتے ہیں۔ یہ گندگی کا ایک بہت بڑا مسئلہ بن چکا ہے اور اس سے چھٹکارا حاصل کرنا بہت ضروری ہے۔’

ملک امین اسلم

وزیراعظم کے مشیر برائے موسمیاتی تبدیلی ملک امین اسلم کہتے ہیں کہ بھاری جرمانوں کی وجہ لوگوں کو پلاسٹک کے استعمال کی عادت سے ہٹانا ہے

ایسی کسی بھی مہم کی کامیابی کا انحصار دیگر عوامل کے ساتھ ساتھ اس بات پر بھی ہے کہ آیا عوام خود کو اس تصور سے ہم آہنگ کر بھی پاتے ہیں یا نہیں۔

ملک امین اسلم اس حوالے سے بتاتے ہیں کہ: ‘ہماری تین مراحل پر مشتمل میڈیا آگاہی کی مہم چل رہی ہے۔ پہلے مرحلے میں عوام کو یہ بتانا ہے کہ یہ پابندی کیوں عائد کی گئی ہے۔ دوسرے مرحلے میں یہ بتانا ہے کہ یہ پلاسٹک کے حوالے سے پابندی کا قانون جو اب بن چکا ہے وہ کیا ہے۔ اور تیسرے مرحلے میں بتائیں گے کہ اس قانون کی خلاف ورزی کرنے والوں پر کیا جرمانے لاگو ہوں گے۔’

سننے میں تو یہ منصوبہ بہت زبردست لگتا ہے اور ایسا لگتا ہے کہ بس تھوڑی سی تگ و دو کے ساتھ یہ کامیابی سے ہمکنار ہوجائے گا، مگر زمینی حقائق کچھ اور ہی کہانی سناتے نظر آتے ہیں۔

ہم نے اس حوالے سے اسلام آباد کے مقامی لوگوں سے بات کی تو انھوں نے حکومت کی اس کاوش کو خوش آئند قرار دیا لیکن ساتھ ہی یہ شکوہ بھی کیا کہ اس کا متبادل کیا ہوگا؟

اگرچہ حکومت پاکستان کی طرف سے ایک نجی کمپنی ‘گایا’ کے بنائے گئے ریسائیکل ہونے کے قابل تھیلے مارکیٹ میں لوگوں کو نمونے کے طور پر دیے گئے ہیں، لیکن اس میں بھی مشکلات کا سامنا ہے۔

اس حوالے سے ہم نے پلاسٹک بیچنے والے ایک ڈیلر سے بات کی تو انھوں نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ ان کے پاس کچھ سرکاری لوگ آئے تھے جنھوں نے انھیں یہ تھیلے دیے ہیں کہ اب یہ استعمال کیے جائیں اور یہ کہ دکاندار ان تھیلوں کی مشہوری کریں۔

‘مسئلہ یہ ہے کہ ہمارے پاس ہر طرح کے پلاسٹک بیگ ہیں، کچرے کے الگ، روزمرہ کے استعمال کے الگ۔ اب میرے پاس ہوٹل کے کئی لوگ آتے ہیں جنھوں نے چٹنی اور رائتے جیسی چیزیں چھوٹے پلاسٹک بیگ میں دینی ہوتی ہیں۔ اب جن لوگوں نے ہمیں یہ ریسائیکل کے قابل تھیلے دیے، ان سے ہم نے پوچھا کہ آیا اس میں مختلف سائز بھی ہوں گے؟ اور یہ ہمیں کتنی تعداد میں ملیں گے جو کہ مارکیٹ کی ضرورت پوری کریں؟ اس حوالے سے ان کو بھی کچھ نہیں پتا۔ اب ہمیں بھی پریشانی ہے کہ آخر کریں تو کیا کریں؟”

پلاسٹک

ایک نجی کمپنی گایا کے بنائے گئے تھیلے جنھیں حکومت کی جانب سے پلاسٹک کے متبادل کے طور پر تجویز کیا جا رہا ہے

پلاسٹک سے جان چھڑانے کا فیصلہ جہاں خوش آئند ہے وہیں پر اس کاروبار سے جڑے لوگوں کی نوکریوں اور کارخانے داروں کے مالی نقصان کا بھی خدشہ ہے۔

اس پابندی کے نتیجے میں پلاسٹک بنانے والوں، بیچنے والوں اور خریدنے والوں پر بھاری جرمانے بھی عائد کیے جائیں گے۔ اس حوالے سے مشیر برائے موسمیاتی تبدیلی ملک امین اسلم کا کہنا تھا اس نئے قانون کے تحت حکومت نے پلاسٹک خریدنے والے پر پانچ ہزار روپے، 10 سے 50 ہزار روپے بیچنے والے پر، اور ایک لاکھ سے پانچ لاکھ روپے تک کا جرمانہ پلاسٹک بنانے والوں پر رکھا گیا ہے۔

‘ان بھاری جرمانوں کی وجہ لوگوں کو پلاسٹک کے استعمال کی عادت سے ہٹانا ہے۔ اس کے علاوہ سینیٹ کی قائمہ کمیٹی کی ایک میٹنگ میں ایک کمیٹی بنائی گئی ہے جو کہ سائنسی بنیادوں پر اس کا مطالعہ کرے گی کہ کیسے کسی پلاسٹک کے شاپر بنانے کے کارخانے کو بہتر میٹیریل کا پلاسٹک بیگ بنانے والے کارخانے میں تبدیل کیا جا سکتا ہے۔

‘اس حوالے سے دوسرا مسئلہ یہ تھا کہ اگر ہم کارخانوں کو شفٹ کر رہے ہیں اس ٹیکنالوجی کی طرف جو کہ بہتر بیگ بنا کر دے سکے تو اس کے لیے سرمایہ کاری درکار ہوگی جس کا ہم انتظام کرنے کی کوشش کریں گے۔’

پلاسٹک

دکانداروں کو خدشہ ہے کہ مختلف سائزوں میں دستیاب پلاسٹک کی تھیلیوں کا کیا متبادل ہوگا؟

ملک امین اسلم سے جب یہ پوچھا گیا کہ آیا ہر طرح کے پلاسٹک پر پابندی عائد ہو رہی ہے؟ اور آیا یہ پابندی صرف اسلام آباد کی حد تک ہے یا ملک کے باقی شہروں میں بھی اس کا اطلاق ہوگا، تو ان کا کہنا تھا کہ کچھ اقسام کے پلاسٹک کے استعمال کی اجازت ہے۔

‘ہم نے اس قانون میں ایک شق ایسی بھی رکھی ہے کہ ایسا پلاسٹک جو کہ میڈیکل ویسٹ میں یا پیکجنگ میں استعمال ہوتا ہے اس کے استعمال کی اجازت دی ہے لیکن وہ بھی ایکسٹنڈڈ پروڈیوسر ریسپانسبلٹی کے شرط کے ساتھ، یعنی پلاسٹک پیدا کرنے والے پر ذمہ داری عائد کرنے کا ضابطہ۔

‘اس میں یہ ہوتا ہے کہ اگر آپ پلاسٹک ایک ہسپتال کو بیچ رہے ہیں تو یہ آپ کی ذمہ داری ہوگی کہ اپنے پاس ایک لاگ بک رکھیں۔ اس پلاسٹک کے اوپر آپ کی کمپنی کا لوگو ہونا چاہیے اور یہ آپ کا کام ہے کہ اس کو اکٹھا کرکے ری سائیکل کریں۔

ان کا کہنا تھا کہ ابھی یہ قانون صرف اسلام آباد کی حد تک ہے، مگر خیبر پختونخوا میں بھی اس طرح کی قانون سازی ہوچکی ہے، پنجاب والے بھی تیاری کر رہے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ان کی معلومات کے مطابق سندھ اور بلوچستان نے بھی اس میں دلچسپی ظاہر کی ہے۔

انجینیئر بابر عباس

ماحولیاتی انجینیئر بابر عباس کہتے ہیں کہ صرف ایک مرتبہ استعمال ہونے والے پلاسٹک کا استعمال جرم ہے اور اس سے چھٹکارہ حاصل کرنا ضروری ہے

ماحولیاتی انجینئر بابر عباس جو یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی ٹیکسلا کے ڈیپارٹمنٹ آف انوائرمینٹل انجینئرنگ میں بطور سینیئر لیکچرار خدمات انجام دے رہے ہیں، کہتے ہیں کہ صرف ایک مرتبہ استعمال ہو سکنے والے پلاسٹک کا استعمال جرم ہے اور اس سے چھٹکارہ حاصل کرنا ضروری ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ پلاسٹک کے متبادل کے طور پر ری سائیکل کے قابل پلاسٹک کا استعمال کرنا چاہیے اور اگر کارخانے دار صرف اپنا خام مال تبدیل کرکے ماحول میں تحلیل ہوجانے والے (بائیو ڈی گریڈ ایبل) اور ری سائیکل کے قابل پلاسٹک بنائیں تو نہ کارخانے بند ہوں گے نہ کوئی بے روزگار ہوگا اور ہمارا ماحول بھی محفوظ رہے گا۔`


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32289 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp