جونؔ ایلیا کے رفیق خاص خالد احمد انصاری سے ایک یادگار ملاقات


خالد احمد انصاری 1991 سے 2002 تک اردو کے مقبول عام شاعر جونؔ ایلیا کے خاص حلقہ احباب میں شامل رہے۔ جونؔ ایلیا کی وفات کے بعد ان کے بکھرے ہوئے کلام اور تحریروں کو جمع کرکے چار شعری مجموعوں ”گمان“، ”لیکن“، ”گویا“ اور ”راموز“ اور نثری مجموعہ ”فرنود“ کی شکل میں خالد احمد انصاری ہی نے شائع کروایا۔ ڈیڑھ سال قبل جنوری 2018 ہمارا کراچی جانا ہوا تو ان سے ملاقات ہوئی۔ ایک گھنٹے کی اس ملاقات میں جونؔ کے فن اور ان کی شخصیت کے حوالے سے ان سے گفتگو ہوئی۔ جونؔ کے حوالے سے بہت سی باتیں زیر بحث آئیں۔ میں نے بہت سے اہم نکات نوٹ کر لیے تھے مگر انہیں شایع کرنے کی نوبت نہ آئی۔ اب اس امید کے ساتھ یہ تحریر قارئین کی نذر کر رہا ہوں کہ یہ جونؔ کی شخصیت اور ان کے فن کی تفہیم میں معاون ہو گی۔

ابو الحسین آزاد: جون کے متعلق یہ مشہور ہے کہ وہ ایک دہریہ تھے۔ ان کی شاعری میں بھی اس طرح کے بہت سے اشارات ملتے ہیں۔ کیا اس بات سے اتفاق کرتے ہیں؟

خالد احمد انصاری: جون بھائی اکثر ہم سے کہا کرتے تھے کہ جتنی خدا کے نہ ہونے کی دلیلیں ہیں اس سے دگنی دلیلیں اس کے ہونے کی ہیں۔ انھوں نے مجھ سے ایک مثال بیان کی کہ آپ ایک باغ میں جائیں اور آپ کا خیال یہ ہو کہ آپ سے پہلے یہاں سے کوئی بنی آدم نہیں گزرا۔ پھر آپ اس باغ میں چلتے جائیں اور آگے جا کر آپ کو ایک ٹھیک ٹھاک چلتی ہوئی راڈو گھڑی نظر آئے، تو کیا اب بھی آپ یہ خیال کر سکتے ہیں کہ یہاں سے آپ سے پہلے کوئی بھی بنی آدم نہیں گزرا؟

نہیں! یقینا نہیں کر سکتے۔ وہ کہا کرتے تھے کہ جب ایک راڈو گھڑی کو دیکھ کر ہم اس کے بنانے والے کا اور اس کے مالک انکار نہیں کرسکتے تو پھر اتنی بڑی کائنات اور اس کے مظاہر کو دیکھ کر ہم خدا کا انکار کس طرح کرسکتے ہیں۔ وہ تو کہا کرتے تھے کہ خدا کا انکار کرنے والا تو کوئی احمق ہی ہو سکتا ہے۔ ہاں یہ بات ضرور ہے کہ وہ فلسفے کے آدمی تھے اور فلسفہ شک دروازہ کھولتا ہے۔ آدمی کسی ایک بات کو حتمی اور یقینی کہنے کے قابل نہیں رہتا۔ فلسفہ ہے ہی یہی کہ آپ کسی نتیجے پر نہ پہنچ سکیں۔ ایک دائمی شک اور تردد فلسفے کی اصل بنیاد ہے۔

ابو الحسین آزاد: جونؔ کی شخصیت سے زیادہ متاثر ہوئے یا ان کے فن سے؟

خالد احمد انصاری: جونؔ کی شخصیت اور ان کا فن دونوں ایک ہی چیز ہیں۔ جیسا جون کافن ہے ویسی ہی ان کی شخصیت بھی تھی۔

ابوالحسین آزاد: جون کی شاعری میں مایوسی کا پیغام ملتا ہے۔ وہ کہتے ہیں :

اب تو جس طور بھی گزر جائے
کوئی اصرار زندگی سے نہیں

حالانکہ شاعر کو تو امید کی بات کرنی چاہیے۔

خالد احمد انصاری: دیکھیں ہر شخص کا ایک فلسفہ حیات ہوتا ہے۔ جس کے تحت وہ زندگی بسر کرتا ہے۔ جونؔ بھائی کی زندگی کی بنیادی فلاسفی یہ ہے کہ میں را ئگاں چلا گیا۔ میں ضائع ہوگیا۔ اب جب آپ کو یقین ہو جائے کہ میں مکمل طور پر ضائع ہو چکا ہوں تو اب کیا کسی کو امید کی راہ دکھائیں گے؟ میں پہلے بھی عرض کر چکا ہوں کہ اصل بات یہ ہے کہ بے چینی اور اضطراب فلسفے کا اصل سرمایہ ہے آپ جونؔ کی کتابوں کے نام دیکھ لیں ”شاید“ یہ لفظ ہم اس وقت استعمال کرتے ہیں جب بات یقینی نہ ہو۔

ہو سکتا ایسا ہو، سکتا ہے ایسا نہ ہو۔ ”یعنی“ وضاحت کے لیے آتا ہے۔ یعنی جو بات کی گئی ہے وہ ایک اور معنی کا احتمال بھی رکھتی ہے یعنی اس کا مطلب یہ بھی ہو سکتا ہے۔ ( میری ناقص رائے میں یہاں یہ کہنا مناسب تھا کہ ”یعنی“ کا لفظ یہ بتا رہا ہے کہ میری گفتگو ابھی وضاحت اور مزید تشریح کی محتاج ہے۔ (ابو الحسین آزاد) ”لیکن“ یہ بھی اسی طرح کا لفظ ہے کہ میں جو بات کر رہا ہوں ہوسکتا ہے وہ درست ہو لیکن معاملے کا ایک دوسرا رخ بھی ہے۔

ابوالحسین آزاد: جونؔ بھائی کی شاعری کی بنیادی خصوصیت کیا ہے ان کا امتیازی وصف کیا ہے؟

خالد احمد انصاری: کوئی بھی شخص جب مقبول عام ہو جاتا ہے اسی وجہ سے ہوتا ہے کہ وہ باقی لوگوں سے ہٹ کر ایک نئے انداز میں اپنی بات کو پیش کرتا ہے۔ جون بھائی کا سب سے بڑا کمال یہ ہے کہ انھوں نے ایسے ڈکشن کے ساتھ اپنی بات پیش کی ہے۔ ایسے منفرد انداز سے پیش کی ہے کہ کوئی بھی شخص ان کی تقلید نہیں کر سکتا۔ بلکہ ہے بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ یہ چیز انسان کے اختیار میں ہوتی ہی نھیں۔ یہ ایک خدائی عطیہ ہے جوہر ایک کو نہیں ملتا۔

جون کی شاعری میں منافقت نہیں ہے۔ دیکھیں نا وہ کہتے ہیں :
کیا تکلف بھلا یہ کہنے میں
جو بھی خوش ہے ہم اس سے جلتے ہیں

اب حقیقت تو یہی ہے کہ ہم کسی کو خوش ہوتا دیکھ کر جلتے ہیں ہے کہ یہ چیز اس کے پاس کیوں ہے؟ میرے پاس کیوں نہیں؟ ہاں البتھ اظہار نہیں کرتے۔ جون نے منافقت کا پردہ چاک کر کے اظہار بھی کر دیا یے۔

ابوالحسین آزاد :جون کے تمام نظریات سے اتفاق کرتے ہیں؟

خالد احمد انصاری :مزا آتا تھا ان کی باتیں سن کر۔ سوچ کی نئی راہیں کھولتے تھے۔ ایک چیز سیدھی ہے تو جونؔ الٹا کر کے اس کی دوسری جانب ہمیں دکھاتے تھے۔ اگرآپ زندگی کو اس کے دوسرے رخ سے دیکھنا چاہتے ہیں تو جون کو پڑھیں۔

ابوالحسین آزاد: ”کیوں“ اور ”یادگار جون ایلیا“ کو شائع کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں؟

” کیوں“ عنقریب آجائے گی۔ البتہ ”یادگار جون ایلیا“ پر کچھ وقت لگے گا۔ اس میں میرا ارادہ یہ ہے کہ جون کے متعلق لکھے گئے مضامین کو اکٹھا کروں اور خود بھی جو ان کی رفاقت میں میں نے طویل وقت گزارا اس حوالے سے کچھ لکھوں۔

ابوالحسین آزاد: اور شعراء اور ادیبوں کو بھی پڑھا؟

جی ہاں! مگر جب سے جون کو پڑھا ھے اب اور کسی کا کلام مزہ نہیں دیتا۔ ان کے علاوہ اب کچھ اور سمجھ ہی نہیں آتا۔

ابوالحسین آزاد: خود بھی شعر گوئی اور نثر نگاری کا کچھ ذوق رکھتے ہیں؟

خالد احمد انصاری: جی نہیں! جونؔ کے شعری مجموعوں کے تعارفی دیباچوں کے علاوہ میں نے اور کچھ نہیں لکھا۔ نہ ہی میں کوئی شاعر یا ادیب ہوں۔

ابوالحسین آزاد: جون کی کتابوں کو شائع کرنے کا خیال کیسے آیا؟

خالد احمد انصاری: ہم ایک زمانے سے جون بھائی کو سنتے چلے آرہے تھے۔ ہمیں پتہ تھا کہ ان کا کس نوعیت کا کلام شائع کیا جانا چاہیے۔ کیا چیز کس معیار کی ہے۔ میں ان کے کلام کی پوری پوری بیاضیں تیار کر رکھی تھیں۔ کوئی نفع وغیرہ تو مقصود تھا نہیں، بس ان کے ورثاء سے اجازت لے کر اور انہیں کے اولاد کے نام حقوق محفوظ کروا کے ان کی کتابوں کو شائع کروا دیا۔ میں نے خود ان کی کتابوں پر کوئی رائلٹی وغیرہ نہیں لی۔

ابوالحسین آزاد: جون بھائی کی مقبولیت اور پذیرائی کس حد تک پہنچی ہوئی ہے؟

خالد احمد انصاری: ہمیں کبھی خیال بھی نہیں آیا تھا کہ جون بھائی اتنے زیادہ مقبول ہو جائیں گے کہ لوگ ہمارے پاس ان کے متعلق انٹرویو لینے آئیں گے۔ اب تو وہ ہماری نوجوان نسل کے مقبول ترین شاعر بن چکے ہیں۔ میں آپ کو ایک دلچسپ بات بتاتا چلوں کہ انڈیا کے سکہ جنہیں پوری طرح سے اردو بھی نہیں آتی وہ یوٹیوب سے جونؔ کا کلام سن سن کر ان کے عاشق بنے ہوئے ہیں اور مجھے فون کرکے جوؔن کو یاد کرتے ہیں اور روتے ہیں۔ افغانستان سے پٹھانوں تک کے فون آتے ہیں۔ اب آپ خود اندازہ کر لیں جون کی مقبولیت کس حد تک پہنچی ہوئی ہے اور یہ مقبولیت کسی بیساکھی کے سہارے نہیں لی گئی کہ مثلا وہ شیعہ گھرانے سے تعلق رکھتے تھے تو شیعہ لابی نے انہیں سپورٹ کیا ہو۔ ہر گز نہیں! بلکہ انہوں نے خالصتا اپنی شاعری کے بل پر یہ پرواز طے کی ہے۔

ابو الحسین آزاد: جونؔ ایلیا اور مذہب کے تعلق کو کیسے بیان کریں گے؟

خالد احمد انصاری: جونؔ ایلیا نے ایک مذہبی گھرانے میں آنکہ کھولی۔ دیوبند میں بھی پڑھا۔ ان کے بچپن کے دوست بتاتے ہیں کہ وہ بڑے پکے اور متشدد قسم کے مذہبی آدمی تھے لیکن اس کے بعد جب وہ بہکنا شروع ہوئے تو بہکتے ہی چلے گئے۔

جون ایلیا کے بڑے بھائی رئیس امروہوی کے متعلق بات ہوئی تو کہنے لگے کے جونؔ بھائی ان کے متعلق کہا کرتے تھے کے وہ بہت بڑے شاعر ہیں مگر شاعری کو سنجیدگی سے نہیں لے رہے۔ اردو ادب اور اردو کے مستقبل کے بارے میں بات ہوئی تو کہنے لگے اردو کی بقا کو کوئی خطرہ نہیں۔ اردو میں بہترین شاعری ہو رہی ہے گانے لکھے جارہے ہیں ڈرامے اور فلمیں بن رہی ہیں۔ اردو پاکستان اور ہندوستان کی مشترکہ زبان ہے رسم الخط کے فرق کے علاوہ ہندی اور اردو تقریبا دونوں ایک ہی ہیں۔

وقت بھت زیادہ ہو چکا تھا۔ آخر میں ہم نے ”یعنی“ پر ان سے آٹو گراف لیے اور جونؔ کا کوئی سا پسندیدھ شعر لکھنے کی فرمائش کی انھوں نے غیر مطبوعہ کلام سے یہ شعر لکھا:

دور اس سے رہا کے پاس رہا
کب بھلا میں نہیں اداس رہا


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).