پی ٹی آئی حکومت کا ایک سال: اسمبلی کے پہلے برس میں کیا قانون سازی کی گئی؟


پاکستان تحریکِ انصاف کی حکومت کا پہلا سال مکمل ہو چکا ہے تاہم کچھ حلقوں کی جانب سے تنقید کی جا رہی ہے کہ پی ٹی آئی نے اس عرصے میں قانون سازی کے معاملے پر توجہ نہیں دی۔

پی ٹی آئی کے برسرِاقتدار آنے کے بعد قانون سازی کا عمل پارلیمانی کمیٹیوں کی تشکیل نہ ہونے کی وجہ سے تعطل کا شکار رہا تھا۔

اس تاخیر کی وجہ پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کی سربراہی کا تنازع تھا۔ یہ تنازع حکومت کی تشکیل کے چار ماہ بعد دسمبر 2018 میں اس وقت حل ہوا جب حکومت شہباز شریف کو پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کا سربراہ بنانے پر تیار ہوئی۔

تحریکِ انصاف کی حکومت کا پہلا برس: مزید پڑھیے

تحریکِ انصاف: پہلے سال کی بڑی کامیابیاں اور ناکامیاں

’سیاسی تبدیلی نے بھی اہداف حاصل نہیں ہونے دیے‘

’یہ تو عام آدمی کا تیل نکال رہے ہیں‘

پی ٹی آئی یا ن لیگ: نئی ویزا پالیسی کا سہرا کس کے سر؟

کیا قانون سازی کے حوالے سے پاکستان تحریکِ انصاف کی حکومت پر کی جانے والی تنقید کا کوئی جواز ہے؟

اس سلسلے میں بی بی سی نے پی ٹی آئی کے پہلے حکومتی برس میں ہونے والی قانون سازی کا جائزہ لیا اور یہ جاننے کی کوشش کی کہ اس سے قبل مسلم لیگ نواز اور پیپلز پارٹی کی حکومتوں کی کارکردگی اپنے اقتدار کے پہلے سال میں قانون سازی کے معاملے میں کیسی رہی۔

تحریکِ انصاف کا پہلا برس

پاکستان تحریکِ انصاف نے اپنے پہلے برس میں 11 بل منظور کروائے جن میں دو مرتبہ منی بجٹ کے علاوہ 26 ویں آئینی ترمیم شامل ہے۔

وفاق کے زیرِ انتظام علاقوں کی صوبہ خیبر پختونخوا میں انضمام کے لیے لائی جانے والی 26 ویں آئینی ترمیم کو پاکستان کی تاریخ کے اہم ترین قوانین میں سے ایک قرار دیا جا سکتا ہے۔

وفاق کے زیرِ انتظام قبائلی علاقوں کا افغانستان کی دو جنگوں (روس کے خلاف 1980 کی دہائی اور امریکہ کے خلاف 2000 کی دہائی) میں ایک پیچیدہ کردار رہا ہے۔

قبائلی علاقوں کے لوگوں کے پاس وہ حقوق نہیں تھے جو دیگر پاکستانیوں کے پاس تھے اسی لیے وہ جنگ کے سیاق و سباق میں مبینہ ریاستی دراندازی کے خلاف آواز نہیں اٹھا سکتے تھے۔

26 ویں آئینی ترمیم نے ان قبائلی علاقوں کو صوبہ خیبر پختونخوا میں ضم کر کے قبائلی علاقوں کے شہریوں کو اہم حقوق جیسے کہ پاکستان کے عدالتی نظام تک مکمل رسائی دے دی۔

اس کے علاوہ پاکستان تحریک انصاف کی حکومت نے دو بار منی بجٹ پیش کیے جن میں قابل ذکر بات یہ تھی کہ پہلے تو انھوں نے نان فائلر حضرات پر پراپرٹی خریدنے کے حوالے سے کچھ پابندیاں لگائیں تاہم بعد میں انھیں واپس لے لیا۔

پی ٹی آئی کی حکومت نے انتخابات کی شکایات اور پٹیشنز کو تیزی سے حل کرنے کے لیے بینچوں میں اضافہ، ہیوی انڈسٹریز ٹیکسلا کے بورڈ کے اختیارات میں توسیع، اسلام آباد ہائی کورٹ کے ججوں کی تعداد میں اضافہ، اسلام آباد اور سینیما گھروں میں تمباکو نوشی کے حوالے سے بل منظور کروائے۔

پاکستان

مسلم لیگ ن کی حکومت 2013 میں برسراقتدار آئی تھی اور وزیراعظم نواز شریف کی حکومت نے سب سے پہلے ‘فنانس بل 2013’ یعنی بجٹ منظور کروایا

مسلم لیگ نون کا پہلا سال

مسلم لیگ نون کی حکومت 2013 میں برسراقتدار آئی تھی اور وزیراعظم نواز شریف کی حکومت نے سب سے پہلے ’فنانس بل 2013‘ یعنی بجٹ منظور کروایا، اس بل کی خصوصیت یہ تھی کہ تاریخ میں پہلی دفعہ پارلیمنٹ کے ایوان بالا کی 21 سفارشات کو بجٹ بل میں شامل کیا گیا تھا۔

مسلم لیگ کی حکومت نے انسداد دہشت گردی کے قانون میں ترمیم کے لیے بل منظور کیا جس میں دیگر اقدامات کے علاوہ قانون نافذ کرنے والے اداروں اور سکیورٹی فورسز کو یہ اختیار دیا گیا کہ وہ کسی شخص کو بھی تین ماہ کے لیے حفاظتی تحویل میں لے جا سکیں گے۔

اس کے بعد اس ایکٹ میں دوسری بار ترمیم بھی اسی سال پیش کی گئی جس میں دہشت گردی کی فنڈنگ کی روک تھام کی غرض سے جائیداد کی ضبطی کی شقیں تھیں۔ اس میں فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کی طرف سے کی گئی کمزوریوں کی نشاندہی پر بھی حکومت نے قانون سازی کی۔

پھر اسلام آباد میں بار کونسل کے قیام کے لیے ترمیمی بل پاس کیا گیا (اس سے پہلے وفاقی دارالحکومت کے وکلا کی نمائندگی پنجاب بار کونسل میں ہوتی تھی)۔

فیڈرل کورٹ ایکٹ 1937 کو ختم کرنے کے لیے بل پاس کیا گیا کیونکہ اس کی شقیں فاضل ہو چکی تھیں۔ نیشنل جوڈیشل (پالیسی میکنگ) کمیٹی ترمیمی بل 2013 کے تحت چیف جسٹس کو قومی جوڈیشل پالیسی بنانے والی کمیٹی کا حصہ بنانے کی شق ڈالی گئی۔

’دی لا اینڈ جسٹس کمیشن آف پاکستان‘ ترمیمی بل میں کمشن میں تعیناتی، فنڈنگ اور غیر ملکی کمشنز کے ساتھ یادگاریں (ایم او یوز) پر دستخت کرنے کی اجازت کی شقوں کی ترمیم ہوئی۔

’فیڈرل پبلک سروس کمشن ایکٹ‘ میں بھی ترمیم ہوئی جس کے تحت کمیشن کو یہ اجازت دی گئی کہ وہ قومی مفاد کو نظر میں رکھتے ہوئے اپنی مددت ملازمت پوری کرنے والے افراد کو دوبارہ ملازمت دے سکیں۔

’دی سرویینگ اینڈ میپنگ بل 2013‘ کے تحت ’سروے آف پاکستان‘ کو ’نیشنل میپنگ ایجنسی‘ میں تبدیل کردیا گیا۔ اگر پاکستان میں کوئی بھی کمپنی سروے یا نقشے کا کام کرنا چاہے گی اسے اپنے آپ کو اس ایجنسی میں ریجسٹر کروانا ہو گا۔

مسلم لیگ نواز کے پہلے سال کا سب سے متنازع بل ’تحفظ پاکستان بل 2013‘ تھا۔ اس بل کے تحت ملکی تحفظ کے لیے قانون نافذ کرنے والے ادارے 90 روز کے لیے کسی بھی مشتبہ شخص کو زیر حراست رکھنے کی اجازت تھی اور ان پر لازم نہیں تھا کہ وہ یہ معلومات دیں کہ ملزم کو زیر حراست کس مقام پر رکھا گیا ہے۔

پاکستان

پیپلز پارٹی کی حکومت نے اپنے پہلے سال میں بچٹ کے علاوہ صرف تین ایکٹ پاس کیے تھے۔

اس کے علاوہ سپیشل کورٹس کو پبلک نہ کرنے کی اجازت لی گئی۔ سپیشل کورٹس کو یہ بھی اجازت دی گئی کہ اگر کسی مجرم نے ’نیچرلائزیشن‘ کے عمل سے پاکستان کی شہریت حاصل کی ہے تو عدالت ان کی شہریت منسوخ کر دے۔

11 واں اور آخری بل میں سروسز ٹرائبیونل ایکٹ میں ترمیم کی گئی جس کے تحت فیڈرل سروس ٹرائبیونل کو اپنے بجٹ پر مکمل اختیار دیا گیا اور اپنے ممبران اور چیئرمین کی تعیناتی کا اختیار بھی دیا گیا۔

پاکستان پیپلز پارٹی کا پہلا سال

پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت نے اپنے دورِ حکومت میں کئی اہم کام کیے جیسے کہ 18 ویں اور20 ویں آئینی ترامیم (جن سے 1973 کا آئین بحال ہوا)، پانچ رکنی الیکشن کمیشن کی تشکیل اور خواتین کے تحفظ کا بل وغیرہ شامل ہے مگر یہ حکومت اپنے دور کے پہلے سال میں خاطر خواہ قانون سازی نہیں کر سکی تھی۔

اس حکومت نے اپنے پہلے سال میں بجٹ کے علاوہ صرف تین ایکٹ پاس کیے تھے۔

ان میں انڈسٹریل ریلیشن ایکٹ 2008 شامل تھا جس کا تعلق ٹریڈ یونینز اور ملازمین کے حقوق سے تھا اس کے علاوہ قومی ائیر لائن پی آئی اے کے موجودہ معاہدوں اور ٹریڈ یونین سے متعلق قانون بنایا گیا۔

پیپلز پارٹی کی حکومت کا پہلا بل ’ریپریزنٹیشن آف پیپل ایکٹ 1976‘ میں ترمیم کا تھا۔ جس میں اس سے پہلے پاکستان کے صدر اور فوجی آمر جنرل پرویز مشرف نے صدارتی آرڈینینس کے ذریعے ترمیم کی تھی۔

پیپلزپارٹی نے اسے ختم کرنے کے لیے یہ نئی ترمیم پیش کی جس میں یہ کہا گیا تھا کہ پرویز مشرف کی ترمیم کا مقصد یہ تھا کہ ’پاکستان پیپلز پارٹی پارلیمینٹیرینز اور پاکستان مسلم لیگ نواز کے ملک سے باہر موجود مرکزی قیادت کو 2002 کے عام انتخابات میں حصہ لینے سے روکا جائے۔‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32550 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp