سماجی و سیاسی اختلافات اور نا انصافی: تباہی کے اسباب


موجودہ دور میں دولت معروضی طور پرسکوں اور نوٹوں کی شکل میں ملتی ہے اور اس کو اسی شکل میں جمع اور لین دین میں استعمال کیا جاتا ہے۔ کاغذ کا نوٹ ایجاد ہونے سے پہلے مال و دولت کو سونا اور ہیرے جواہرات کی شکل میں جمع کیا جاتا تھا۔ اب کاغذ کا نوٹ یا کانسی کا سکہ دے کر سونا سمیت سب کچھ خریدا جا سکتاہے۔ کاغذ کے نوٹ اور دھات سے بنے سکے کی اس اہمیت کی وجہ ہم سب کا ان پرمشترکہ اعتماد اور یقین ہے۔ اور اس اعتماد میں پختگی حکومت کی ضمانت کی وجہ سے آتی ہے۔ اگر یہ ضمانت اور اعتماد نہ ہو توبنکوں کے یہ نوٹ اور چیک صرف کاغذ کے ٹکڑے ہیں اورسکے صرف دھات۔

کسی بھی معاشرہ میں مختلف طبقات کی موجودگی ایک حقیقت ہے۔ طبقات جو کہ امیر اور غریب، چھوٹے اور بڑے گھروں میں رہنے والے، مختلف زبانیں بولنے والے، مختلف خداؤں کو ماننے والے، مختلف رنگ ونسل سے تعلق رکھنے والے، ریگستانوں اور پہاڑوں، میدانوں اور دریاؤں کے باسی اور سب سے اہم، مختلف نظریات اور گروہوں کی شکل میں مختلف قائدین اور سیاسی پارٹیوں سے وابستہ، سب ایک بہت بڑی سچائی ہیں۔ ان بہت سے گروہوں کوجو چیز معاشرہ، ایک ملک یا ایک قوم کی شکل میں جوڑ کر رکھتی ہے، وہ ہے، انسانوں کا ایک دوسرے پر مشترکہ طور پر اعتماد اوریقین۔

کاغذ کے نوٹ کی طرح، ملک کی حکومت اور ادارے اس اعتماد کے ضامن ہوتے ہیں اور ان کے انصاف پر مبنی رویے عوام کے رویوں کے ساتھ مل کر مضبوط معاشرہ کی بنیاد رکھتے ہیں۔ اور معاشرہ میں موجود طبقات کے ایک دوسرے سے تعلقات بڑھتے ہیں۔ یہ اعتماد اور ضمانت وہ سیمنٹ ہے جس سے مختلف اینٹوں کی مضبوط حفاظتی دیوارکھڑی کی جاتی ہے۔ یہ سیمنٹ بہت مضبوط ہوتا ہے۔ لیکن اگر عوام کا ایک دوسرے پر اعتماد مجروح ہو جائے، حکومت بھی انصاف کا ترازو چھوڑ کر فریق بن جائے اور ادارے ضامن کی بجائے حصہ دار، تو اعتماد ختم ہو جاتا ہے۔ سیمنٹ ریت میں تبدیل ہو جاتا ہے، جس سے یقین کی حفاظتی دیوارتیار نہیں ہو سکتی اور معاشرہ بکھرنا شروع ہو جاتا ہے۔

ہمارے ملک میں معاشرہ کی ان اکائیوں کے بارے میں ہمارے تصورات اور عقیدے جھوٹ پر مبنی ہیں۔ ہم معاشی نا ہمواری کے ساتھ قدرتی طور پر عطا شدہ جغرافیائی حدود، مذہب، خاندان یا رنگ و نسل کی جھوٹی انائیت کے سہارے برتری کے دعویٰ دار ہیں۔ ہمارے دوسروں کے بارے میں خیالات بھی عجیب و غریب ہیں کہ وہ علم، عقل اور ذہانت میں کم تر ہونے کی وجہ سے اعلیٰ اختیارات اور ذمہ داریوں کے قابل نہیں ہیں۔ ساتھ ساتھ ہم حاکم اور محکوم میں مستقل دوری اور فاصلہ کے بھی قائل ہیں۔

سچ یہ ہے کہ انسان مساوات پر مبنی معاشرہ سے لے کر ہر قسم کے ظالم وجابر بادشاہوں کے مطلق العنان ادوارمیں زندگی گزار چکا ہے۔ ہر دور میں انسان نے جینے کے لئے مختلف رویے اپنائے ہیں۔ یہ خیال کہ رنگ برنگا، نا ہموار معاشرہ انسان کی فطرت کی صحیح عکاسی کرتا ہے، سچ نہیں ہے۔ انسانوں میں یہ اونچ نیچ تقریباًدس ہزار سال پہلے زرعی معاشرہ کے وجود میں آنے کے بعد آئی۔ اس سے پہلے، لاکھوں سال کی زندگی میں جب انسان شکار کھیل کر یا جنگل سے خوراک اکٹھی کرکے گزارہ کرتا تھا تو وہ معاشرہ مساوات پر مبنی تھا اس میں کوئی بڑا چھوٹا نہیں تھا۔ اس دور میں خوراک بانٹی جاتی اورتحائف کا تبادلہ ہوتاتھا اور کسی قسم کی عہدوں کی تقسیم نہیں تھی۔

زرعی معاشرہ کے وجود میں آنے کے بعد ملکیت اور زیادہ سے زیادہ کے حصول کے لالچ نے انسان میں ناہمواریاں پیدا کیں۔ انسان قبیلوں میں تقسیم ہوا۔ اجارہ داری اور قبضہ قائم ہوا، بڑا چھوٹا، امیر غریب اور آقا غلام کی تقسیم کا رواج ہوا۔ یہ تقسیم انسان کی فطرت میں شامل نہیں۔ مجبوری کی حالت میں انسان اس کے ساتھ گزارہ کرتا رہا ہے، لیکن اس نے اس نا انصافی کو تبدیل کر کے اپنے اصل کی طرف واپسی کی جدوجہد بھی جاری رکھی ہے۔

اخلاقیات، شرم، ایثاراور محبت اس ناہموار ی کے سب سے بڑے مخالف ہیں۔ انسان کے یہ جذبات اس کو مجبور کرتے ہیں کہ وہ جانوروں کی طرح کمزورکو اکیلا چھوڑسکتا اور نہ ہی اس کو مار کر کھا سکتا ہے۔ جدید دور میں جمہوری رویوں کے پنپنے کی وجہ سے انسان میں سماجی اور معاشی ناہمواری کے خلاف مزید مزاحمت کا آغاز ہوا۔ جمہوریت سے طاقتور کے علاوہ کمزور کی مجبوری اور ضرورت کوبھی اہمیت ملنا شروع ہوئی۔

جمہوریت میں یہ سوال اٹھنا شروع ہوئے کہ کیا ہم تمام ایک دوسرے کے حریف اورمخالف ہیں؟ ہر وقت دوسرے کے مقابل کھڑے ہیں یا ہم اپنی اور دوسروں کی ضروریات کا خیال رکھ کر ایک دوسرے کے مددگار ہیں؟ کیا ہم کمزور پر غلبہ کر کے اپنی ترقی چاہتے ہیں یا مل جل کر ایک دوسرے کے مددگار بن کر برابر کے حصہ دار بننا چا ہتے ہیں؟ بنیادی سوال یہ ہے کہ کیا ہم کم ہوتے وسائل پر لڑائی کر کے قابض ہونا چاہتے ہیں تا کہ طاقتور زیادہ کھا جائے یا ہم مل جل کران وسائل میں اضافہ کر کے بانٹنا چاہتے ہیں؟

نظام شہنشاہی کے زبردست ہمدرد اور شاہ پرست، تھامس ہوبز کے فلسفہ کے مطابق ”کیا ہم سے ہر کوئی ہر کسی کے خلاف ہمیشہ جنگ جاری رکھنا چاہتا ہے؟ کیا ہم جانوروں کی طرح خوراک، پانی، علاقہ، مخالف جنس، گھونسلہ اور کھچار کے لئے ہمیشہ لڑنا چاہتے ہیں؟“ اوراس کے ہی کہنے کے مطابق ”ہم میں سے طاقتورگروہ اپنی طاقت کے بل بوتے پر اس لڑائی کو جیتنا چاہتا ہے۔ لیکن یاد رکھیں! اس جیت کے بعد ہماری زندگی بھی جنگل کے قانون کے مطابق بری، اکیلی، خراب، کم اور حیوانوں جیسی ہو جائے گی کہ کیونکہ کمزور کی اگلی نسل یا وہ خود تیاری کے بعد جوابی حملہ کرے گا اور غالب نہ بھی آسکا توطاقتور کو زخمی اور کمزور کر جائے گا، کسی اور کا شکار بننے کے لئے۔“

چونکہ ہم سب ایک ہی ملک کے شہری ہیں ہم نے اکٹھے ہی رہنا ہے۔ ہم جس بھی نسل، عقیدے، قوم، علاقے سے تعلق رکھتے ہوں، کسی بھی سیاسی پارٹی کے ممبر ہوں یا کسی بھی ادارے میں ملازم، ہمارے مسائل سانجھے ہیں۔ ہمارا گروپ چاہے جتنا بھی طاقتور اور مضبوط ہو، وہ ہمیشہ ہماری حفاظت اور بقا کاضامن نہیں بن سکتا۔ ہم سب مل کر ہی زندہ رہ سکتے ہیں اور ایک دوسرے کی مدد سے ہی آگے بڑھ سکتے ہیں۔

بہت سے تجزیات یہ بتاتے ہیں کہ معاشرہ میں موجود مختلف طبقات کے درمیان تعلقا ت اگر برابری، دوستی اور بھائی چارہ پر مبنی ہوں تو معاشرہ بہت ترقی کرتا ہے۔ اگر ان تعلقات میں اونچ نیچ زیادہ ہو تواختلافات بڑھتے ہیں جو معاشرہ کے لئے نقصان دہ ہوتے ہیں۔ جمہوری ادارے اگر کمزور ہوں تو معاشرہ میں طبقاتی ناہمواری بھی بہت زیادہ ہوتی ہے جو کہ گروہوں کے درمیان چھینا جھپٹی اورلڑائی جھگڑے کا باعث بنتی ہے۔ تشدد کا رجحان بڑھتا ہے جس سے زندگی مشکل اور کمزور ہوجاتی ہے۔

لوگ اپنی حیثیت اور رتبہ کے بارے میں زیادہ فکر مند رہتے ہیں۔ لوگ ایک دوسرے پر اعتماد نہیں کرتے، تعلیمی اداروں میں بھی غنڈہ گردی اور مارپیٹ کا رواج بڑھتا ہے۔ بچوں کی ذہنی اور جسمانی نشونما متاثر ہوتی ہے، ذہنی پسماندگی اور بیماریوں میں اضافہ ہوتا ہے۔ حکومتیں قوانین سخت کرتی جاتی ہیں، سزائیں بڑھادی جاتی ہیں۔ ان مشکلات کی وجہ سے لوگ اپنی کمائی کا بہت سا حصہ دشمنی، لڑائی اوراختلافات پر خرچ کر دیتے ہیں۔

ہمیں سوچنا چاہیے ترقی یافتہ معاشروں میں جمہوریت کی وجہ سے ایک دوسرے پر اعتماد اور یقین بڑھا ہے۔ ہر کسی کو برابر کے مواقع ملتے ہیں، آگے بڑھنے اور ترقی کرنے کے۔ کمزور کی بھی ضروریات پوری ہو رہی ہیں اور وہ بھی مناسب سہولیات کا حقدار ہے۔ جمہوریت ہر کسی کی آزادی اور خود مختاری کی ضامن ہے۔ عوام کو بولنے، لکھنے اور کام کرنے کی مکمل آزادی دیتی ہے۔ ہر علاقے، نسل اور مذہب کے پیروکار کو برابر کے حقوق حاصل ہیں۔ نظریاتی مخالف کو جینے اور اپنے نظریہ کی وکالت کا پورا حق ہے۔ اور اگر وہ اس کو پھیلانے میں کامیاب ہو جاتا ہے تو قوانین میں تبدیلی اور حکومت کرنے کا بھی حقدار ہو سکتا ہے۔

اگرہم بھی ترقی کی منزل پانا چاہتے ہیں تو ہمیں بھی جمہوری روایات کو پنپنے کا موقع دینا چاہیے۔ ہمیں برابری، دوستی اور بھائی چارہ کو فروغ دینا پڑے گا۔ مخالف کے نظریات اور عقائد کو عزت دینا پڑے گی۔ ہر کسی کو سیاسی اور نظریاتی کام کی مکمل آزادی دینا پڑے گی۔ پابندیاں مشکلات میں اضافہ کرتی ہیں۔ مخالف پر سختی، دشمنی کو جنم دیتی ہے۔ سب کچھ سمیٹ کر ایک کو نہیں دیا جاسکتا،سب کو برابر کا حصہ دینا پڑے گا۔ اس سے ہی تمام گروہوں اور پارٹیوں میں ایک دوسرے پر اعتماد اور یقین میں اضافہ ہوگا۔ حکومت اور اداروں کو اس کی ضمانت دینا ہوگی کہ وہ انصاف اور غیر جانبداری سے تمام گروہوں کے مفادات کی حفاظت کریں گے، پھر ہی ہمارا ملک ترقی کر سکتا ہے۔

(اس مضمون کی تیاری میں یونیورسٹی آف آکسفورڈ کے پروفیسر Dany Dorling کی کتاب Injustice: Why social inequality still persists۔میں Richard Wilkinson اور Kate Pickett کے لکھے گئے ابتدائیہ سے مدد لی گئی ہے۔ )


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).