سائیکل آف وائیلینس


اس ظالم، بدمعاش، زانی، چور، ڈاکو، قاتل، سفاک، مجرم، لٹیرا اور خبیث کو سرعام پھانسی دو، اس کا سر کاٹو، اس کو پتھروں سے مار مار کر ہلاک کردو، اس کو دریا برد کردو، اس کو آگ میں پھینک دو، اس کو گھسیٹ گھسیٹ کر مار دو، اس کے سر پر ڈنڈے برسادو، اس کو سرِعام گولی ماردو، اس کے ہاتھ پاوں توڑ دو، اس کو جہنم واصل کردو، اس کو زندہ دفن کردو، اس کی گردن اڑا دو وغیرہ وغیرہ۔

یہ وہ ردعمل ہوتا ہے جو کسی بھی قتل، ریپ، گھریلو تشدد اور دیگر ظلم و زیادتی کے واقعے کے رونما ہونے کے فوراً بعد عام اور پڑھے لکھے لوگوں کی طرف سے سامنے آتا ہے۔ ایسا ردعمل دینے میں سوشل میڈیا کا ضرورت سے زیادہ استعمال کرنے والے کارکن اکثر پیش پیش ہوتے ہیں۔ ایسے میں کوئی فرد ایسے کسی واقعے میں درمیانہ اور معتدل رویہ اپناتے ہوئے صرف اتنا کہنے پر اکتفا کرے کہ مجرموں کو قانون کے کھٹرے میں کھڑا کیا جائے اور قرار واقعی سزا دی جائے تو اس کو بزدلی پر مبنی موقف کہا جاتا ہے۔

انسانی حقوق پر کام کرنے والے لوگوں سے بھی اکثر لوگ یہ تقاضا کرتے ہیں کہ وہ بھی تشدد کرنے والوں کے خلاف سخت اور تشدد پر مبنی موقف اپنائیں۔ اگر وہ ایسا نہیں کرتے ہیں تو ان کے خیال میں وہ اپنا فرض نہیں نبھاتے ہیں۔ یعنی ہر انسانیت سوز واقعے کے بعد جو عمومی ردعمل سامنے آتا ہے اس میں تشدد کے بدلے تشدد کا عنصر لازمی شامل ہوتا ہے۔ گویا تشدد کے خلاف اپنا پرتشدد ردعمل دیتے ہوئے یہ لوگ بھول جاتے ہیں کہ ایسا ردعمل دراصل ہماری تشدد پسند اجتماعی سوچ کی عکاسی کرتا ہے۔

تشدد کے بدلے میں تشدد کو فرغ دینے کی خواہش کے اظہار کو تشدد کی زنجیر یعنی ”چین یا سائیکل آف وائیلینس“ کہا جاتا ہے۔

تشدد پسندانہ سوچ کے بار بار اور ہر طبقہ فکر کی طرف سے اظہار کے بعد یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے کہ ہمارا معاشرہ تشدد، جرم، نا انصافی، زیادتی اور قتل و غارتگری کے واقعات سے نفرت نہیں کرتا بلکہ ان جرائم میں ملوث انسانوں سے نفرت کرتا ہے۔ جرم اور مجرم سے نفرت میں فرق ہے۔ اس فرق کا ادارک نہ ہونے کی وجہ سے ہم جرم کے ساتھ ساتھ مجرم کا خاتمہ بھی ضرری سمجھتے ہیں۔ کسی معاشرے کے مہذب ہونے کا تقاضا ہے کہ مجرم کی بجائے جرائم کے خاتمے پر زور دیا جائے۔

مجرم بھی دیگر انسانوں کی طرح کا ایک انسان ہوتا ہے۔ انسان کی یہ خاصیت ہوتی ہے کہ وہ زندگی کے کسی مرحلے میں بہت اچھے جبکہ کسی اور مرحلے میں بہت ہی برے عمل کا ارتکاب کرسکتا ہے۔ انسان آج برا ہے تو کل اچھا ہوسکتا ہے اور آج اچھا ہے تو کل برا ہوسکتا ہے۔ جو لوگ تشدد کے بدلے تشدد کے حامی ہوتے ہیں ان کے اندر تشدد پسند انسان چھپا ہوتا ہے۔ وہ زندگی کے کسی بھی حصے میں اپنی تشدد پسندانہ سوچ کو عملی جامہ پہنا سکتے ہیں۔

جو انسان فطرتاً تشدد پسند نہیں ہوتا ہے وہ کسی بھی حالت میں تشدد کی حمایت نہیں کرتا۔ سیلف ڈیفنس یا تشدد سے خود کو بچانا کوئی اور عمل ہے جس میں متاثرہ فرد ہر ممکن کوشش سے خود کو تشدد سے بچاتا ہے وہ حملہ آور کی طرح وحشی نہیں ہوتا۔ تشدد سے نفرت کرنے والا شخص سزا اور جزا کو قانون کے تحت روبہ عمل لانے کی حمایت کرتا ہے کیونکہ قوانین بنائے اس لئے جاتے ہیں تاکہ لوگ تشدد کے نتیجے میں خود تشدد کے مرتکب نہ ہوسکیں۔

جبکہ جرائم کے دیر پا خاتمے کے لئے معاشرے کی مجموعی تعلیم و تربیت کو ضروری قرار دیا جاتا ہے۔ ایک سمجھدار اور انسان دوست فرد تشدد کے بدلے تشدد کو فروغ دے کر تشدد کی زنجیر ”سائیکل آف وائیلینس“ کا حصہ نہیں بنتا بلکہ وہ اس تسلسل کو توڑنے کی حمایت کرتا ہے۔ جیسے خاندانی دشمنیاں سال ہا سال چلتی ہیں مگر درمیان میں ایک فرد ایسا پیدا ہوتا ہے جو اس تسلسل کو توڑ کر نئی شروعات کرتا ہے۔ وقتی طور پر لوگ ان کو برا بھلا کہتے ہیں مگر وقت ان کے فیصلے کو سراہتاہے۔

وہ سزا پر کم تربیت پر زیادہ یقین رکھتا ہے۔ وہ جرائم کے خاتمے کا حامی ہوتا ہے مگر جرائم کے مرتکب انسانوں کے خاتمے کا حامی نہیں ہوتا۔ کیونکہ ان کو انسانی فطرت کا ادراک ہوتا ہے وہ سمجھتا ہے تربیت سے برا انسان اچھا ہوسکتا ہے اور زندگی کے کسی بھی لمحے غلط سوچ اپنانے سے اچھا انسان برا ہوسکتا ہے۔ یہ دیکھا گیا ہے بہت سے لوگ کسی برے کام کے بعد پشیمان ہوتے ہیں اور تاحیات اچھائی کے فروغ میں اپنا حصہ ڈالتے رہتے ہیں۔ اس لئے دنیا کے کئی معاشروں میں جیلوں کو سزا کا مرکز نہیں بلکہ تربیت کا مرکز بنایا جاتا ہے جہاں جاکر عادی مجرم انسان بن کر باہر نکلتے ہیں۔ جبکہ ہمارے ہاں عام مجرم جیل جاکر عادی مجرم بن کرباہر نکلتے ہیں۔

یہ بات تصدیق شدہ ہے کہ ہر تشدد یا سنگین جرم کے کسی بھی واقعے کے بعد جو ردعمل عوامی سطح پر سامنے آتا ہے اس سے ثابت ہوتا ہے کہ ہمارے معاشرے کی اکثریت آبادی تشدد پسند ہے۔ ایسے لوگ ہر تشدد کا جواب تشدد سے دینے کے حامی ہوتے ہیں۔ وہ تشدد کے خاتمے کے لئے دیر پا لائحہ عمل سے زیادہ وقتی سزا پر یقین رکھتے ہیں۔ ان کی تسکین اس بات پر نہیں ہوتی ہے کہ آئندہ ایسا واقع رونما نہ ہو بلکہ ان کی تسکین تشدد کے بدلے تشدد میں ہوتی ہے۔

وہ یہ بھی سمجھتے ہیں کہ مجرم کے خاتمے سے جرائم ختم ہوجائیں گے حالانکہ ایسا نہیں ہوتا ہے۔ حقیقت یہ ہے جن معاشروں میں تشدد اور قتل کے بدلے قتل ہوتا ہے وہاں یہ جرائم نسل در نسل چلتے ہیں جبکہ جن معاشروں میں تشدد کے خاتمے کے لئے تعلیم و تربیت پر زور دیا جاتا ہے وہاں جرائم کی شرح کم ہوتی ہے۔ علم نفسیات کا یہ کہنا ہے کہ تشدد پسند شخص علاج کے بعد نارمل انسان بن سکتا ہے جبکہ تشدد پسند کسی فرد پر تشدد کرکے اس کو نارمل انسان نہیں بنایا جاسکتا بلکہ اس سے اس کی تشدد پسندی کو مزید تقویت مل سکتی ہے۔

تشدد پسندی ایک جینیاتی بیماری ہے جو نسل در نسل منتقل ہوتی ہے۔ اگر ماں باپ تشدد پسند ہیں تو بچے بھی تشدد پسند ہوں گے اور یہ سلسلہ نسلوں تک جاری رہے گا۔ اگر معاشرہ تشدد پسند ہے تو یہ عمل اگلی نسلوں میں منتقل ہوگا۔ تشدد کو ایک نسل سے دوسری نسل میں منتقل کرنے میں تعلیمی، مذہبی اور سیاسی اداروں کے علاوہ میڈیا کا بھی بڑا ہاتھ ہوتا ہے۔ یہ ادارے تشدد پسند لٹریچر کے ذریعے اس کے فروغ میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔

راقم نے کل ہی ایک اہم میڈیا چینل کے صبح کے پروگرام میں ایک تشدد کے واقعے کا حوالہ دیتے ہوئے خاتون اینکرکو غصے میں لال پیلی ہوتے ہوئے یہ کہتے سنا کہ ”جس پر بھی تشدد ہو اس کو چاہیے کہ جو چیز ہاتھ لگ جائے اس سے سامنے والے کو دے مارے حتی کہ آنکھ نکالنے سے گریز نہ کرے۔ “ ان کا مزید کہنا تھا کہ ”کوئی ہے جو اس بچی پر تشدد کرنے والی خاتون کو لات مارے۔“ حالانکہ اس س قبل وہ یہ بھی کہہ چکی تھی کہ ”تشدد کرنے والی خاتون کے ذہنی علاج کی ضرورت ہے“ اگر وہ اسی بات پر قائم رہتی تو وہ تشدد کی تبلیغ کے گناہ سے بچ جاسکتی تھی۔ جبکہ وہ اس واقعے کے بعد اپنے غصے پر قابو پانے سے قاصر تھی جس کے نتیجے میں بجائے متاثرہ افراد کو اپنی حفاظت کے گر سکھاتی اور تشدد کے خاتمے کے لئے کوئی عقلی اور دانشمندانہ مشورہ دیتی وہ خود تشدد کی تعلیم دے رہی تھی۔

یہ حالت دیگر نام نہاد انسان دوست اور پڑھے لکھے لوگوں کی بھی ہے جو ہر واقعے کے ردعمل میں خود غصے سے بے قابو ہوجاتے ہیں اور انجانے میں تشدد کو فروغ دینے میں اپنا حصہ ڈالتے ہیں۔ یہ ردعمل ہمارا روایتی ردعمل ہے جو بیک وقت معاشرے کے ہر طبقے کی طرف سے آتا ہے۔ یہ ردعمل پڑھے لکھے اور ان پڑھ لوگوں کا ایک جیسا ہوتا ہے۔ گویا ہمارا پورا معاشرہ تشدد پسند بن چکا ہے۔ اس کی وجہ یہ کہ ہم ہر واقعے کے بعد انجانے میں تشدد کے بدلے تشدد کو فروغ دینے میں اپنا حصہ ڈالتے ہیں اور یہ خواہش بھی رکھتے ہیں کہ معاشرے سے تشدد کا خاتمہ بھی ہو۔ اس کی مثال ایسی ہے کہ ہے جیسے ہم روز اپنی زمین پر کانٹے بوتے ہیں اور خواہش کرتے ہیں کہ کانٹوں کی جگہ پھول اگ آئیں۔ یہ این خیال است و محال است و جنون کے مصداق ہے۔

ہمیں بحثیت انسان تشدد سے نفرت کرنا چاہیے۔ اگر ہم تشدد سے نفرتے کرتے ہیں تو ہمیں اس کی تائید کرکے اس کو فروغ دینے میں کردار ادا کرنے سے گریز کرنا چاہیے۔ ہمیں چاہیے کہ تشدد کرنے والوں کے خلاف انتقاماً تشدد کی حمایت نہ کریں۔ ہم تشدد سے نفرت کا اظہار یو ں کریں کہ کوئی بھی شخص کسی بھی حالت میں تشدد نہ کرے حتی کہ تشدد کے بدلے میں بھی تشدد نہ ہو۔ تشدد کو روکنے کی ذمہ داری ریاست کے سپرد کی جائے۔ سزا کا مطالبہ ریاست سے کیا جائے مگر قانون سے مطالبہ کرتے وقت خود سزا کا تعین نہ کریں یعنی یہ نہ کہیں کہ اس کا سر پھاڑا جائے، مارا جائے، الٹا لٹکایا جائے بلکہ یہ کہا جائے کہ جو قانون میں درج ہے وہ سزا دی جائے۔

دوسری طرف تشدد سے نفرت کرتے ہوئے تعلیمی، مذہبی، سیاسی اداروں اور میڈیا میں تشدد کے واقعات سمیت تشدد کی خواہش کے خاتمے کے لئے تبلیغ کی جائے۔ نظام انصاف میں پائے جانے والے سقم کی نشاندہی اور قانون کو جھنجوڑنے کی تگ و دو ضرور کی جائے مگر اس سے زیادہ معاشرے کی تعلیم و تربیت پر زور دیا جائے۔ گھروں میں ایک دوسرے کو تشدد سے روکا جائے۔ اسی طرح ہی ہم تشدد اور جرائم کا دیرپا حل نکال سکتے ہیں وگرنہ یہ سلسلہ یوں ہی جاری رہے گا۔

ہر فرد تشدد کا خاتمہ تشدد میں ڈھونڈتے ہوئے محض تشدد کو فروغ تو دے سکتا ہے اس کا خاتمہ یا انسداد نہیں کر سکتا۔ تشدد کی زنجیر ”چین آف وائیلیس“ کو توڑنا معاشرے کی مجموعی سوچ کو بدلے بغیر ممکن نہیں۔ ہر تشدد کے واقعے کے بعد روائتی ردعمل سے گریز کرتے ہوئے علمی، سائنسی اور عقل و دانش پر مبنی ردعمل دیا جائے تو وہ بہتری کی طرف ایک قدم ثانت ہوسکتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).