کیا آپ تکونی رشتوں سے واقف ہیں؟


جب ہم انسانی نفسیات کی بیسویں صدی کی تاریخ کا مطالعہ کرتے ہیں تو ہمیں اندازہ ہوتا ہے کہ مختلف دانشوروں نے انسانی نفسیات کی تفہیم کے لیے مختلف نقطہ ہائے نطر پیش کیے۔ میں چند نظریے آپ کی خدمت میں پیش کرتا ہوں۔

یورپ کے دانشور سگمنڈ فرائڈ کا خیال تھا کہ انسان کے نفسیاتی مسائل ’جن میں اینزائٹی اور ڈیپریشن بھی شامل ہیں‘ اس کے داخلی مسئلے ہیں جو اس کے شعور اور لاشعور کے تضادات سے پیدا ہوتے ہیں۔

فرائڈ کے مقابلے میں امریکہ کے دانشور ہیری سٹاک سالیوان کا موقف تھا کہ انسان کا نفسیاتی مسئلہ دو انسانوں کے تضاد سے بھی پیدا ہو سکتا ہے۔ جب ایک انسان دوسرے انسان کا احترام نہیں کرتا۔ اس سے عزت سے پیش نہیں آتا۔ اس سے تعصب کا سلوک کرتا ہے تو ایسے اعمال سے نفسیاتی مسئلہ پیدا ہوتا ہے۔

ان دو دانشوروں کے مقابلے میں امریکی دانشور MURRAY BOWEN نے انسانی نفسیات اور نفسیاتی مسائل کا تیسرا نظریہ پیش کیا۔ بوون کا کہنا تھا کہ انسانی رشتوں کی بنیادی اکائی دو انسان نہیں تین انسان ہیں۔ انسان بنیادی طور پر تکونی رشتے تخلیق کرتا ہے۔

بوون کا کہنا تھا کہ جب دو انسانوں کے درمیان کوئی اختلاف یا تضاد پیدا ہوتا ہے تو وہ شخص جو ذہنی طور پر زیادہ پریشان ہوتا ہے وہ مدد حاصل کرنے کے لیے ایک تیسرے شخص سے رجوع کرتا ہے اور اسے اپنا مسئلہ بیان کرتا ہے اور ہمدردی کا خواستگار ہوتا ہے۔ وہ تیسرا شخص ایک دوست بھی ہو سکتا ہے ایک رشتہ دار بھی۔ ایک استاد بھی اور ایک تھیریپسٹ بھی۔ اگر وہ تیسرا شخص ایک دانا انسان ہے تو وہ اس دکھی انسان کا مسئلہ سنتا ہے اس کی حوصلہ افزائی کرتا ہے اور اسے مشورہ دیتا ہے کہ وہ واپس جا کر پہلے انسان سے اپنے مسئلے کو حل کرے۔

میرے کلینک میں جب کوئی شوہر یا بیوی اپنا مسئلہ لے کر آتا ہے تو میں اپنے کلینک میں اس کے شریکِ حیات کو بھی بلاتا ہوں اور ان دونوں کی مدد کرتا ہوں تا کہ وہ اپنے مسائل مل کر خوش اسلوبی سے طے کریں۔ میں کسی ایک کی طرفداری نہیں کرتا تا کہ دونوں یہ جانیں کہ میں دونوں کی مدد کر رہا ہوں۔ میں میاں بیوی کو گرین زون فلسفے کے وہ راز اور طریقے سکھاتا ہوں جن سے وہ اپنے مسائل خود حل کر سکیں۔

بوون کا کہنا تھا کہ اگر تیسرا شخص دانا نہیں ہے تو وہ مسئلے کو حل کرنے کی بجائے خود مسئلے کا حصہ بن جاتا ہے اس طرح وہ دو انسانوں کے مسئلے میں TRIANGULATE ہو جاتا ہے۔ اس سے مسئلہ بہتر ہونے کی بجائے بدتر ہو جاتا ہے۔ آپ سب جانتے ہیں کہ ازدواجی مسائل میں بعض رشتہ دار کس طرح مسئلے کو سنوارنے کی بجائے اور بگاڑ دیتے ہیں۔ وہ مسیحائی کا دعوہ کرتے ہیں لیکن تباہی پھیلا دیتے ہیں کیونکہ وہ ناتجربہ کار اور بے وقوف دوست ہوتے ہیں۔

Murray Bowen

بوون نے ہمیں بتایا کہ تیسرے شخص کا کردار بہت اہم ہے کیونکہ وہ دو انسانوں کے رشتے کو مضبوط بھی بنا سکتا ہے اور کمزور بھی کر سکتا ہے۔ بوون کا مشاہدہ تھا کہ بعض میاں بیوی جب اپنے نفسیاتی مسائل حل نہیں کر سکتے تو وہ اپنے کسی بچے کے بارے میں جھگڑنے لگتے ہیں اور لاشعوری طور پر اس بچے کو ٹرائنگولیٹ کر لیتے ہیں۔ جو بچہ اس تکون کا حصہ بنتا ہے وہ جلد یا بدیر خود بھی نفسیاتی مسائل کا شکار ہو جاتا ہے۔

بوون نے اپنے نظریے کو ثابت کرنے کے لیے بیس ایسے خاندانوں کا علاج کیا جن میں بچے نفسیاتی مسائل کا شکار تھے۔ بوون نے صرف ماں باپ کے ساتھ تھیریپی کے سیشن کیے۔ وہ بچوں سے کبھی نہ ملے اور پندرہ سے بیس تھیریپی کے سیشن کے بعد بچے ٹھیک ہونے لگے۔ ایسے بچے صحتیاب ہو گئے جن سے بوون کبھی ملے بھی نہ تھے۔

بوون کی تحقیق کا ایک اور دلچسپ پہلو ہے جو نفسیاتی ہے اخلاقی نہیں۔ بوون نے ہمیں بتایا کہ جب میاں بیوی ایک دوسرے سے لڑنے جھگڑنے لگتے ہیں تو بعض دفعہ اگر موقع ملے تو ان میں سے ایک کوئی نیا محبوب تلاش کر لیتا ہے اور اسے اپنا حالِ دل سنانے لگتا ہے۔ بوون کا کہنا تھا کہ یہ عمل اخلاقی طور پر معیوب سہی لیکن وہ affair شادی کو عارضی طور پر سہارا دے سکتا ہے۔ ایک دن جب راز فاش ہوجاتا ہے اور افیر ختم ہوتا ہے تو چند ماہ بعد شادی کا رشتہ بھی ختم ہو جاتا ہے۔

بوون کی نفسیاتی تحقیق اور نظریے نے بہت سی ایسی نفسیاتی الجھنوں کو سلجھایا جنہیں باقی ماہرینِ نفسیات نہ سلجھا سکے۔

بوون کا موقف تھا کہ نفسیاتی مسائل پورے خاندانی نظام کے مسائل ہوتے ہیں صرف ایک شخص کے نہیں۔ بوون نے اپنی تحقیق کے لیے ورجینیا امریکہ میں پندرہ گھر کرایے پر لیے تھے اور ان گھروں میں پندرہ خاندانوں کو چھ ہفتے رکھا تھا اور ان کی نفسیاتی تحقیق کی تھی۔ اس تحقیق سے کئی باتیں ثابت ہوئیں جن مں سے ایک یہ تھی کہ والدین کے نفسیاتی مسائل سے کس طرح بچے متاثر ہوتے ہیں۔ بوون ایک شخص کے علاج کی بجائے پورے خاندان کا نفسیاتی علاج کرتے تھے۔

میں بوون کے نظریات سے اتنا متاثر ہوا کہ میں ان کے سیمینار میں شامل ہونے کے لیے ورجینیا گیا۔ بوون کی شخصیت میں تحمل تھا برد باری تھی عاجزی تھی اور منکسرالمزاجی تھی۔ وہ ایک دانا شخص تھے۔ انہیں مشہور ہونے کا شوق نہ تھا۔ بد قسمتی سے انہیں فرائڈ ’یونگ اور ایڈلر کی طرح وہ شہرت نہ ملی جس کے وہ مستحق تھا۔

میری نگاہ میں مرے بوون نے انسانی نفسیات کے علم میں گراں قدر اضافے کیے ہں۔ میں ایک نفسیات کے طالب علم ہونے کے ناتے ان کا تہہِ دل سے احترام کرتا ہوں۔ ان کی کتابیں انسانی نفسیات کا ایک نادر تحفہ ہیں۔

ڈاکٹر خالد سہیل

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ڈاکٹر خالد سہیل

ڈاکٹر خالد سہیل ایک ماہر نفسیات ہیں۔ وہ کینیڈا میں مقیم ہیں۔ ان کے مضمون میں کسی مریض کا کیس بیان کرنے سے پہلے نام تبدیل کیا جاتا ہے، اور مریض سے تحریری اجازت لی جاتی ہے۔

dr-khalid-sohail has 683 posts and counting.See all posts by dr-khalid-sohail