برگد کی چھاؤں


بابر ریاض کی مقبولیت اور اس کی پزیرائی پر کوئی شک نہیں تھا۔ اسکی شخصیت بلاشبہ کرشماتی تھی۔ ایک کامیاب بزنس مین جو تین انگلش کتابوں کا مصنف بھی تھا۔ آرٹ ادب اور روحانیت اس کا پسندیدہ مضمون تھا۔ شاعری اور نثر لکھنے میں اسے ملکہ حاصل تھا۔ سوشل لائف میں سبھی کے لیے وہ انسپائریشن اور رول ماڈل تھا۔

سوشل میڈیا پر جب وہ بات کرتا تو گفتگو میں گوہر ملتے تھے۔ اللہ نے اسے یہ کمال و ہنر اس کی خوش خلقی اور بندوں سے محبت کرنے پر عطا کیے۔ پھر اس نے اپنا کئیریر بنانے میں جو محنت مشقت کی، بھوک، فاقے اور سماجی ذلتیں اُٹھائیں۔ وہ کبھی بھول نہ سکا۔ صحیح معنوں میں وہ سیلف میڈ انسان ہے۔ وہ اپنے ماضی کو کسی سے چھپاتا نہیں تھا۔ بابر ریاض کے بارے میں کسی بد خواہ نے ہوائی اُڑائی کہ ایک سابق حکمران کی منی لانڈرنگ کے نیٹ کو کامیابی سے چلانے میں اس کا ہاتھ ہے۔ کسی نے کہا کہ حضور والا شہر کے قیمتی پلاٹس پر قبضہ گروپ کے سرپرست اعلیٰ ہیں۔ لیکن بابر ریاض ہمیشہ ایسے الزمات کو ہنس کے ٹال دیتا۔

وہ بڑے ناپ تول کے خرچ کرتا تھا۔ فضول خرچی اور دیگر اسراف اسے پسند نہیں تھے۔ لیکن دوسروں پر خرچ کرنا اسے پسند تھا۔ رشتہ داریوں اور اپنے تین چھوٹے بھائیوں پر دولت خرچ کرتے وہ کبھی نہ ہچکچایا۔ قابل رشک صحت کے باوجود وہ صبح سویرے باغ جناح پہنچ جاتا۔ گھنٹہ بھر کی واک و یوگا کرنا اس کا معمول تھا۔

اسے زندگی میں صرف ایک دکھ اور ملال تھا۔ اس کے بھائی عملی زندگی میں کامیاب نہ ہوسکے۔ ماں باپ کے مرنے پر اس نے اپنے بھائیوں کو پالا پوسا ان کو تعلیم دلوائی لیکن اس کے انتہائی اعلیٰ سیاسی اور سماجی اشرافیہ سے تعلقات بھی اس کے بھائیوں کو ملازمت نہ دلوا سکی۔ وہ تینوں بے روزگار تھے اور آج بھی ہیں فرق صرف یہ پڑا کہ پہلے وہ کسی نہ کسی ادارے میں ملازمت کے لیے بھاگ دوڑ کرتے تھے اب وہ اس مشقت سے دور رہنے لگے تھے کیونکہ گلبرگ میں بابر ریاض کا چار کنال کا بنگلہ اور اس میں جملہ سہولیات نے ان کو سہل پسند اور بے فکری میں مبتلا کر دیا تھا۔ وہ تینوں حد درجہ نکمے اور نکھٹو تھے۔ گھر میں سارا دن کھاتے پیتے اور پڑے رہتے تھے۔ پھر بابر ریاض نے ان کی شادیاں کیں اور بنگلے کے تین حصے ان کے حوالے کر دیے۔ بابر ریاض اپنی اس نیکی پر خوش تھا۔ وہ خود اپنے بزنس فلیٹ میں رہتا تھا۔ اور اس کے بیوی بچے لندن میں قیا م پزیر تھے۔

وقت تیزی سے گزرتا چلا جا رہا تھا۔ کہ ایک دن اسے پتہ چلا کہ اس کے بھائیوں نے بنگلہ کے باقی حصہ پر بھی قبضہ کر لیا ہے۔ اور بنگلہ کی ملکیت کا دعویٰ کر دیا ہے۔ کیس عدالت میں جا لگا۔ اسے یقین نہ آیا کہ اس نے اپنے بھائیوں کے لیے کیا کچھ نہیں کیا۔ اور انہوں نے اس کا یہ صلہ دیا۔ اسے بہت صدمہ اور ذہنی کوفت ہونے لگی۔ بات ایک بنگلہ کی نہ تھی بات سماج میں رہنے والے لوگوں کی تھی۔ جو طرح طرح کی بولیاں بول رہے تھے۔

بابر ریاض بزنس انڈسٹری میں ایک بڑا نام تھا۔ لوگ اس کی شرافت اور ایمانداری کو دل سے مانتے تھے۔ لیکن ایسی افتاد آنے پر اس کی گڈول کو شک سے دیکھا جانے لگا۔ چونکہ بات پھیل چکی تھی۔ لوگ اور اس کے دوست اس کو مشورہ دینے لگے کہ پولیس کو پیسہ لگاؤ اور ان کا دماغ درست کراؤ۔ کوئی کہتا کہ ان نمک حراموں سے ہمیشہ کے لیے جان چھڑاؤ اور اعلان لاتعلقی کرو۔ لیکن بابر ریاض انتہائی تحمل اور خامشی سے سنتا اور آگے بڑھ جاتا۔

سوچ بچار کے بعد اس نے قانونی جنگ لڑنے کا فیصلہ کر لیا۔ اسے رہ رہ کر دلیپ کمار یاد آنے لگا کہ اس کے بھائیوں نے بھی اس کے ذاتی مکان پر قبضہ کر کے اسے اور اس کی بیوی سائرہ بانو کو اس مکان سے بے دخل کر دیا تھا اب بڑھاپے میں دونوں میاں بیوی عدالتوں کے دھکے کھاتے پھرتے ہیں۔ دلیپ کمار نے بھی اپنے نکھٹو بھائیوں پر ترس کھا کے اپنے گھر پناہ دی تھی۔

بابر ریاض کو بھائیوں کے اس رویے نے بستر سے جا لگایا۔ برادرن یوسف کے قصے اس کے سامنے اسکرین کی طرح چلتے محسوس ہوتے تھے۔ دوسری طر ف اس کے بھائی مظلوم بن کے سوشل میڈیا کے سہارے کھڑے ہوگئے۔ میڈیا نے ان مظلوموں کو پورا سپورٹ کیا سوشل میڈیا فیس بک اور ٹویٹر پر ٹاپ ٹرینڈ ”Suport Innocent Brothers“ کی مہم چل نکلی۔

بابر ریاض کے مخالفین جو راتوں رات سامنے نکل آئے تھے وہ اب اس کے بھائیوں کے دوست بن چکے تھے۔ قانونی امداد کے فری لیگل ایڈ ادارے اور ہیومن رائٹس کے لوگ بنگلے میں آنے جانے لگے۔ حتیٰ کہ یو ٹیوبرز او ر ویب ٹی وی والے اس کے بھائیوں کے انٹرویوز کرنے لگے اور یوں وہ چار کنال کا بنگلہ پاکستان کے چاروں کونوں اور دنیا بھر میں اس کی باز گشت سنائی دینے لگی۔

بابر ریاض اب دنیا کے سامنے بُرا ہو چکا تھا۔ اس کا کردار اس کی جملہ احسن خوبیاں سب مشکوک ہو چکی تھیں۔ مستقل مزاجی سے بولا گیا جھوٹ سچ ثابت ہو رہا تھا۔ بابر ریاض کا کمزو ر سچ بے وقعت ہوتا جا رہا تھا۔ حیرت انگیز طور پر وہ اللہ پر توکل و یقین کیے بیٹھا تھا۔

لوگوں نے دبے دبے لفظوں میں اسے باقاعدہ ملزم اور ظالم کہنا شروع کر دیا۔ لیکن اسے جیسے کوئی پروا نہ ہو۔ ایک دن اس کا بلڈ پریشر اچانک لو ہو گیا۔ اسے ایمرجنسی وارڈ میں لے جایا گیا۔ علاج شروع ہوا۔ بھائی دوڑے چلے آئے۔ وہ آدھی رات تک کمرے کے باہر موجود رہے شرمندگی ان کے چہروں سے عیاں تھی۔

ایک ہفتہ بعد ہائی کورٹ نے بابر ریاض کے حق میں فیصلہ کر دیا اور اس کے بھائیوں کو دھوکا او ر فراڈ میں اندر کر دیا۔ عدالتی اہلکاروں نے ان کا سامان بھی باہر لا پھینکا۔ بابر ریاض کو اس عدالتی فیصلے سے گویا نئی زندگی مل گئی۔ وہ دو بارہ جی اُٹھا۔ بنگلہ پر پہنچا تو اسے ویران پا کے اس کو بہت دکھ ہوا۔ دوسرے دن بابر ریاض دوبارہ اپنی روٹین میں داخل ہو گیا۔ اس کے مخالفین غائب ہو چکے تھے۔ سوشل میڈیا پر اس کے خیر خواہ اور فرینڈز بھی دوبارہ زندہ ہو کے اس کی ہاں میں ہاں ملا چکے تھے۔

تیسرے دن چاند رات تھی۔ رات کو حسب معمول اس نے تمام دوستوں کو چاند اور عید کی مبارک باد کی پوسٹ لگائی اور دوسروں کی پوسٹ پر خیر مقدمی کمینٹس کرنے شروع کیے کہ اچانک اسے اپنے بھائیوں کا خیال آیا۔ اس نے سوچا کہ اے کاش اس کے بھائی ایسا نہ کرتے آج ان کے بیوی بچے در بدر نہ پھرتے۔

کچھ سوچ کے اس نے گاڑی نکالی اور سیدھا پولیس اسٹیشن جا پہنچا۔ کچھ دیر بعد اس کے بھائی بابر ریاض کے سامنے شرمندہ او ر سر جھکائے کھڑے تھے۔ اس نے ایک نظر ان پر ڈالی اور ایک کاغذ پر دستخط کر کے ایس ایچ او کے حوالہ کیا۔ اور اپنے بھائیوں کے قریب آ کے بھرائی ہوئی آواز میں کہا کہ ”میں نے تم لوگوں کو اپنی ضمانت پر رہا کرا دیا ہے اب تم میرے ساتھ واپس گھر چلو۔ تمھارا سامان واپس رکھو ادیا ہے۔ تمھارے بچے تمھارا انتظار کر رہے ہیں اور ہاں کل عید ہے اور عید کی نماز ہم اکٹھے پڑھیں گے۔ “

تینوں پھٹی پھٹی نظروں سے بڑے بھائی کو دیکھنے لگے۔ بڑے بھائی نے چہرے پر مسکراہٹ لاتے ہوئے شفقت سے ان کے سروں پر ہاتھ پھیرا۔ تینوں فرط محبت سے بڑے بھائی کو لپٹ گئے۔ واپس جاتے گاڑی میں چاروں کی آنکھیں نم تھیں اور بابر ریاض کو فیض صاحب کی نظم یاد آنے لگی کہ

مجھ کو شکوہ ہے میرے بھائی کہ تم جاتے ہوئے
لے گئے ساتھ مری عمرِ گزشتہ کی کتاب

اس میں تو میری بہت قیمتی تصویریں تھیں
اس میں بچپن تھا مر ا اور مرا عہد ِ شباب

اس کے بدلے مجھے تم دے گئے جاتے جاتے
اپنے غم کا یہ دمکتا ہوا خوں رنگ گلاب

کیا کروں بھائی یہ اعزاز میں کیونکر پہنوں
مجھ سے لے لو مری سب چاک قمیضوں کا حساب

آخری بار ہے، لو مان لو اک یہ بھی سوال
آج تک تم سے میں لوٹا نہیں مایوسِ جواب

آ کے لے جاؤ تم اپنا یہ دمکتا ہوا پھول
مجھ کو لوٹا دو مری عمرِ گزشتہ کی کتاب


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).