جب دلی میں کشمیر کی ویڈیوز و تصاویر نہ دکھانے دیں!


دلی کے پریس کلب آف انڈیا کا کمرہ درجنوں کیمروں، صحافیوں اور انسانی حقوق کے کارکنان سے بھرا ہوا تھا۔ یہ تمام لوگ وادی کشمیر میں پانچ دن گزار کر واپس لوٹنے والے ایکانومسٹ زیاں دریز، نیشنل ایلائنز آف پیپلز موومنٹ کے ویمل بھائی، سی پی آئی ایم ایل پارٹی کی کویتا کرشنن اور ایپوا کی میمونا ملاہ کو سننے کے لیے آئے تھے۔

جموں کشمیر سے آرٹیکل 370 کو ہٹانے کے فیصلے کے بعد سرینگر، سوپور، باندی پورا، پمپور، شوپیان اور اننتناگ میں 9 سے 13 اگست تک رہ کر واپس لوٹے ان افراد نے وہاں کی صورت حال کے بارے میں تصاویر اور ویڈیوز دکھانے کا وعدہ کیا تھا۔

لیکن پریس کانفرنس شروع ہونے سے پہلے انہوں نے اچانک بتایا کہ اب وہ یہ سب نہیں دیکھا سکیں گے۔ کویتا کرشنن نے کہا کہ ’پریس کلب آف انڈیا‘ نے ہم سے کہا کہ ہم یہ سب کچھ دکھانے کے لیے پروجیکٹر کا استعمال نہیں کر سکتے ہیں کیوں کہ ان پر بہت دباؤ ہے۔

حالانکہ کہ جب میں نے پریس کلب آف انڈیا کی ایک ترجمان سے بات کی تو انہوں نے ان الزامات کو مسترد کر دیا اور کہا کہ ان کی جانب سے تصاویر اور ویڈیوز دکھانے پر کوئی پابندی نہیں تھی۔

تاہم میمونا ملاہ نے کہا کہ ’پریس کلب نے صاف طور پر کوئی وجہ نہیں بتائی لیکن کہا کہ ان پر کچھ پابندیاں ہیں اس لیے یہاں کچھ نہیں دکھایا جا سکتا۔‘

پریس کانفرنس کے بعد وہی تصاویر اور ویڈیوز صحافیوں کو ای میل کے ذریعے بھیجی گئیں۔

میڈیا سینسرشپ کے بارے میں زیاں دریز نے کہا کہ میڈیا پر اس وقت اس بات کا بہت دباؤ ہے کہ کشمیر کے بارے میں کون سی خبریں دکھائی جائیں۔

دریز نے کہا کہ ’مقامی کشمیری میڈیا کام نہیں کر پا رہی ہے۔ ان پر دباؤ تو ہے ہی، خبریں اکٹھی کرنے کے راستے بھی نہیں ہیں۔ قومی سطح پر کام کرنے والا میڈیا غیر جانبدار طریقے سے کام نہیں کر رہا ہے۔ صرف نیو یارک ٹائمز، رائٹرز اور بی بی سی جیسے بین الاقوامی اداروں میں کام کرنے والے انڈین شہری کشمیر میں جگہ جگہ جا کر خبریں اکٹھی کر رہے ہیں اور انہیں شائع کر رہے ہیں۔‘

کویتا کرشنن نے جو تصویر شیئر کی ہے اس میں دیکھا جا سکتا ہے کہ مقامی اخبار کے چند صفحے صرف شادیوں کے منسوخ ہونے کے اشتہارات سے بھرے ہوئے ہیں۔

میمونا نے یہ بھی بتایا کہ اخباروں کے پاس شائع کرنے کے لیے کاغذ اور نیوز پرنٹ ختم ہو رہے ہیں اور انہین دلی سے منگوانے کے ذرائع نہیں ہیں۔

یہ بھی پڑھیے

عمران خان: ’ہم مودی کو اینٹ کا جواب پتھر سے دیں گے‘

کشمیر کا مسئلہ کیا ہے؟

کشمیر مانگو گے۔۔۔

تشدد کا دعوہ

میڈیا کے ساتھ شیئر کی جانے والی تصاویر میں پیلیٹ گن سے بری طرح متاثر ایک شخص کی تصویر بھی ہے۔

زیاں دریز نے کہا کہ ’ہم سری نگر کے ایک ہسپتال میں ایسے دو افراد سے ملے، لیکن ہم جانتے ہیں کہ سورہ میں 10 اگست کو بڑا احتجاج ہوا جس میں لوگ زخمی بھی ہوئے، لیکن ہمیں وہاں جانے نہیں دیا گیا۔

ان کے مطابق بڑے سیاست دانوں کے علاوہ سیاسی کارکن، شہری حقوق کے کارکن، وکلا، کاروباری شخصیات اور ایسے تمام افراد جو حکومت کے خلاف آواز بلند کر رہے ہیں یا لوگوں کو متاثر کر سکتے ہیں، انہیں حراست میں لے لیا گیا ہے۔

سول حقوق کے ان کارکنان نے بتایا کہ ان حراستوں کی تعداد، انہیں کن قوانین کے تحط حراست میں لیا گیا اور کہاں رکھا گیا، اس بارے میں انہیں کوئی اطلاعات نہیں تھیں۔

ان کا دعویٰ تھا کہ سرینگر اور اس کے باہر کے شہروں اور گاؤں میں لوگوں میں بہت دہشت ہے اور لوگ شناخت چھپانے کی شرط پر ہی بات کر رہے ہیں۔

جموں کشمیر پولیس نے آج سرینگر میں صحافیوں سے بات کرتے ہوئے اس بات کا اقرار کیا کہ گزشتہ دنوں میں چند افراد پیلیٹ گن سے زخمی ہوئے ہیں۔ علاج کے بعد انہیں گھر جانے دیا گیا۔

یہ بھی پڑھیے

کیا آرٹیکل 370 کا خاتمہ چیلنج کیا جا سکتا ہے؟

انڈین میڈیا میں جشن لیکن کشمیری کہاں ہیں؟

سرینگر سمیت متعدد علاقوں میں دفع 144 عائد ہے جو کسی بھی مقام پر چار سے زیادہ افراد کے جمع ہونے پر پابندی کے بارے میں ہے۔

میمونا ملاہ کے بقول باضابطہ طور پر کرفیو نہ ہونے کے باوجود ان علاقوں میں کرفیو جیسا ہی ماحول ہے۔

انہوں نے کہا کہ ’ہم لوگوں کے لیے جگہ جگہ جانا بہت مشکل تھا کیوں کہ ہر جگہ ہم سے کرفیو پاس مانگا جاتا تھا۔ لیکن کیوں کہ باضابطہ طور پر کرفیو نہیں تھا اس لیے ایسا کوئی پاس جاری ہی نہیں کیا گیا تھا۔ نتیجے میں کٹیلی تاروں اور بیریکیڈز کو پار نہیں کیا جا سکتا تھا۔‘

اپنی رپورٹ میں انہوں نے بتایا کہ عید کے دن بھی کوئی خاص ڈھیل نہیں دی گئی تھی۔ مقامی افراد نے شکایت کی کہ انہیں عید کی نماز اپنے گھر کے آس پاس ہی پڑھنی پڑی، حالانکہ عید کی نماز عام طور پر لوگ جامع مسجد پڑھنے جاتے ہیں۔

یہ ٹیم لداخ اور جموں علاقوں میں نہیں گئی۔ لیکن وادی کشمیر میں آرٹیکل 370 ہٹائے جانے پر لوگوں میں خوشی ہونے کے دعوں کو انہوں نے غلط بتایا۔

کویتا کرشنن نے بتایا کہ وہ لوگ سیکڑوں افراد سے ملے جن میں سے صرف ایک شخص نے اس فیصلے پر خوشی کا اظہار کیا اور وہ شخص بی جے پی کا ترجمان تھا۔

ان کا دعویٰ تھا کہ لوگوں سے بات چیت میں چند الفاظ بار بار سنائی دیے، ’بربادی، بندوق، زیادتی، قبرستان اور ظلم‘!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32296 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp