علامہ اقبال کی جناح صاحب پر ایک ”ترک شدہ“ تنقیدی نظم


ڈاکٹر علامہ محمد اقبال کا شمار بیسویں صدی کے عظیم ترین شعرا میں ہوتا ہے۔ جن کا اردو و فارسی کلام آج بھی کروڑوں انسانوں کے قلب و زباں پر رہتا ہے۔ علامہ اقبال شاعر، فلسفی، قانون دان ہونے کے ساتھ ایک فعال سیاستدان بھی تھے اور ملت کی راہنمائی کرنے کو اپنا فرض سمجھتے تھے۔ اسی اصول کے تحت جو بات بھی خلاف ملت خیال کرتے اس پر آواز بلند کرتے تو کبھی اپنے اشعار کے ذریعے اس پر جرح کرتے۔

ہر بڑے شاعر کی طرح علامہ اقبال نے بھی اپنے ہر مجموعہ کلام میں منتخب نظمیں و اشعار شامل کیے جبکہ سینکڑوں نظمیں غیر مطبوعہ رہیں۔ ڈاکٹر صابر کلورُوی لکھتے ہیں کہ احباب کی فرمائش بھی اقبال کو بعض اوقات شعر گوئی پر مجبور کردیتی تھی ”جیسے ملکہ وکٹوریہ کی وفات پر ایک دوست کی فرمائش پر نظم لکھی، اور گورنر پنجاب مائیکل اڈوائر کی فرمائش پر بھی“ پنجاب کا خواب ”کے عنوان سے ایک نظم لکھی“ مگر انہیں کسی مجموعہ کلام میں شامل نہیں کیا اور اس جیسی کچھ نظمیں اور اشعار وہ تھے جو علامہ اقبال نے کسی خاص موضوع و شخصیت پر لکھے ضرور مگر معاملے کی حقیقت پتہ لگنے اور دوستوں کے مشوررے پر اپنی زندگی میں ہی ترک کردیے۔

ڈاکٹر محمد اقبال کی پہلی تصنیف اسرار خودی 1916 میں شائع ہوئی تھی۔ اس میں صوفیاء کرام اور حافظ شیرازی پر سخت تنقید کی گئی تھی۔ صوفیا کرام پر جو تنقید کی گئی تھی اس کا جواب خواجہ حسن نظامی نے اپنے رسالہ ”ماہنامہ نظام الشیخ“ میں صراحت کے ساتھ دیا۔ جس کا جواب علامہ اقبال نے ”اخبار وکیل امرتسر“ میں دیا۔ اس طرح خواجہ حسن نظامی اور علامہ اقبال میں جواب در جواب کا سلسلہ ایک عرصہ تک چلتا رہا۔

جبکہ حافظ شیرازی پر جو تنقید کی گئی تھی اس پر علامہ اقبال کو ہند اور بیرون ہند سے سینکڑوں خطوط مصول ہوئے۔ کیونکہ اسرار خودی میں اقبال نے ایک دو نہیں بلکہ پینتیس عدد اشعار میں حافظ شیرازی پر سخت طنز اور تنقید کی تھی جنہیں بعد میں دوست احباب کے مشورے پر ترک کردیا۔ اس کے چند اشعار یہ ہیں

ہوشیار از حافظ صہبا گسار
جامش از زہر اجل سرمایہ دار
رہن ساقی خرقہ پرہیزاو
مے علاجِ ہولِ رسرا خیزاو
محفل او در خورِ ابرار نیست
ساغرِ او قابل احرارِ نیست
بے نیاز از محفل حافظ گزر
الحذر از گو سفنداں الحذر

اسی طرح تین فروری 1938 کو مسلم اخبارات (زمیندار، احسان اور انقلاب) نے علامہ اقبال کے مولانا سید حسین احمد مدنی کے خلاف یہ اشعار شائع کیے

عجم ہنوز نداند رموز دیں ورنہ
ز دیوبند حُسین احمد! ایں چہ بوالعجبی است
سرود بر سرِ ممبر کہ مِلّت از وطن است
چہ بے خبر ز مقامِ محمدِؐ عربی است
بہ مصطفیٰؐ بہ رساں خویش را کہ دیں ہمہ اوست
اگر بہ او نہ رسیدی، تمام بولہبی است

ان اشعار میں آزادی برصغیر کے عظیم راہمناء پر سخت تنقید کی گئی تھی۔ اس کا جواب جناب احمد سہیل نے سید حسین احمد مدنی کے حق میں طویل فارسی نظم لکھ کر دیا اور اس سے اسلامیان ہند میں نہ صرف قلمی بحث چھڑ گئی بلکہ بات تکرار تک بھی آن پہنچی اور مسلمان دو دھڑوں میں تقسیم ہوگئے۔ ایسے موقع پر مولانا عبدالرشید نسیم (علامہ طالوت) آگے بڑھے اور علامہ اقبال اور سید حسین احمد مدنی سے طویل خط و کتابت کے بعد ان کی غلط فہمیاں دور کیں۔

علامہ اقبال نے اختلافات و غلط فہمیاں دور ہونے کے بعد اپنا تردیدی بیان شائع کیا جو ”روزنامہ احسان“ میں 28 مارچ 1938 کو شائع ہوا۔ مگر بدقسمتی سے ارمغان حجاز علامہ اقبال کی وفات کے بعد شائع ہوئی جس میں اس کلام کو باقی رکھا گیا اور اب تک یہ کلام کتاب میں موجود ہے اور وجہ اختلاف بنتا ہے

ایسے ہی کچھ طنزیہ اشعار علامہ اقبال نے محمد علی جناح صاحب کے بارے میں بھی کہے تھے اور یہ اس زمانے کی بات ہے جب جناح صاحب ”قائد اعظم“ کے رتبے پر فائز نہیں ہوئے تھے۔

۔ پھر اقبال جیسی شخصیت نے اگر کسی زمانے میں جناح صاحب جیسے قائد کے بارے میں کچھ لکھا تو یہ دو قد آور شخصیات کا نقطہ نظر کا اختلاف تھا۔ اور یہ اختلاف ایک سے زیادہ مواقع پر ہوا جیسے مسلم لیگ میں دھڑے بندی کے وقت علامہ اقبال نے جناح صاحب بجائے لیگ کے شفیع گروپ کی حمایت کی۔ اور سب سے بڑھ کر جناح و اقبال دونوں ہی بشر تھے اور پیغمبروں کے سوا کوئی بشر بھی معصوم عن الخطا نہیں۔

چناچہ 9 نومبر 1921 کو روزنامہ زمیندار میں جناح صاحب کے طرز سیاست پر علامہ اقبال کی طنزیہ نظم ”صدائے لیگ“ کے عنوان سے شائع ہوئی۔ جو درجہ ذیل اشعار پر مشتمل تھی

صدائے لیگ

لندن کے چرخ نادرہ فن سے پہاڑ پر
اترے مسیح بن کرمحمد علی جناح
نکلے گی تن سے تو کہ کرے گی تباہ ہمیں
اے جان برلب آمدہ اب تیری کیا صلاح
دل سے خیال دشت و بیاباں نکال دے
مجنوں کے واسطے ہے یہی جادہ فلاح

آغا امام اور محمد علی ہے باب
اس دین میں ہے ترک سوادِ حرم مباح
بَشریٰ لکم کہ منتظر مارسیدہ ہست
یعنی حجابِ غیرتِ کبریٰ دریدہ ہست
(روزنامہ زمیندار 9 نومبر 1921 )

نظم کی تشریح:

ان اشعار کا معنی و تشریح تو کوئی اقبال شناس ہی بہتر انداز میں کرسکتا ہے مگر میرے ناقص علم کے مطابق اس کی تشریح کچھ یوں بنتی ہے
پہلے شعر میں اقبال نے جناح صاحب کو طنز کرتے ہوئے مسیح (ع) سے تشبیہ دی کے کہ جناح صاحب خود ساختہ مسیح کی مانند لندن سے (بغیر کسی بشارت کہ) اچانک ہم پر نازل ہوئے ہیں

دوسرے شعر میں اقبال کا مطلب یہ ہے کہ تم ہمیں یعنی ملت کو تباہ کرنے کے واسطے آئے ہو کہ اس وقت کم و پیش تمام مسلمان تحریک خلافت کے پلیٹ فارم پر متحد تھے اور جناح صاحب کا لیگ کو دوبارہ زندہ کرنا اقبال کی نظر میں فتنہ و تقسیم کا موجب تھا۔

تیسرے شعر میں علامہ اقبال نے جناح صاحب کو بھٹکے ہوئے مجنوں سے تشبیہ دی ہے کہ مجنوں لیلا کے عشق کے جنون میں مبتلا ہوکر دشت میں بھٹکتا رہتا تھا اور اس کی زندگی سعی لاحاصل تھی۔ اقبال نے جناح صاحب کو مخاطب کرتے ہوئے کہا ہے کہ اپنے دل سے خیال دشت و بیاباں نکال دے یعنی لیگ کو جو دوبارہ زندہ کرنے کا عزم کیا ہے اسے ختم کردیں۔

چوتھے شعر میں علامہ اقبال نے آغا خان اور جناح صاحب پر شدید طنز کرتے ہوئے ذومعنی بات کی ہے۔ اقبال جناح صاحب کو اپنے مرکز سے نہ ہٹنے کی تلقین کرتے ییں اور جناح صاحب کو محمد علی باب جبکہ آغا خان کو ان کے مسلک کے امام سے سے تشبیہ دی ہے۔ محمد علی باب ایران کا اسماعیلی فرقے کی ایک ذیلی شاخ کا مبلغ تھا اور اس نے دعویٰ مہدویت کیا تھا۔ جسے بعدازاں شاہ ایران ناصر الدین قاچار کے حکم سے تبریز شہر کے چوراہے میں گولی مار کر اس کی نعش شہر سے باہر پھینک دی گئی تھی۔ اس کے پیروکار بابی کہلاتے ہیں۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2