عالمی ضمیر اور ہماری امیدیں


دنیا جذبات اور جائز حقوق کی بنیاد پر نہیں مُڑا کرتی اور نہ ہی عالمی ضمیر نام کی کوئی چیز ہوتی ہے۔ کمزور، غریب، قرض دار اور حاشیہ نشین ریاستوں کا کوئی حامی نہیں ہوتا۔

آج کی دنیا میں من مانی کرنے کے لیے فری ٹریڈ اکانومی، کارپوریٹ سیکٹر ڈیویلپمنٹ، جمہوری عمل کے فروغ، قومی یکجہتی، ہنرمند افرادی قوت، تکنیکی مہارت، ایجادات، زیادہ قومی پیداوار، مضبوط معیشت، ابلاغ، جدید اسلحہ، مؤثر گروہ بندی، بین الاقوامی تجارت اور سرمایہ کاری بڑھانے کے بعد بروقت ایکشن لیا جاتا ہے۔

خوشامدوں، اجرت پر وقتی خدمتوں اور عقیدوں کے پسپا ہوتے مراکز سے جڑے آسرے اور لارے ہمیشہ بے آسرا کرتے ہیں۔ چاند بس وہی چڑھاتا ہے جس کا سورج چڑھا ہو۔ جو حریف کی ہر کمزوری کا فائدہ اٹھانا جانتا ہو اور جسے اپنی ذات سے زیادہ اپنی قوم پیاری ہو۔

ریاستیں اور ان سے جڑی قومیں ابابیلوں اور بد دعاؤں سے نہیں بلکہ مخلاف کو مسلسل بکھیر کر اور خود کو یکجا کر کے بصیرت پر مبنی بروقت فیصلوں، عالمی دوستیوں، سیاسی چالوں، رنگبازیوں اور مسلسل کوشش سے بازی جیتتی ہیں۔ جنگ جذبے کے ساتھ ساتھ مضبوط معیشت، سرمائے اور بھرے ہوئے خزانے سے دن دیہاڑے لڑی جاتی ہے۔ مانگے تانگے کا کھا اور بچا کر چھپ کر حملے کرنا اور پھر پسپا ہونا عالمی ہزیمت اور تنہائی کے سوا کچھ نہیں دیتا۔

امن و انصاف کی خواہش اچھی بات ہے لیکن امن بھی یک طرفہ نہیں ہوتا اور انصاف کبھی مفت نہیں ملا کرتا۔ یک طرفہ صرف کم ہمتی اور بزدلی ہوتی ہے اور مفت میں صرف نا انصافی اور خواری ملتی ہے۔

اپنی ہر کوشش میں ناکامی کے بعد کشمیر کے لیے بین الاقوامی برادری سے امیدیں پالے ہم پاکستانی 73 سال بعد کہاں کھڑے ہیں۔ پرامن احتجاج اور دفاعی سفارتکاری ضروری ہے اور دیر سے سہی ہم کر بھی رہے ہیں لیکن بحیثیت ہم اقوامِ عالم سے اب تک کیا حاصل کر پائے ہیں اور آگے کیا حاصل کر پائیں گے اس کا اندازہ لگانا بھی کوئی مشکل کام نہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).