کراچی میں کرنٹ لگنے سے ہلاک ہونے والے دوست فیضان، طلحہ اور حمزہ کون تھے؟


انتباہ: یہ کہانی بعض قارئین کے لیے تکلیف کا باعث ہو سکتی ہے۔

’وہ ایک انتہائی المناک اور خوفناک حادثہ تھا۔ نوجوان جب موٹر سائیکل پر ڈیفنس میں ایک کھمبے کے پاس سے گزرے تو کرنٹ لگنے سے گر گئے۔ ایک تو پانی میں ڈوب گیا اور موقعے پر ہی ہلاک ہو گیا جبکہ باقی دو نوجوان زندگی بچانے کے لیے جدوجہد کرتے رہے۔ میں نے اپنے ملازمین سے کہا کہ جاؤ جو کچھ کر سکتے ہو تو کرو۔ مگر میں یہ منظر دیکھ کر صدمے سے خود بیہوش ہوگئی تھی۔ جب ہوش آیا تو مجھے بتایا گیا کہ وہ تینوں نوجوان اب اس دنیا میں نہیں رہے۔ وہ منظر مجھے بالکل ڈراؤنے خواب کی طرح لگتا ہے۔ میں اس کو نہ تو یاد کرنا چاہتی ہوں اور نہ ہی بات کرنا چاہتی ہوں۔‘

یہ الفاظ ہیں گذشتہ دنوں کراچی میں شدید بارشوں کے بعد تین دوستوں کو پیش آنے والے حادثے کو اپنے گھر کی بالکنی سے دیکھنے والی خاتون کے۔

پاکستان کے معاشی دارالحکومت کہلائے جانے والے شہر کراچی میں اس سال بارشوں کے دوران کرنٹ لگنے سے 20 سے زیادہ افراد اپنی زندگی کی بازی ہار چکے ہیں۔

طلحہ تنویر، حمزہ طارق اور فیضان سلیم ڈیفنس ہاؤسنگ سوسائٹی فیز ون کے رہائشی تھے۔ تینوں لڑکے موٹر سائیکل پر سفر کر رہے تھے جب وہ حادثے کا شکار ہوئے۔

مزید پڑھیے:

کراچی ہر بارش کے بعد کیوں ڈوب جاتا ہے؟

کراچی: جب شہر ڈوب رہا ہو تو شہری کیا کریں

کراچی میں ’اربن فاریسٹ‘ کا منصوبہ تاخیر کا شکار

ایک اور عینی شاہد کا کہنا تھا کہ نوجوانوں کی زندگی بچانے کی جدوجہد 20 منٹ تک جاری رہی تھی۔

’روڈ پر کرنٹ تھا۔ وہاں موجود لوگ بانس اور رسی بار بار پھینک رہے تھے کہ وہ نوجوان رسے اور بانس کو پکڑ لیں اور ان کو کھینچ کر باہر نکالا جاسکے مگر کرنٹ کی گرفت میں ہونے کی وجہ سے ان میں اتنی بھی سکت نہیں تھی کہ وہ رسی یا بانس پکڑ سکیں اور اسی کرنٹ کی وجہ سے لوگ چاہنے کے باوجود ان کی مدد کے لیے نہیں پہنچ سکتے تھے۔

عینی شاہد کے مطابق واضح طور پر ایک نوجوان بار بار ہاتھ پاؤں مار کر اپنے دوست کو پکڑ کر باہر نکالنے اور خود اٹھنے کی کوشش کرتا رہا مگر کرنٹ کی گرفت سے نہ نکل سکا۔

جن دو نوجوانوں میں زندگی کی رمق باقی تھی انھوں نے تین، چار مرتبہ کہا کہ لائٹ بند کرو۔

عینی شاہد کے مطابق وہ خود اور وہاں موجود افراد فون پر کراچی الیکڑک کمپنی کو بار بار بجلی بند کرنے کی درخواستیں کرتے رہے اور بجلی 20 منٹ بعد بند ہوئی جس کے بعد نوجوانوں کو پولیس موبائل اور امدادی کارکنان نے موقع پر پہنچ کر نکالا۔

‘ان پر مٹی ڈالی گئی کہ شاید کرنٹ کے اثرات ختم ہوسکیں مگر تھوڑی ہی دیر میں ایک اور نوجوان چل بسا جبکہ تیسرا نوجوان ایدھی سروس کی ایمبولنس میں دم توڑ گیا تھا۔‘

’میں کہتے کہتے رک گیا کہ نہ جاؤ‘

ہلاک ہونے والے حمزہ طارق کے والد محمد طارق نے بی بی سی کو بتایا کہ ’واقعے کے دن تینوں لڑکے دوپہر دو بجے کے بعد موٹر سائیکل پر میری دکان کے آگے سے گزرے۔ حمزہ موٹر سائیکل چلا رہا تھا۔ ہمیشہ کی طرح طلحہ اس کے پیچھے اور فیضان اس کے بعد بیٹھا ہوا تھا۔

جب بھی یہ تینوں دوست میری دکان کے سامنے سے گزرتے تو اتر کر مجھے ضرور ملتے اور بتاتے کہ کہاں جا رہے ہیں مگر اس روز بارش ہورہی تھی، حمزہ رکا نہیں اور تینوں نے سڑک ہی پر سے ہاتھ ہلایا اور چلے گے۔`

’یہ کوئی خاص بات نہیں تھی مگر مجھے کچھ عجیب سا محسوس ہوا اور میں نے حمزہ کو فون کیا تو حمزہ نے کہا کہ بجلی نہیں ہے گھر میں بور ہو رہے تھے، اس لیے یونیورسٹی کے دوستوں سے ملنے جا رہے ہیں۔ پتا نہیں کیا ہوا میں کہتے کہتے رک گیا کہ نہ جاؤ مگر خدا خافظ کہہ کر فون بند کردیا تھا۔`

ان کا کہنا تھا کہ تھوڑی دیر ہی گزری ہوگی کہ حادثے کی اطلاع مل گئی۔ ’میری تو دنیا لٹ گئی مگر اللہ کی رضا ہے۔‘

طلحہ تنویر کے والد محمد تنویر کا کہنا تھا کہ ’حادثے والے روز میں فلیٹ ہی میں تھا اور یہ کوئی دو بجے کا وقت تھا۔ بارش ہورہی تھی کہ طلحہ کا چھوٹا بھائی آیا جس نے پیغام دیا کہ کہ نیچے فیضان اور حمزہ بلا رہے ہیں۔ جس پر میں نے اس سے کہا کہ کدھر جارہے ہو، بارش ہو رہی ہے اور طلحہ نے جواب دیا کہ نیچے ہی ہیں۔`

’فیضان اور حمزہ طلحہ کے بچپن کے بہت ہی قریبی دوست تھے۔ ہمارے دیکھے بھالے بچے تھے۔ اس لیے چاہنے کے باوجود اس کو منع نہیں کرسکا اور تھوڑی دیر بعد حادثہ ہو گیا۔`

’مجھے کیا پتا تھا کہ اس وقت تو ان تینوں ہی کو مدد کی ضرورت تھی‘

کئی برسوں سے ڈیفنس گارڈن کے ہی رہائشی فرحان وزیر تینوں ہلاک ہونے والے نوجوانوں کو کئی سالوں سے ذاتی طور پر جانتے ہیں۔ بی بی سی سے بات کرتے ہوئے انھوں نے بتایا کہ 11 اگست کو شدید بارش ہو رہی تھی۔

’اطلاعات مل رہی تھیں کہ مختلف جگہوں پر پانی اکھٹا ہوچکا ہے اور لوگ مشکلات کا شکار ہیں۔ اس صورتحال پر بلڈنگ سے نیچے گیا تو ان تینوں کا ایک دوست حماد موجود تھا۔ اس سے کہا کہ طلحہ، حمزہ اور فیضان کو بھی بلا لو۔ علاقے میں جاتے ہیں جہاں پر کچھ لوگوں کو ہماری مدد کی ضرورت ہو گی۔ میں اکثر ان نوجوانوں کے ساتھ مل کر فلاحی کام کرتا رہتا تھا۔`

’حماد تینوں کے فلیٹ میں گیا مگر وہ موجود نہیں تھے۔ میں نے بھی فون کیا مگر تینوں نے اٹینڈ نہیں کیا۔ یہ کوئی تین بجے کا وقت تھا اور یہی حادثے کا بھی وقت تھا۔ میں ان کو لوگوں کی مدد کے لیے بلانا چاہتا تھا مگر مجھے کیا پتا تھا کہ اس وقت تو ان تینوں ہی کو مدد کی ضرورت تھی۔

ابھی ہم باہر نکلے ہی تھے کہ ان تینوں کے حادثے کی اطلاع مل گئی اور تقریباً پوری بلڈنگ کے لوگ حادثے کی طرف روانہ ہو چکے تھے۔`

ان کے مطابق خیابان سحر کی 21ویں سٹریٹ کے مذکورہ کھمبے کے پاس یہ پہلا حادثہ نہیں تھا بلکہ اس سے قبل دو مرتبہ اس پر شارٹ سرکٹ ہوچکا تھا، جس کی باقاعدہ شکایات بھی درج کروائی گئی تھیں۔

’ہم تین چار دن تک تو جنازہ، تدفین اور سوئم میں مصروف تھے۔ اس دوران کئی لوگوں نے ہم سے رابطے کیے ہیں۔ کئی عینی شاہد ہیں۔ ان سب لوگوں کی مدد سے اب ہم ہر قانونی راستہ اختیار کریں گے اور سوشل میڈیا پر بھرپور مہم چلائیں گے اور مطالبہ کریں گے کہ اتنی بڑی غفلت کے ذمہ داران کو انصاف کے کہڑے میں کھڑا کیا جانا چاہیے۔`

آخری اطلاعات کے مطابق تینوں نوجوانوں کے اہل خانہ نے ایف آئی آر درج کروائی ہے جس میں کراچی الیکٹرک کے مالک اور انتظامیہ کو نامزد کیا گیا ہے۔

مثالی دوستی

حمزہ کے والد محمد طارق نے بتایا کہ یہ تینوں ہم مزاج بچے تھے۔ ایک ہی سکول میں پڑھے، ایک ہی ساتھ کھیلے، ایک ہی ساتھ مختلف سرگرمیوں میں حصہ لیتے تھے۔ تینوں کی دوستی ڈیفنس گارڈن میں مشہور تھی۔

’طلحہ اور فیضان تو پیدا ہی ڈیفینس گارڈن میں ہوئے تھے جب کہ حمزہ اپنے والدین کے ہمراہ بہت کم عمر میں یہاں آیا تھا۔ بچپن سے لے کر موت تک تینوں کو لوگوں نے اکھٹے لڑتے، کھیلتے، امدادی سرگرمیوں میں حصہ لیتے دیکھا۔ صبح ان کی لڑائی ہوتی شام کو تینوں پھر اکھٹے ہوتے۔`

محمد طارق کے مطابق ’حمزہ کو فوج میں جانے کا بہت شوق تھا دو بار اس نے امتحان دیا مگر اس کو منتخب نہیں کیا گیا جس پر اس کو مایوسی ضرور ہوئی مگر اس کے بعد اس نے ایم بی اے میں داخلہ لے لیا تھا اور اس کا زیادہ رجحان کاروبار کی طرف تھا۔ اکثر کہتا تھا کہ عملی طور پر کاروبار سے پہلے کسی بڑی کمپنی میں ملازمت کر کے تربیت حاصل کروں گا اور پھر اپنا کاروبار شروع کروں گا۔`

طلحہ کے والد محمد تنویر کے مطابق طلحہ چارٹرڈ اکاؤنٹنٹ بننا چاہتے تھے۔ فرحان وزیر نے بتایا کہ وہ ایک سافٹ ویئر ہاؤس چلانے کے علاوہ فلاح و بہبود کی غیر سرکاری تنظیم ترقی پاکستان ویلفیئر چلاتے ہیں، جس میں فیضان ان کے معاون ہوا کرتے تھے جبکہ طلحہ اور حمزہ بھی مدد کرتے تھے۔

وہ کہتے ہیں کہ ’فیضان میرے زیادہ قریب ہوتا تھا۔ اس سے جب بھی مستقبل کے حوالے سے بات ہوتی تو وہ کہتا تھا کہ بس اتنا طے ہے کہ میں ان لوگوں میں شامل نہیں ہوں گا جو غریب مرتے ہیں۔ میں کاروبار کروں گا، ملازمت کروں گا محنت کروں گا اور جب مروں گا تو غریب نہیں ہوں گا۔‘

طلحہ تنویر کے والد محمد تنویر بتاتے ہیں کہ پوری بلڈنگ میں جب بھی کسی کو مدد کی ضرورت پڑتی تو وہ ان دوستوں کو فون کرتا تھا۔

فرحان وزیر کے مطابق ’کچھ عرصہ پہلے کی بات ہے کہ ہمارے علاقے میں ایک مقام پر سٹریٹ لائٹ نہیں تھی۔ انھوں نے اس کا مجھ سے ذکر کیا تو میں نے اس پر تاروں وغیرہ کا انتظام کردیا اور دوسرے دن تینوں نے مل کر سٹرئیٹ لائٹ خود نصب کی تھی۔ اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ وہ کتنے فعال ہوں گے۔‘

’14 اگست کے جشن کا انتظام کرنے والے موجود نہیں تھے‘

اس سال یوم آزادی کے موقعے پر ڈیفنس گارڈن اپارٹمنٹ کو قومی پرچموں سے نہ سجایا جاسکا۔ ڈیفینس گارڈن اپارٹمنٹ کے مکینوں کے مطابق کئی سال بعد اس سال یہ پہلا موقع ہے کہ ان لوگوں نے 14 اگست کو اس طرح نہیں منایا جس طرح ہر سال مناتے ہیں۔

اس کی وجہ حمزہ، طلحہ اور فیضان کی ناگہانی موت تھی کیونکہ چودہ اگست کے جشن کا انتظام کرنے والے موجود نہیں تھے۔

فرحان وزیر کے مطابق ہر سال جب 14 اگست آنے والا ہوتا تو یہ تینوں دوست کئی دن پہلے ہی تیاریاں شروع کر دیتے تھے۔

’فیضان شوق سے زیادہ ڈیوٹیاں لیتا تھا۔ پرچم، بیج وغیرہ پرنٹ کرواتا۔ پوری بلڈنگ کو پاکستان کے پرچموں سے سجاتے تھے۔ رات کو چراغاں کرتے، دن کو سٹال لگاتے،جس میں پینٹنگ ہوتی تھیں، شام ہوتے ہی فنکشن منعقد کرتے تھے۔ `

کراچی میں کرنٹ لگنے کے واقعات

کراچی

محکمہ موسمیات نے شہر میں مزید بارش کی پیش گوئی کی ہے

ظفر عباس انسانی حقوق کے کارکن اورسوشل ورکر ہیں جو گذشتہ چند سالوں سے کراچی میں بجلی کے کرنٹ لگنے اور دیگر معاملات پر آواز اٹھا رہے ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ کئی سال سے اس طرح ہو رہا ہے کہ لوگ ان کے پاس علاج معالجہ اور دیگر معاملات کی مدد کے لیے آتے ہیں۔ وہاں بجلی کے بلوں سمیت دیگر شکایات کا انبار بھی لگ گیا۔

وہ کہتے ہیں کہ ’جب اس ایشو پر کام شروع کیا تو انکشاف ہو اکہ بجلی اور بجلی کے بلوں کو چھوڑو، لوگ تو بجلی کے ہاتھوں سڑکوں پر اپنی زندگی کی بازیاں ہار دیتے ہیں۔ انھوں نے ان بے گناہ مرنے والے لوگوں کے لیے آواز بلند کرنا شروع کردی۔`

ان کا کہنا تھا کہ ’میں اس پر گذشتہ پانچ سال سے کام کررہا ہوں اور دعویٰ سے کہتا ہوں کہ ہر سال بجلی سپلائی کے ناکارہ انفراسٹرکچر کے ہاتھوں کم از کم دو سو لوگ کراچی میں اپنی زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔ کچھ واقعات منظر عام پر آتے ہیں اور کچھ نہیں آتے۔‘

انھوں نے مثال دیتے ہوئے کہا کہ ’لیاقت آباد کا غریب بچہ کرنٹ لگنے کی وجہ سے مرا تو اس کو ہسپتال لے کر گئے۔ وہاں پر ان سے کہا گیا کہ اس کی میت کو ہسپتال میں نہیں رکھیں گے، ایمبولنس بھی نہیں دی گئی علاقے کے لوگ میت کو ایک گاڑی کی فرنٹ سیٹ پر ڈال کر کبھی ایک ہسپتال اور کبھی دوسری ہسپتال لے جاتے رہے پھر عباسی شہید ہسپتال کو ترس آیا اس نے میت کو اپنے مردہ خانے میں رکھا اور صبح اس کی تدفین کا انتظام ہوا۔`

اسی طرح انھوں نے بتایا کہ ایک رکشہ ڈرائیور اپنا رکشہ لے کر مزدوری کے لیے نکلا کرنٹ لگنے سے ہلاک ہو گیا۔

’اب اس کے لواحقین میں چار بچے اور بیوہ ہیں۔ ان کے لیے سب سے بڑا مسئلہ تو تدفین کا بن چکا تھا۔ اسی طرح کے اور کئی واقعات ہیں جس میں کہا جاتا ہے کہ کرنٹ لگا ہے نا کسی نے مارا تو نہیں ہے بس بات ختم۔‘

ظفر عباس نے بتایا کہ اس سال بارشوں میں کرنٹ سے ہلاکت کے 30 واقعات رپورٹ ہوئے ہیں مگر کئی واقعات ایسے بھی ہوسکتے ہیں جو رپورٹ ہی نہیں ہوتے۔

ظفر عباس کے خیال میں ایسے واقعات کی تعداد بہت زیادہ ہوتی ہے۔ البتہ اس بار کم از کم لواحقین کی مدد سے ایسے واقعات کے نو مقدمات کراچی کے مختلف تھانوں میں درج ہوچکے ہیں۔

دوسری جانب کراچی الیکڑک کے پبلک ریلیشن آفسیر کے مطابق ان واقعات کا ذمہ دار کمپنی کو قرار نہیں دیا جاسکتا کیونکہ بارشوں سے کراچی پانی میں ڈوبا ہوا تھا اور اس پانی کو نکالنے کا کوئی انتظام نہیں کیا گیا تھا۔

انھوں نے کہا کہ ’یہ انتہائی افسوسناک بات ہے کہ کچھ عناصر صرف کے ای کو ان واقعات کا ذمہ دار قرار دے رہے ہیں جبکہ اس دووران سول انفراسٹرکچر کام نہیں کررہا تھا۔‘

پبلک ریلیشن آفسیر کے مطابق کئی واقعات گھروں کے اندر پیش آئے جبکہ کے ای نے بارشوں سے پہلے پانی کی نکاسی کا انتطام کرنے کی گزارش بھی کی تھی۔

’کراچی الیکڑک متاثرہ خاندانوں کے غم میں برابر کی شریک ہے اور لوگوں میں بارش کے دوران حفاظتی تدابیر کے لیے شعور پیدا کرنے کی مہم بھی شروع کر رکھی ہے۔‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32298 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp