علی بابا۔ سندھی فکشن کا نجمِ درخشاں


یہ وہ علی بابا نہیں تھے، جو چالیس چوروں کے سرغنہ تھے، بلکہ اِس علی بابا نے سندھی فکشن کے اُس قافلے کے رُوحِ رواں کی حیثیت سے باگ ڈور سنبھال کے رکھی تھی، جس قافلے کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے اَن گنت قلمکار آج بہت معیاری افسانے، ناول اور ڈرامے تحریر کر رہے ہیں اور علی بابا کا فکری تسلسل بنے ہوئے ہیں۔ سندھی ادب کے اس یگانے افسانہ نویس، ڈرامہ نگاراور ناولسٹ کا اصل نام علی مُحمّد بلوچ اوران کے والدِ محترم کا نام محمّد یُوسف بلوچ تھا۔

وہ سندھ کے خوبصورت دریائی شہر، کوٹڑی میں 1940 ء میں پیدا ہوئے۔ علی بابا کے بزرگوں کا تعلق بنیادی طور پر بلوچستان سے تھا، جو وہاں سے ہجرت کر کے سندھ میں پہلے سیوہن شریف اور بعد ازاں کوٹڑی میں آکرمستقل طور پر سکُونت پذیر ہوئے۔ علی بابا کے والد ریلوے میں ملازم تھے اور عمر کا بیشتر حصہ پاکستان کے اہم ریلوے اسٹیشن، کوٹڑی جنکشن پر اپنے فرائض انجام دیتے رہے۔ علی بابا نے بھی انگریزی کی چھ جماعتیں پڑھ چکنے کے بعد اپنے والد کی جگہ ریلوے میں ملازمت اختیارکی، مگر وہاں صرف ایک برس ملازمت کرنے کے بعد انہوں نے ایک ٹیکسٹائل مِل میں بحیثیت اسسٹنٹ مینیجر اپنے روزگار کے سلسلے کو آگے بڑھایا، جس سے چار برس تک اُن کی وابستگی رہی۔ علی بابا نے 1964 ء سے قلم سے دوستی کر کے لکھنے کا آغاز کیا، جو سلسلہ تادمِ آخر جاری و سارِی رہا۔ علی بابا کا شمار ملک کے اُن چند گنے چُنے قلمکاروں میں ہوتا تھا، جن کا ذریعہء معاش صرف اور صرف لکھنا ہی رہا۔

علی بابا ایک پیدائشی تخلیق کار تھے، جن کے اندر کا فنکار معاشرے کے مظالم، غیرمساوی روّیوں اور غموں کو دیکھ کر خاموش نہیں بیٹھ سکتا تھا اور ان کو ہمیشہ بے چین رکھتا تھا، جس وجہ سے اُن کے افسانوں اور ڈراموں کے کردار حرف بہ حرف سچ گوئی کا نشان نظر آتے ہیں۔ علی بابا کے کئی ڈرامے ریڈیو پاکستان اور پاکستان ٹیلی وژن سے نشر ہوکر سامعین خواہ ناظرین میں مقبُولیت پاتے رہے۔ 1981 ء میں پی ٹی وی کراچی مرکزسے نشر ہونے والے علی بابا کے لکھے ہوئے سندھی ڈرامے ”دُنگیء منجھ دریاء“ کو بین الاقوامی حد تک پذیرائی ملی، جسے جرمنی میں منعقدہ ناٹک میلے میں تِیسرے انعام سے نوازا گیا۔

علی بابا کا ناول ”موئن جو دڑو“ (جو پہلے کسی مخزن میں قسطوار شایع ہوتا رہا، اور بعد ازاں کتابی صُورت میں بھی شایع ہوا) سندھی زبان کا ایک شاہکار ناول ہے، جس میں انہُوں نے پانچ ہزار برس قبل کے دور کو تصوّر کی آنکھ سے دیکھتے ہوئے کرداروں کو تخلیق کیا ہے، اور اُن سے اُسی دور کی مصرُوفیات (سرگرمیوں ) کو انجام دلوا کر نہ صرف اُس دور کی زبان اور ذہنی سطح کے مطابق ناول کی زبان تحریر کی ہے، بلکہ موئن جو دڑو سے ملنے والے اوزاروں، جرّاحت کے سامان، سازوں اور کھلونوں وغیرہ کا ذکر اس درجہ فنکارانہ انداز میں کیا ہے، کہ قاری ناول پڑھتے ہوئے یہی محسُوس کرتا ہے کہ وہ گویا 2500 قبلِ مسیح کے دور میں پہنچ گیا ہے۔

سندھ کے بہت بڑے عالم، پیر حسام الدین راشدی، علی بابا کو ”سندھ کی عظمت بیان کرنے والے افسانہ نویس“ کہتے ہیں۔ معرُوف ادیب، تاج جویو، علی بابا کو ”سندھ کی رُوح کا نبض شناس“ اور ”امرجلیل اور نسیم کھرل کے بعد سندھی زبان کا سب سے بڑا افسانہ نویس“ کہتے ہیں۔ علی بابا خود اپنی کتاب ”منہنجیُوں کہانیُوں“ (میرے افسانے ) کے حصّہ اوّل میں تحرِیر کرتے ہیں کہ: ”ہر لکھنے والا ایک اچھا قاری بھی ہوتا ہے۔ مجھے شیام جۂ سنگھانی اچھے لگتے ہیں۔

لعل پُشپ اور بھی اچھے لگتے ہیں۔ گنُو سامتانی، ایشور چندر اور مُوہن کلپنا بھی اچھے لگتے ہیں۔ ویسے تو اچھے لگنے کی کوئی انتہا نہیں ہے۔ ایسے، جیسے چیخوف یا اوہینری۔ مارکیز مجھے او ہینری جتنا اچھا نہیں لگتا، نہ ہی لعل پُشپ جتنا۔ نسیم احمد کھرل بہت بڑے افسانہ نویس تھے۔ ابھی اُس نے افسانے لکھنا شروع ہی نہیں کیے تھے، کہ خود ہی افسانہ بن گئے۔ اسی طرح مانِک کو بھی موت کا سانپ قبل از وقت ہی ڈس گیا۔ ”

علی بابا کی تحریروں میں مسائل، معاملات، موضوعات اور ماحول زیادہ تر ان کی اپنی سرزمینِ سندھ ہی کے ملتے ہیں۔ ان کی ہر تحریر کسی نہ کسی پس منظر اور حقیقت کی بنیاد پر ہے۔ ان کے تخلیق شدہ کردار بالکل جیتے، جاگتے اور آپ کے اور ہمارے درمیاں سانس لیتے ہوئے اصل کردار ہی ہیں، جن کی کوئی بھی ادا یا اُن کی زبان سے ادا ہونے والا کوئی بھی جُملہ (مکالمہ) ہمیں مصنوئی محسُوس نہیں ہوتا۔ یہی وجہ ہے کہ علی بابا ہمیں اپنے ہمعصر خواہ کئی سینیئر افسانہ نویسوں سے یکتا اور اظہار میں یکسر مُختلف نظر آتے ہیں۔

علی بابا اپنی طرزِ تحرِیر کی طرح اپنی شخصیت میں بھی بہت نرالے تھے۔ وہ اپنی ذات میں ایک سچّے صُوفی تھے، جو اپنے ہر ڈھنگ، ہر اظہار اور ہر ڈھب میں سادگی کا مُجسّم تھے۔ لباس سے لے کر لہجے اور میل جول سے لے کر گفتگُو اور رَہن سہن میں وہ ایک سچّے اور کھرے انسان تھے۔ توکّل اُن کا شعار اور سچ گوئی اُن کی فطرت تھی۔ بہت سارے لوگوں کو اُن کی باتیں آسانی سے سمجھ میں آنے والی نہ تھیں۔ ہمارے سینیئر دوست اور معرُوف براڈ کاسٹراور ادیب، جناب نصیر مرزا بتاتے ہیں کہ ایک دن وہ اُن کے پاس ریڈیو پاکستان حیدرآباد آئے اور دریافت کیا کہ اُن کی جیب میں کتنے پیسے ہیں۔ نصیر صاحب نے علی بابا کو بتایا کہ: ”اس وقت میرے پاس 80 روپے ہیں۔ “ تو علی بابا نے بے تکلفی سے اُن کے ساتھ اپنی دوستی کے حق جتاتے ہوئے کہا کہ: ”ان میں سے مجھے اس وقت اتنے پیسے دے دو، جتنے علی بابا کے ساتھ چور تھے۔ “

علی بابا کی ادبی پہچان گو کہ ایک فکشن رائٹر کی حیثیت سے تھی، مگر وہ جُز وقتی شاعر بھی تھے۔ اُن کی بعض نظموں میں اُن کا تخیّل کُل وقتی شاعروں سے بھی زیادہ گہرا اور پُراثر محسوس ہوتا ہے۔ ان کی ایسی ہی نظموں میں سے چند ایک ریڈیو اور ٹیلی وژن پر ریکارڈ ہوکراور وہیں سے نشر ہوکر شہرت پا چُکی ہیں۔ سندھ کے یہ عظیم اور یگانے ادیب، شاعر اور اپنی ذات میں انتہائی اعلیٰ اوصاف والے انسان علی بابا ہم سے تین برس قبل، پیر، 8 اگست 2016 ء کو بچھڑ کر اُس دیس چلے گئے، جہاں سے آج تک کوئی واپس نہیں آیا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).