کشمیر ایک بار پھر دوراہے پر


بھارتی آئین کے آرٹیکل 370 اور 35 اے میں ترمیم اور مقبوضہ جموں و کشمیر کو دوحصوں میں تقسیم کرکے مرکزی حکومت کے تابع کرنے کے اقدام نے صرف کشمیریوں کو زبردست اشتعال میں ہی مبتلانہیں کیا بلکہ بھارت اور پاکستان کے مابین کشیدگی میں بھی غیر معمولی اضافہ کردیا ہے۔ کشمیر کے عوام گزشتہ چھ دنوں سات دنوں سے مکمل لاک ڈاؤن اور محاصرے میں زندگی بسر کرنے پر مجبور ہیں۔ بیرونی دنیا تک انہیں ر سائی نہیں حتی کہ مقامی اخبارات تک نہیں چھپ پارہے۔

پانچ سو سے زائد سیاسی کارکن حراست میں ہیں۔ کوئی نہیں جانتا کہ کرفیو ختم ہونے کے بعد عوامی ردعمل کیا ہوگا؟ کشمیری عوام اپنی انفرادیت، ثقافت، زبان اور ریاست کے مسلم تشخص کے بارے میں ہمیشہ سے بہت حساس رہے ہیں۔ 35 اے کا خاتمہ خاص طور پر کشمیریوں کے لیے ناقابل قبول ہے۔ اس قانون کے خاتمے سے قبل بھارتی شہری کشمیر میں زمین خریدنے، اسکالرشپ حاصل کرنے یا سرکاری ملازمت کے حقدار نہیں تھے۔ یہاں تک کہ وہ خواتین جنہوں نے بیرونی لوگوں سے شادی کی، ان کے بچے بھی جموں و کشمیر میں جائیداد کی ملکیت کے حقدار نہیں تھے۔

مقامی معاملات میں قانون سازی بھی کشمیر اسمبلی کرتی تھی اور بھارتی حکومت اپنے قوانین کی جموں وکشمیر تک توسیع کے لیے مقامی اسمبلی کی منظوری کی محتاج تھی۔ ترمیم شدہ قانون نے بھارتی شہریوں کے لئے اراضی کی خریداری اور مقبوضہ کشمیر کی شہریت حاصل کرنے کا راستہ کھول دیاہے۔ اس اقدام کو خطے کی آبادیاتی تشکیل کو بگاڑنے کا ایک منصوبہ سمجھا جاتا ہے۔ واشنگٹن پوسٹ نے ایک بھارتی صحافی رانا ایوب کے حوالے سے بڑا بر محل تبصرہ کیا ”کشمیر اب فلسطین کا ویسٹ بینک ہے“ یہ حقیقت اب پوری طرح آشکار ہوچکی ہے کہ حکمران بھارتیہ جنتا پارٹی کا حتمی مقصد جموں وکشمیر کے مسلم اکثریتی کردار کو تبدیل کرنا اور سری نگر کے اقتدار پر قبضہ کرنا ہے۔

ریاستی قانون ساز اسمبلی کے 2014 ء کے الیکشن میں بی جے پی نے 87 میں سے 25 سیٹیں حاصل کیں۔ یاد رہے کہ اسی پارٹی نے 2008 ء کے انتخابات میں محض 11 سیٹیں حاصل کیں۔ وزیر اعظم مودی نے خود کشمیر کے اہم مقامات کا دورہ کیا اور بڑے پیمانے پر انتخابی مہم چلائی۔ حالیہ تقسیم اور منسوخی کے اقدام کو اسی تناظر میں دیکھا جا رہا ہے۔ کشمیر کی موجودہ صورتحال مسئلہ کشمیر کو واپس عالمی منظرنامہ پر لاچکی ہے۔ اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل اور یو این ایچ آر سی کے کمشنر نے دہلی کے حالیہ اقدام پر نہ صرف تنقید کی بلکہ مسئلہ کشمیر کے مستقل حل کے سلسلے میں انتہائی اہم نکات اٹھائے۔

سکریٹری جنرل نے کہا کہ کشمیر پر اقوام متحدہ کی پوزیشن اس کے چارٹر اور سلامتی کونسل کی قراردادوں کے مطابق ہے۔ سکریٹری جنرل نے شملہ معاہدہ کی اس شق کو بھی دہرایا جودونوں ممالک کو تنازعہ کشمیر کے پرامن اور حتمی حل کی پابند کرتی ہے۔ یہ بات ذہن میں رہے کہ گزشتہ تیرہ ماہ میں اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے انسانی حقوق نے دو بار بھارت اور پاکستان کی حکومتوں پر زوردیا کہ وہ ”بین الاقوامی قانون کے تحت کشمیر کے عوام کے حق خودارادیت کا مکمل احترام کریں“۔

نہ صرف چین، ترکی، ملائشیا اور او آئی سی نے اس اقدام کی مذمت کی بلکہ بین الاقوامی کمیشن آف جیوریسٹ (آئی سی جے ) نے بھی بھارتی اقدامات پر سخت تنقید کی اور دہلی سے مطالبہ کیا کہ وہ اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے انسانی حقوق کی سفارشات پر عمل درآمد کرے۔ کشمیر کے بارے میں بھارتی پارلیمنٹ میں ہونے والی بحث میں حکمران بی جے پی کے عہدے داران کا لب ولہجہ ناگوار اور دھمکی آمیز تھا۔ بھارت کے وزیر داخلہ امیت شاہ نے کہا : بھارت آزادکشمیر کو واپس لینے کی کوشش کرے گا اور وہ خون کا آخری قطرہ تک بہانے کے لیے تیار ہیں بلکہ چین کے زیرانتظام اکسائی چن کے حصول کے لیے بھی لڑے گی۔

بھارتی پارلیمنٹ میں ہونے والا بحث و مباحثے اس بات کی عکاسی کرتا ہے کہ بنیاد پرستوں نے پورے ملک کو گھیر رکھا ہے۔ سیکولر، لبرل، جمہوری اور جامع قوم کے نظریہ کو لگ بھگ دفن کردیا گیا ہے۔ پاکستان نے مقبوضہ جموں وکشمیر میں آبادی کا تناسب بگاڑنے کی دانستہ کوششوں اور کشمیریوں کے حقوق کے لیے سیاسی اور سفارتی مہم تیز تر کرنے کا سلسلہ شروع کررکھا ہے۔ عالمی رائے عامہ کی حمایت حاصل کرنے کی مسلسل کو شش کی جارہی ہے۔

وزیر اعظم عمران خان نے برسر اقتدار کے بعد بھارت کو مذاکرات کی میز پر لانے کی بھرپور کوشش کی۔ یہاں تک کہ پلوامہ حملے کے بعد کے آخری وقت میں بھی، انہوں نے دونوں ممالک کے مابین تعلقات کو پٹڑی پر ڈالنے کی کوشش کی۔ ثالثی کے لیے امریکہ کے صدر سے درخواست کی۔ حالانکہ امریکہ بھارت کا قریبی اسٹریٹجک اتحادی ہے اور ثالثی کی پیش کش سے خطے میں پاکستان کے مفاد کو نقصان پہنچنے کا اندیشہ تھا۔ سکھوں یاتریوں کے لیے کرتار پور کا مقدس مقام کھولنے کا اعلان بھی دونوں ممالک کے مابین جمی برف نہیں پگھلا سکا۔

اب سفارتی اور تجارتی تعلقات کی خرابی کا دور شروع ہوچکا ہے۔ جیسے جیسے وقت گزرتا جارہا ہے۔ اندیشہ ہے کہ دونوں ریاستوں کے مابین تعلقات مزید خراب ہوسکتے ہیں کیونکہ پاکستان مسئلہ کشمیر کے حل کے لئے بین الاقوامی حمایت حاصل کرنے کی مہم شروع کرچکا ہے جو بھارت کو قبول نہیں۔ دوسری جانب مقبوضہ کشمیر کے اندر بڑے پیمانے پر مظاہروں اور احتجاج کے امکانات پائے جاتے ہیں اور جواب میں فوجی کارروائی کے باعث صورتحال مزید ابتر ہو سکتی ہے۔

کشمیریوں کے جانی اور مالی نقصان کو کم سے کم کرانے کی ہر ممکن کوشش ترجیح ہونی چاہیے۔ بھارتی فوج کے سربراہ کے بیانات بہت ہی تشویش ناک ہیں۔ وہ فوجی سربراہ کم اور تھانے دار زیادہ لگتے ہیں۔ موجودہ صورت حال سے باہر نکلنے کا ایک ہی راستہ ہے کہ امریکہ دونوں ممالک کی مددکو آئے اور کشیدگی کم کرانے کی سنجیدہ کوشش کرے اور ایک بامقصد بات چیت کا آغاز کرانے کے لیے ایک اہم کردار ادا کرے، جس میں کشمیر یوں کے نمائندے بھی شامل ہوں۔
بشکریہ روزنامہ 92۔

ارشاد محمود

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ارشاد محمود

ارشاد محمود کشمیر سے تعلق رکھنے والے ایک سینئیر کالم نویس ہیں جو کہ اردو اور انگریزی زبان میں ملک کے موقر روزناموں کے لئے لکھتے ہیں۔ ان سے مندرجہ ذیل ایمیل پر رابطہ کیا جا سکتا ہے ershad.mahmud@gmail.com

irshad-mehmood has 178 posts and counting.See all posts by irshad-mehmood