سیاسی دباؤ۔ انتظامی اور پولیس افسران کی تعیناتی اور میرٹ


1991 ء میں ٹریفک پو لیس پنجاب نے گاڑیوں کے کالے شیشوں کے خلاف ایک مہم چلا رکھی تھی۔ پنجاب اسمبلی چیمبر کے سامنے ایک اے ایس آئی نے مسلم لیگ کے دو ایم پی ایز کی گاڑیوں کو روک کر ان پر سے کالے شیشے اتارے، کیونکہ وہ غیر قانونی تھے۔ انہوں نے ایک ادنی ٰ پولیس اہلکار کے ہاتھوں اس عمل کو اپنی بے عزتی تصور کیا۔ اسمبلی کا سیشن جاری تھا۔ دونوں ایم پی اے جذبات اور غصے کی حالت میں ایوان میں داخل ہوئے اور اپنی توہین پر بلند آواز میں احتجاج کیا۔

انہوں نے فوری اے ایس آئی اور ایس پی کی معطلی اور ٹرانسفر کا مطالبہ کر دیا۔ اسمبلی کے دوسرے ارکان نے بھی اس مطالبہ کی حمایت کی اور ساتھ ہی آئی جی کی ٹرانسفر کا بھی شور مچا دیا، جن کے میرٹ پر کام کرنے سے وہ تنگ تھے۔ اس کے بعد سارے ایم پی ا ے مال پر آ گئے اور اسمبلی میں جانے سے انکار کر دیا۔ وزیر اعلی غلام حیدر وائیں اس احتجاج کی مزاحمت نہ کر سکے اور فوراً اے ایس آئی اور ایس پی کا تبادلہ کر دیا اور وزیراعظم سے آئی جی کا بھی تبادلہ کروا دیا۔

انہی ایام میں اس وقت کے آرمی چیف نے اپنے ایک ڈی ایس پی کزن کی اس کی پسندیدہ جگہ پر تبادلہ کے لئے آئی جی پر دباؤ ڈالا۔ جب انھیں بتایا گیا کہ وہ کرپٹ ہے تو انھوں نے کہا کہ اس سے کیا فرق پڑتا ہے سبھی پولیس والے کرپٹ ہوتے ہیں۔ اسی دور حکومت میں فیصل آباد ضلع سے ایک ایم پی اے نے اپنے چندساتھی ایم پی ایز کے ساتھ وزیراعلی سے ملاقات کی اور ایک ڈی ایس پی کی ٹرانسفر کے لئے کہا وہ ڈی ایس پی بہت اچھی شہرت کا حامل تھا۔ اس نے اس ایم پی اے کے بھائی کو بغیر لائیسنس کلاشنکوف رکھنے کے جرم میں گرفتار کیا تھا۔ ایم پی اے نے کہا کہ یہ میری زبردست توہین ہے اور اب میں اپنے علاقے میں کیا منہ د کھاؤں گا۔ اس کے ساتھیوں میں ایک سابق وزیراعلی بھی شامل تھے۔ سب نے آئی جی کے فوری تبادلے کا کہا جو کے انھوں نے انکار کر دیا۔

ایک سابق وزیراعظم صاحب نے ایک ایس ایس پی کو خلاف قاعدہ ڈی آئی جی پروموٹ کرنے اور اپنے سیکورٹی کے ایک اہلکار کی آؤٹ آف ٹرن پروموشن نہ کرنے پر آئی جی کو ناکوں چنے چبوا دیے۔

اسی طرح ایک سابق وزیر اعلی نے اپنے دور میں لاہور شہر میں ایک قیمتی پلاٹ اپنے ایک دوست کو الاٹ کرنا چاہا۔ لیکن کمشنر نے خلاف قانون پلاٹ کی الاٹمنٹ نہ کی اور فائل پر یہ نوٹ لکھ کر اس کی الاٹمنٹ کو مستقل روک دیا کو یہ ایک قیمتی پلاٹ ہے۔ قانون کے مطابق اس کی صرف نیلامی ہو سکتی ہے اسے الاٹ کرنا کسی کے دائرہ اختیار میں نہیں ہے۔ پیشی پر ان کے الاٹمنٹ سے انکار پر فائل ان کے منہ پر دے ماری گئی اور اگلے دن ان کا تبادلہ بھی ہو گیا۔

ہمارے ایک برخوردار ایک ضلع میں ڈپٹی کمشنرتعینات تھے۔ گورنمنٹ کا ایک پلاٹ منسٹر صاحب کے قریبی رشتہ دار کو الاٹ نہ کرنے کی پاداش میں فوری چارج چھوڑنے کا حکم صادر ہوا۔ اس کے بعد ان کو کھڈے لائین لگا دیا گیا اور ان پر پوسٹنگ کے دروازے بند کر دیے گئے۔

حالیہ گورنمنٹ میں ایک ڈی سی نے اپنے ضلع کے ایم این اے کے خلاف تحریری شکایت کی کہ وہ میرٹ کو بلائے طاق رکھ کر اپنی پسند سے چھوٹے ملازمین کی تقرریاں کروانے کے خواہاں تھے۔ اس طرح کے اور بہت سارے واقعات ہیں جن کو دیکھ اور سن کر دل خون کے آنسو روتا ہے کہ کیسے سب نے مل کر میرٹ کا تو جنازہ نکال دیا ہے۔ اوپر بیان کیے گئے زیادہ واقعات کا تعلق پنجاب سے ہے لیکن کے پی کے۔ بلوچستان اور سندھ میں حالات اس سے بھی وگرگوں ہیں۔

سوائے عسکری اداروں اور سول سروس کے مقابلے کے امتحان کے باقی تمام سرکاری محکموں میں نوکری حاصل کرنے کے لئے آپ کو ایم این اے یا ایم پی اے کے در دولت پر جوتیاں چٹخانی پڑتی ہیں یا ان کے کارندوں کو بھاری رشوت دینی پڑتی ہے۔ جو لوگ سفارش اور رشوت کی بنیاد پر بھرتی ہوتے ہیں وہ پھر اپنی من مانی کرتے ہیں۔

روزنامہ ڈان کی ایک رپورٹ کے مطابق حال ہی میں پنجاب گورنمنٹ نے ایک ڈی آئی جی کا سیاسی دباؤ پر تبادلہ کر دیا جو کہ وزیراعظم کی مداخلت پر منسوخ ہو گئی۔ اسی طرح پنجاب کے ایک ایم این اے نے اپنی پسند کا نہ ہونے پراپنے ضلع سے ڈپٹی کمشنرکا اس کی تعیناتی کے دو ہفتے بعد ہی تبادلہ کر ا دیا۔

روزنامہ دی نیوز کی اس سال جنوری کی رپورٹ میں لکھا ہے کہ اس وقت پولیس بری طرح سیاسی اثرورسوخ کے شکنجے میں ہے۔ پولیس افسروں کے تبادلوں میں سیاسی پسند وناپسند پر میرٹ کو بالائے طاق رکھا جا رہا ہے۔ سیاستدان اپنی پسندکا افسر اپنے حلقے میں تعینات کروا کر خوشی اور فخر کا اظہار کرتے ہیں۔ موجودہ صورت حال میں اخلاقی اقدار کا معیار اور ذہنی پسماندگی کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ وہ سیاستدان زیادہ قابل اور لائق سمجھا جاتا ہے جو پولیس کو اپنے قبضے میں رکھ سکے۔

ہم نے پچھلے ستر سالوں میں اداروں کو مضبوط بنانے کی بجائے شخصیات کو زیادہ اہمیت دی ہے جس کے نتیجے میں پولیس اور انتظامیہ کے قابل اور لائق افسران بد دلی اور عدم تحفظ کا شکار ہو جاتے ہیں۔ جب تک میرٹ پر پولیس اور انتظامی افسران تعینات نہیں ہوتے اور ان پر سیاسی دباؤ کا خاتمہ نہیں ہو جاتا حالات سدھر نہیں سکتے۔ ہر حکومت میرٹ میرٹ کی گردان تو کرتی ہے لیکن بوجوہ اس پر کام نہیں کرتی۔ عام آدمی کا جینا دوبھر ہو گیا ہے۔ پتہ نہیں عام آدمی کے حالات کب بہتر ہوں گے اور وہ کب تک ظلم کی چکی میں پستے رہیں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).