چار عقل مند افراد


وین بل کھاتے ہوئے پہاڑی راستوں پر چکراتی ہوئی اپنی منزل کی طرف رواں دواں تھی، وین میں چار افراد سوار تھے، ڈرائیور نے انہیں وادی کے صدر دفتر سے وصول کیا تھا اور اُسے ہدایت کی گئی تھی کہ انہیں پہاڑ کے دامن میں واقع عمارت میں پہنچا دے، بہت کم لوگوں کو معلوم تھا کہ یہ عمارت محکمہ انصاف و قانون کے دفتر کے طور پر استعمال ہوتی ہے۔ یہ پہلا موقع تھا کہ ڈرائیور کو کہا گیا تھا کہ اس مرتبہ اُس کے ساتھ چار افراد بھی جائیں گے، اس سے پہلے وہ ہمیشہ اکیلا ہی عمارت تک ضرورت کا سامان پہنچا کر واپس آ جایا کرتا تھا۔

جو چار لوگ وین میں موجود تھے اُن کا شمار شہر کے دانا اور عقل مند لوگوں میں ہوتا تھا مگران کے گلے میں جو شناختی کارڈ لٹکے ہوئے تھے اُن پرناموں کی جگہ حروف تہجی درج تھے۔ الف ان سب میں جہاندیدہ لگ رہا تھا، اس کے چہرے پر گہری سنجیدگی تھی، اس کی شخصیت کے رعب داب کو دیکھ کر لگ رہا تھا جیسے وہ اِس چھوٹے سے گروپ کا سربراہ ہو۔ ب نسبتاً کم عمر تھا، چالیس کے پیٹے میں ہوگا، البتہ آنکھوں پر سیاہ فریم کا چشمہ لگاکر وہ اپنی عمر سے کچھ بڑا لگتا تھا، جیم ایک خاتون تھی، عمر پچاس کے لگ بھگ، مگر اس کے رکھ رکھاؤ سے لگتا تھا جیسے اس کی شادی نہیں ہوئی، د ایک نوجوان تھا، بظاہر غیر سنجیدہ اور کھلنڈرا مگر اُس کی آنکھوں سے ذہانت ٹپکتی تھی۔

یہ چاروں شہر کے حکمران کی دعوت پر محکمہ انصاف کے دفتر میں مدعو تھے جہاں انہیں شہر کے لیے نئے قوانین مرتب کر نے تھے۔ اصولاً تو محکمہ انصاف کے دفتر کو شہر کی مرکزی شاہراہ پر ہونا چاہیے تھا مگر نہ جانے کیا سوچ کر سرکار نے اِس کے لیے اُس عمارت کا انتخاب کیا جو شہر سے باہر پہاڑ کی چوٹی پر واقع تھی۔ عمارت کیا تھی ایک پرانا قلعہ تھا جو کافی عرصے تک ویران رہا تھا۔ پھر شہری انتظامیہ میں سے کسی کو خیال آیا کہ کیوں نہ اسے سرکاری مقاصد کے لیے استعمال کیا جائے، بلدیہ کے اجلاس میں کافی بحث کے بعد یہ فیصلہ کیا گیا کہ اس عمارت میں شہر کے محکمہ قانون و انصاف کا دفتر قائم کر دیا جائے۔

کچھ ارکان نے اِس تجویز کی یہ کہہ کر مخالفت کی کہ یہاں تک پہنچنے میں لوگوں کو دقت ہو گی مگر اِس رائے کو اِس بنا پر رد کر دیا گیا کہ محکمہ انصاف تک ہر خاص و عام کی رسائی ویسے بھی نامناسب ہے، اس محکمے کے افسرا ن کو الگ تھلگ رہ کر خاموشی اور غیر جانبدار ی سے اپنا کام کرنا چاہیے۔ عمارت چونکہ کافی بڑی تھی سو یہ بھی طے پایا کہ افسران کی رہائش کا بندوبست بھی اسی کے اندر کر دیا جائے۔ اس انتظام کو اب کئی سال ہو گئے تھے، مہینے میں ایک مرتبہ وادی سے اس عمارت تک راشن اور ضرورت کی اشیا پہنچا دی جاتیں تاکہ عمارت کے مکینوں کو کوئی دقت نہ ہو، اس کام کے لیے ایک سرکاری وین مختص تھی۔

ہر ماہ کی پہلی تاریخ کو یہ وین وادی میں واقع صدر دفتر سے نکلتی اور چڑھائی چڑھتی ہوئی عمارت تک پہنچ جاتی، وہاں کا ایک ملازم خاموشی سے وین کے ڈرائیورسے اشیا کے پیکٹ وصول کرتا اور رسید دے کر ڈرائیور کو واپس بھیج دیتا۔ کئی برسوں سے اس معمول میں کوئی تبدیلی نہیں آئی تھی، ڈرائیور اور ملازم نے آپس میں کبھی کوئی غیر ضروری بات نہیں کی تھی، یوں لگتا تھا جیسے ملازم کو وادی کے حالات سے کوئی غرض ہی نہیں، ادھر ڈرائیور کو بھی عمارت کے مکینوں میں کوئی دلچسپی نہیں تھی حالانکہ وادی کے لوگوں میں سے شاید وہ واحد شخص تھا جس کی اس قلعے نما عمارت تک رسائی تھی۔ وادی میں رہنے والوں کے لیے کسی زمانے میں یہ عمارت پراسرار رہی ہوگی مگر اب انہیں اس میں کوئی دلچسپی نہیں تھی، شہر کی آبادی کافی بڑھ چکی تھی اور وادی میں انواع و اقسام کی تفریحات موجود تھیں، ایسے میں ایک دور افتادہ عمارت، جہاں پہنچنا قریباً نا ممکن تھا، ان کے لیے کوئی خاص کشش نہیں رکھتی تھی۔

وادی سے پہاڑ کی چوٹی تک پہنچنے میں انہیں تین گھنٹے لگے، ڈرائیور انہیں وہاں چھوڑ کر فوراً واپس چلا گیا، عمارت کے مرکزی دروازے پر محکمہ انصاف کے سربراہ نے ان چاروں مہمانوں کا استقبال کیا، کچھ دیر تک یہ لوگ آپس میں رسمی گفتگو کرتے رہے، پھر یہ طے پایا کہ بغیر وقت ضائع کیے اس کام کا آغاز کیا جائے جس کے لیے شہر کے حکمران نے ان داناؤں کو منتخب کیا تھا۔ اِن چاروں کو اندازہ تھا کہ اِن کے ذمے شہر کے لیے ایک مثالی نظام انصاف کا ڈھانچہ تیار کرکے قوانین کا ایسا مجموعہ مرتبہ کرنا ہے جس میں ہر کسی کو مساوی حقوق حاصل ہوں اور کسی کے ساتھ نا انصافی ممکن نہ ہو سکے۔

یہ کام آسان نہیں تھا۔ تاہم شہر کے حکمران نے انہیں یقین دلایا تھا کہ انصاف پر مبنی وہ جو بھی نظام تجویز کریں گے اس کو من و عن نافذ کیا جائے گا۔ محکمہ انصاف کا سربرا ہ ان چاروں کو کمرے میں چھوڑ کریہ کہہ کر رخصت ہو گیا کہ اب انہیں اسی وقت واپس بھیجا جائے گا جب وہ اپنا کام مکمل کر لیں گے۔ الف نے گلا کھنکار کر گفتگو کا سلسلہ شروع کیا۔ :

”میرا خیال ہے کہ آپ سب لوگ قانون و انصاف کے شعبوں کے ماہر ہیں، بے شک مختصر وقت میں یہ کام مکمل کرنا ممکن نہیں مگر ہم اتنا ضرور کر سکتے ہیں کہ قوانین کا پورا سیٹ مرتب کرنے کی بجائے کچھ بنیادی اصول طے کر دیں تاکہ محکمہ انصاف ہر قانون کو ان اصولوں پر پرکھ کر قوانین تشکیل دے سکے۔“

جیم۔ : ”میری رائے میں یہ ایک بہت مناسب بات ہے، میں اتفاق کر تی ہوں۔“
ب: ”کیا آپ ان اصولوں کی وضاحت کریں گے جو آپ کے ذہن میں ہیں؟“
د: ”ذرا ٹھہریے۔ کیا یہ بہتر نہیں ہوگا کہ ہم پہلے کسی خاص قانون کی پڑتال کر لیں تاکہ یہ اصول مرتب کرنے میں آسانی ہو سکے؟“

الف: ”ہاں یہ اچھی تجویز ہے۔ چلیے دہشت گردی کے قوانین سے شروعات کرتے ہیں، ان کے تحت پولیس شورش زدہ علاقوں میں ایک رسمی تنبیہ کے بعد ان افراد پر گولیاں چلا سکتی ہے، چاہے اس سے موت ہی کیوں نہ واقع ہو جائے، جو امن و امان کو نقصان پہنچا رہے ہوں۔

د: ”تو اس قانون میں کیا خرابی ہے؟ شورش زدہ علاقوں میں دہشت گردوں پر گولیاں ہی چلائی جاتی ہیں، ان میں مٹھائی تقسیم نہیں کی جاتی!“ ج نے تمسخرانہ لہجے میں کہا۔
الف: ”تم نے درست کہا برخوردار مگر کیا تم پسند کرو گے کہ یہ قانون تم پر بھی ایسے ہی استعمال کیا جائے جیسا کہ لکھا ہے؟“
د: ”کیا مطلب؟“ (اس مرتبہ د کا لہجہ تیکھا تھا) ۔

الف۔ : ”مطلب صاف ہے۔ اگر شورش زدہ علاقے میں پولیس تمہیں دہشت گرد سمجھ کر گولی چلا دے جس سے تمہاری زندگی ختم ہو جانے کا اندیشہ پیدا ہو جائے تو کیا اُس صورت میں بھی تم پولیس کو یہ اختیار دینا چاہو گے؟“

ب: ”آپ کہنا کیا چاہ رہے ہیں۔ کوئی د کو دہشت گرد سمجھ کر گولی کیوں چلائے گا۔ یہ قانون تو صرف دہشت گردوں کے لیے ہے!“
الف : ”یہی اصول طے کر نے کے لیے تو ہم یہاں جمع ہوئے ہیں۔ دراصل ہم سب ایک بہت بڑی غلط فہمی کا شکار ہیں!

د: ”کس قسم کی غلط فہمی؟“ (د کا لہجہ اب بھی اکھڑا ہوا تھا) ۔
الف: ”بتاتا ہوں (مسکراتے ہوئے سامنے پڑی ہوئی فائل کھولتا ہے ) جب تک ہم اس غلط فہمی سے باہر نہیں نکلیں گے، اس وقت تک کوئی قانون نہیں بنا سکیں گے۔“
کمرے میں چند لمحوں کے لیے خاموشی چھا جاتی ہے۔ (جاری ہے ) ۔
ہم سب کے لئے خصوصی طور پر ارسال کردہ تحریر۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

یاسر پیرزادہ

Yasir Pirzada's columns are published at Daily Jang and HumSub Twitter: @YasirPirzada

yasir-pirzada has 495 posts and counting.See all posts by yasir-pirzada