پومپے: قدیم روم کے شہر کے کھنڈرات سے ملنے والا ’خزانہ‘ کتنا قیمتی ہے؟
آتش فشاں کی زد میں آنے والے قدیم روم کے شہر پومپے کے کھنڈرات پر کام کرنے والے ماہرین آثارِ قدیمہ کا کہنا ہے کہ انھیں کھدائی کے دوران ‘جادوئی نوادرات کا ایک خزانہ’ ملا ہے جس میں آئینے اور شیشے کے موتیوں کی مالا اور تعویز گنڈا جیسی اشیا شامل ہیں۔
پومپے کی ڈائریکٹر آثار قدیمہ ماسیمو اوسانا کا کہنا ہے کہ دریافت ہونے والے نوادرات میں زیادہ تر اشیا خواتین کے استعمال کی ہیں۔ جس مکان کی کھدائی کر کے یہ خزانہ حاصل کیا گیا ہے اس کے ایک کمرے سے دس افراد کی نعشیں بھی ملی ہیں جن میں خواتین اور بچے بھی شامل ہیں۔
پومپے کا شہر سنہ 79 میں ویسوویئس پہاڑ کے آتش فشاں مادے کی زد میں آ گیا تھا۔
یہ بھی پڑھیے
بحیرۂ روم کے خطے کی خوراک صحت کے لیے اچھی ہے؟
کیا سکندر کی محبوبہ انھیں ڈبونے پر تل گئی تھیں؟
زعفران: یونان کا ’سرخ سونا‘ تصاویر میں
اس مہلک حادثے نے فوراً ہی شہر اور اس کے مکینوں کو منجمد کر دیا۔ آتش فشاں کے نتیجے میں تباہ ہونے والا یہ شہر اب ماہرین آثار قدیمہ کو مطالعے کے بیش بہا مواقع فراہم کرتا ہے۔
یہ ’خزانہ‘ کھنڈرات کی کھدائی کے دوران ایک لکڑی کے صندوق سے ملا۔ اتنا عرصہ گزرنے کے بعد اس صندوق کی لکڑی تو گل سڑ چکی تھی، البتہ اس پر لگا تانبہ محفوظ تھا جسے آتش فشاں مادے نے سخت کر دیا۔
اس میں متعدد ہیرے اور جواہرات، قیمتی پتھر، جیولری اور دھات کے برتن شامل ہیں۔ مشرق وسطیٰ سے آنے والے ’سکیراب‘ تعویذ کی نشاندہی کی گئی۔
آثار قدیمہ کے ڈائریکٹر اوسانا کے مطابق زیادہ امکان ہے کہ یہ سامان گھر کے مالک کے بجائے ان کے کسی نوکر یا غلام کا ہو، چونکہ صندوق سے ملنے والے نوادرات میں سے کوئی بھی سونے کا نہیں ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ اس طرح ہمیں پومپے کی روزمرہ زندگی اور خواتین کے استعمال کی معمولی اشیا کے بارے میں پتا لگتا ہے۔ کیونکہ وہ شہر کے باشندوں کی ایسی کہانیاں سناتے ہیں، جس میں پتا چلتا ہے کہ کیسے انھوں نے اس تباہی سے بچنے کی کوشش کی تھی۔
آثار قدیمہ کے ماہرین اب ڈی این اے کی مدد سے اُس مکان سے ملنے والی لاشوں کے آپس میں رشتے کا سراغ لگانے کی کوشش میں ہیں۔
اوسانا کے خیال میں شاید ان قیمتی خزانوں کا تعلق ان متاثرین میں سے ہی کسی ایک سے تھا۔ اس بات کے زیادہ امکانات ہیں کہ صندوق سے ملنے والی یہ اشیا بناؤ سنگھار کے بجائے مصیبت سے چھٹکارا حاصل کرنے کے لیے تعویز گنڈے (خیر و برکت) کے لیے پہنی جاتی ہونگی۔
ماہرین آثار قدیمہ کا کہنا ہے کہ یہ مکان کسی اہم شخصیت کی ملکیت تھا۔ اس بات کا اندازہ گھر سے ملنے والے خزانے کے قیمتی نوادرات کو دیکھ کر ہو جاتا ہے۔
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).