سیکولرازم مذہب بیزاری کا نام ہے…ڈاکٹر غزالہ قاضی صاحبہ کے جواب میں


جس طرح پاکستان میں لفظ ”سیکولرازم“ کے بارے میں بہت سی غلط فہمیاں جاتی ہیں یا پیدا کی گئی ہیں، اسلام کو بحیثیت ایک دین جاننے یا سمجھنے میں بھی اسی طرح کوتاہی برتی گئی۔ سیکولرازم کی تنقیص یا تنقید پر مقامی طور پر جو لکھا یا کہا جاتا ہے وہ مقامی لوگ جو سیکولرازم کے حامی ہیں ان کے عمومی معاشرتی رویوں سے کشید کیا جاتا ہے۔ اسی طرح مذہب پر تنقید کرنے والے یہاں کے مذہبی لوگوں کے عمومی رویوں کو مدنظر رکھتے ہوئے اسلام سے متعلق غلط فہمیاں پالے ہوئے ہیں۔

سیکولرازم اور اسلام کو بہتر طور پر سمجھنے کے لیے دونوں کی بنیادی تعلیمات اور انسانیت پر ان کے اثرات کا جائزہ لینا ضروری ہے۔ سیکولرازم نا صرف اسلامی دنیا میں بلکہ عالمی منظر نامے پر ابھی تک ایک مبہم نظریے کے طور پر جانا جاتا ہے۔ ابھی تک سوشل سائینٹسٹ اس بات کا تعین نہی کرسکے کہ سیکولرازم مذہبی آزادی کا نام ہے یا مذہب سے بیزاری کا۔

Merriam۔ webster ڈکشنری کے مطابق مذہب سے بیزار، لاتعلقی یا قطع تعلقی کا نام سیکولرازم ہے۔

سیکولر فلسفی آغاز ہی سے اس مخمصے کا شکار رہے ہیں۔ Atheistic سیکولرازم اور لبرل سیکولرازم اس کی واضح مثالیں ہیں۔ وقت کے ساتھ ساتھ ہیومنسٹ سیکولرازم اور pseudo سیکولرازم کے فالوورز بھی سامنے آئے۔

لفظ سیکولرازم سب سے پہلے 1851 عیسوی میں ایک برطانوی پروفیسر جارج جیکب ہولیکی نے استعمال کیا۔ لیکن یہ نظریہ تاریخی طور پر مختلف ادوار میں مختلف شکلوں میں موجود رہا ہے۔ جارج کے مطابق ”سیکولرازم کسی طور عیسائیت کے خلاف نہی، بس اس سے الگ ہے۔ “

ایک تعریف کے مطابق

”سیکولرازم ایک ایسا نظام حکومت ہے جس میں لوگوں کے سیاسی فیصلوں پر مذہب کا عمل دخل نہ ہو“ لیکن امریکہ میں سیکولرازم کو کچھ اس طرح سے لیا جاتا ہے کہ ”ایسا نظام حکومت جو لوگوں کو آزادی فراہم کرے کہ وہ اپنے اپنے مذاہب کی آزادی سے پیروی کرسکیں۔ “

لبرل سیکولرازم کی بات کی جائے تو یہ قریب قریب انہی تعلیمات / شرائط کو اپنے تئیں پیش کرتا ہے جو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ کے قبائل کے ساتھ میثاق مدینہ میں طے کی تھی۔ میثاق مدینہ کو سمجھ لیا جائے تو لبرل سیکولرازم اسلام کی ایک سیاسی شاخ کے طور پر نظر آئے۔ یہی وہ نقطہ ہے جسے سمجھنے اور جاننے کی ضرورت ہے۔ اس کے لئے اسلام کی تعلیمات اور ان اصلاحات کا مطالعہ ضروری ہے جو رحمت اللعالمین نے نہ صرف متعارف کروائیں بلکہ ان پر عمل کرکے دکھایا۔

اسلام کی آمد کے زمانہ میں جزیرہ ہائے عرب میں مختلف قبائل آباد تھے جو مختلف مذاہب کے پیروکار تھے۔ اکثریت البتہ مکہ اور گردو نواح میں مشرکین کی، جو بہت سارے بتوں کی پوجا کیا کرتے تھے، اور یثرب اور اس کے نواح میں یہودیوں کی تھی۔ مکہ سے اسلام کا آغاز ہوا لیکن پہلی اسلامی ریاست 622 عیسوی میں یثرب ایک نئے نام مدینہ کے ساتھ قائم ہوئی۔ ریاست کے قیام کے ساتھ ہی اس بات کی ضرورت پیش آئی کہ مختف قبائل اور ادیان کے ماننے والوں کے مابین بقائے باہمی کے لئے کوئی ضابطہ طے ہوجانا چاہیے۔ میثاق مدینہ ریاست اور اس کی اکائیوں کے مابین اصول و ضوابط اور حقوق و فرائض کا تعین کرتا ہے۔ اس کے وہ مندرجات جو مختلف مذاہب کے لئے ہیں :

1۔ تمام گروہ اللہ کی امان میں ہیں۔

2۔ فریقین کو مساوی سیاسی، ثقافتی، اور معاشرتی حقوق حاصل ہوں گے۔ اپنے مذاہب کی پیروی کے لئے سب کو برابر آزادی حاصل ہوگی۔

3۔ ریاست کے تحفط کے لئے تمام گروہ مل کر جنگ کریں گے۔ معاملات میں کسی قسم کی دھوکہ دہی نہ کی جائے گی۔

4۔ غیر مسلموں پر کوئی قدغن نہیں کہ وہ مسلمانوں کی مذہبی جنگ میں حصہ لیں۔

یہ معاہدہ ریاست کا شہریوں کے ساتھ برتاؤ اور تعلق کی ایک بہترین معاہدہ ہے۔ کسی قسم کا امتیاز رنگ و نسل اور مذہب کی بنیاد پر نظر نہیں آتا۔

جبل سینا کی خانقاہ مقدسہ کے عیسائیوں کے لیے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی توثیق سے آشتی نامہ دنیا کی تاریخ کی بے مثال تحریر ہے جسے book of peace بھی کہا جاتا ہے۔ اس کے مندرجات کا خلاصہ یہ ہے کہ نصرانیوں کے گرجا گھروں کو اور ان کے مذہبی رہنماؤں کو ہر قسم کے حالات میں تحفظ دینا مسلمانوں کی ذمہ داری ہے۔ اسلامی ریاست میں انہیں مکمل مذہبی آزادی حاصل ہوگی۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے عیسائی وفد کو مسجد نبوی میں ٹھہرایا اور اس بات کی بھی اجازت دی کہ وہ مسجد کے ایک حصے میں ہی اپنی عبادات سرانجام دے سکتے ہیں۔ لبرل سیکولر ازم کے ماننے والے کسی بھی مذہب سے اس بات کا تقاضا کر رہے ہیں تو اسلام بحیثیت دین و مذہب پہلے سے یہ اصول مقرر کرچکا ہے۔ سیکولرازم اس حد تک اسلام سے مماثلت رکھتا ہے۔

اسلام نے شہریوں کے حقوق کیسے متعین کیے اس کے لیے مختلف طبقات کے اسلام میں حقوق پر نظر ڈالتے ہیں۔ مسلمانوں کی لکھی بات پر اعتراض ہو سکتا ہے کہ جانبدار ہیں اس کے لئے غیر مسلموں کی تحقیق بیان کرنا ہی کافی رہے گا۔

ایک مغربی محقق Lewis کے مطابق

”Islam from the first، denounced aristocratic privilege، rejected hierarchy، and adopted a formula of the career open to talents۔ “

ایک اور سوشیالوجسٹ john Esposito کے مطابق

” Muhammad as reformer condemned practices of the pagan Arabs such as female infanticide، exploitation of poor، usury، murder، false contracts، fornication، adultery، and theft۔

بطور ایک مصلح محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) نے مشرکین عرب کی قبیح رسومات جیسے کہ معصوم لڑکیوں کا قتل، کمزوروں کے استحصال، رشوت، سود، قتل، بے حیائی و بے ہودگی، اور چوری کی مذمت و ممانعت کی۔

william Montgomery watt کہتا ہے کہ

”محمد معاشرتی و اخلاقی اقدار کا مبلغ تھا۔ اس نے ایک محفوظ معاشرت اور خاندانی نظام کا ایسا طریقہ وضع کیا جس نے معیار زندگی کو یکسر بدل کے رکھدیا۔ اخلاقیات کی ان نئی اقدار نے سماجی تعلقات اور مذہبی رواداری کو نئی جہتوں سے روشناس کروایا۔ “

valentine Moghadam ایک فیمینسٹ سکالر اور ایکٹیوسٹ ہے جس نے مارکس ازم کے تحت پسماندہ ممالک کی خواتین کے تحفظ کے لئے کام کیا ہے، لکھتی ہیں کہ

” مارکس ازم میں خواتین کے تحفظ کی بات صنعتی انقلاب اور سیاسی شعور کے تحت اٹھنے والی تحریکوں اور سیاسی مقاصد کے حصول کے لئے دیا گیا ہے۔ جبکہ اسلام نے معاشرتی و مذہبی بنیادوں پر خواتین کے حقوق متعین کیے۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2