شام کے ”ذوی لیاقت“ افراد


دوستو، اس خادم کے خیال میں ہم پاکستانیوں کو اپنی تاریخ کے سبب ایک اہم فوقیت حاصل ہے جس کا ادراک ہم کم کم کر پاتے ہیں۔ احساس ہوتا ہے تو ملک سے باہر جا کر۔ مثلاً، اردو کی حروف شناسی یا کم از ناظرہ قران کی تعلیم ہم میں سے بہتوں نے پائی ہے۔ اس کا فائدہ عرب ممالک، ایران اور افغانستان اور کسی حد تک چین کے صوبہ سنکیانگ میں معلوم ہوتا ہے کہ مسافر کم از کم عمارتوں کے بورڈ اور سڑکوں کے نام پڑھ لیتا ہے اور چند الفاظ پر غور کرکے کچھ نہ کچھ مطلب بھی پا لیتا ہے۔

تسلیم، کہ اس میں بھی مضحکات کے وسیع امکانات ہیں جن کا یہ خادم گاہ بگاہ شکار ہوتا رہتا ہے اور قارئین کی خدمت میں ان کی روداد بھی چیدہ چیدہ پیش کرتا رہتا ہے۔ وہ دوست جنہیں کسی نہ کسی حد تک انگریزی پڑھنے کا موقع ملا ہے، وہ انگریزی، ہسپانوی، جرمن، فرانسیسی، پرتگالی، ترکی بولنے والے ممالک میں اٹکل سے کچھ کام چلا سکتے ہیں، جیسا کہ یہ خادم ان میں سے اکثر زبانوں سے نابلد ہونے کے باوجود چلاتا رہا ہے۔ اس خادم کی خوش قسمتی کہ دیو ناگری خط جانتا ہے چنانچہ بھارت کے اکثر علاقوں میں بہ سہولت اور بنگلادیش میں بہ چندے دقّت راستہ ڈھونڈ لیتا ہے۔

سریلی یا روسی حروف کسی دور میں کھیل کھیل میں سیکھ لیے تھے سو قرغزستان، تاجکستان، روس، قازقستان وغیرہ میں کام آئے۔ لیکن جب چین یا تھائی لینڈ جانا ہوتا ہے تو یہ خادم اپنی تمام تر تعلیم اور زبان دانی کے باوجود کسی ان پڑھ بلکہ گونگے بہرے کے درجے پر آجاتا ہے اور اشاروں کی زبان کے سوا اظہار مطلب کا کوئی وسیلہ نہیں رہتا۔

اس طویل جملہ معترضہ کا لبِ لباب یہ ہے کہ کسی زبان یا رسم الخط کا نہ آنا اس زبان کے علاقے میں انسان کو اس کی تمام تر صلاحیتوں کے باوجود ایک قسم کی معذوری کا شکار بنا دیتا ہے۔ لیکن کبھی کسی ایسے شخص سے پوچھیے کہ آیا وہ اپنا شمار معذوروں میں کرتا ہے؟ تو جواب یقیناً نفی میں ملے گا۔ اس خادم نے اس سے یہ مطلب کشید کیا ہے کہ کوئی بھی شخص بذاتہ معذور نہیں ہوتا لیکن ماحول اور حالات رفتہ رفتہ اس کے دل میں یہ احساس جا گزیں کردیتے ہیں کہ وہ معذور ہے۔ بالکل ویسے ہی کہ جیسے کسی زمانے میں غیر سفید فام، خصوصا سیاہ فام افریقیوں کو دوسروں کے مقابلے میں پیدائشی طور پر کم تر نسل مانا جاتا تھا، اور ان میں سے بہت سے، ماحول کے زیر اثر، دل سے خود کو کم تر سمجھتے بھی تھے۔

چلیں ایک ذرا سی ناشائستہ مثال سے بات کو واضح کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ہمارے ہاں طرزِ زندگی میں جدیدیت در آنے کے بعد سے ہمارے غسل خانوں سے لوٹے یا بدھنے نام کی چیز رفتہ رفتہ غائب ہوتی جا رہی ہے اور اس کی جگہ اس فوارے نے لے لی ہے جسے عرفِ عام میں ”مسلم شاور“ کہا جاتا ہے۔ اس خادم نے اپنی جہاں گردی کے دوران جہاں جہاں اس کارآمد چیز سے استفادہ کیا ہے، اسے کموڈ کے دائیں جانب نصب پایا ہے۔ وہ تو افریقہ میں قیام کے دوران ایک بے تکلف کینیائی ہم کار نے ذکر کیا کہ وہ پیدائشی چپ دست ہونے کے سبب اس بندوبست کو کس قدر تکلیف دہ پاتی ہے اور کماحقہ طہارت سے خود کو ”معذور“ سمجھتی ہے تب اندازہ ہوا کہ چپ دست ہونا بھی مخصوص حالات میں ایک قسم کی معذوری بن سکتا ہے۔ لیکن بالعموم سماج میں اسے معذوری نہیں گردانا جاتا۔

جیسا کہ ایک پہلے مکتوب میں ذکر کیا تھا، شام میں ہمارا ادارہ جن شعبوں میں سرگرمِ عمل ہے، ان میں سے ایک جسمانی معذور افراد کو ترقی کے مرکزی دھارے میں لانا بھی ہے۔ یہ بھی عرض کیا تھا کہ ہم معذوری کی وجوہات۔ جنگ، حادثہ، پیدائشی نقص۔ کی بنا پر کسی سے کوئی ترجیحی سلوک نہیں کرتے۔ حسبِ توفیق، ”جو آئے آئے کہ ہم دل کشادہ رکھتے ہیں“۔ لیکن یہ بہ ہر حال حقیقت ہے کہ کٹے پھٹے اعضاء یا عصبی نظام کی شکست کے اکثر حاملین کی معذوری کا براہ راست جنگ سے تعلق مل جاتا ہے۔

کوئی براہ راست بارودی سرنگ، بم باری یا فائرنگ کا شکار ہوتا ہے تو کوئی بد امنی اور اس سے بڑھ کر ملک پر عائد شدید پابندیوں کی وجہ سے دوا دارو سے محروم رہ کر اس حال کو پہنچا ملتا ہے۔ ان افراد کے لیے مصنوعی اعضاء کی فراہمی، اور سرکاری و نجی عمارات و تنصیبات میں ان کے داخلے اور استعمال کی سہولیات کے لیے پیروکاری بذاتِ خود ایک حساس، صبر طلب اور کٹھن کام ہے۔ اسی قدر اہم کام ان افراد کے احساس بے چارگی و معذوری کو زائل کرنا اور ان میں موجود خفتہ صلاحیتوں کی معاونت کے ذریعے انہیں سماجی اور کسی حد تک اقتصادی طور پر اپنے پیروں پر کھڑا کرنا بھی شامل ہے۔

دوست واقف ہیں کہ محض اتفاق سے شام میں ادارے کی سربراہی کا بھاری جوا ان دنوں اس خادم کے ناتواں شانوں پر دھرا ہوا ہے۔ سو جمعہ کی صبح، معذورین کی بحالی کے منصوبے کے ذمہ وار ہم کار ڈاکٹر لوئے فلوح اور بی بی زینہ معلم نے نیوتا دیا کہ یہ خادم معذور افراد کے لیے منعقدہ تین ہفتے کے تربیتی پروگرام کی اختتامی تقریب کی صدارت کرے اور اپنے دستِ مبارک سے ان میں سرٹیفیکیٹ تقسیم کرے۔ یہ تربیتی ورکشاپ ایک شامی غیر سرکاری تنظیم ”عدسۃ السلام“ یا انگریزی میں کہیں تو ”لینز فار پیس“ کے تعاون سے منعقد ہوئی۔

اس میں بیس معذور اور بیس غیر معذور افراد شریک تھے جن میں مرد و زن کا تناسب مساوی رکھا گیا تھا۔ موضوع انہیں فوٹو گرافی کی جدید تکنیک، کمپیوٹر پر تصاویر سے کھیلنے اور ان کی مدد سے عوامی آگاہی کے پیغامات تخلیق کرنے کی آگاہی دینا تھا۔ یہ خادم مقررہ وقت پر وہاں پہنچا تو دل کو چھو لینے والے مناظر تھے۔ پتا چلا کہ ایسے افراد کو جدید عربی میں ”ذوی اللیاقہ“ یا انگریزی میں ”ڈفرنٹلی انیبلڈ“ کہا جاتا ہے۔ بہت لوگ وہیل چیئرز پر تھے، کچھ بیساکھیوں پر، کچھ کے بدن اعصابی مسائل کے سبب ایستادگی سے جزوی طور پر معذور، کچھ بولنے یا سننے سے معذور۔ لیکن سب کے چہروں پر اک ولولہ تازہ اور جینے کی امنگ نظر آئی۔

اس خادم نے درج بالا جملہ ہائے معترضہ پر مشتمل گزارشات، کچھ اپنی شکستہ عربی اور کچھ زینہ بی بی کی ترجمانی کی مدد سے انگریزی میں پیش کیں۔ ایک دھان پان سی، حجاب پوش بی بی ساتھ ساتھ اشاروں کی زبان میں سماعت و گویائی کے مسائل سے دوچار شرکاء کے لیے ترجمہ کرتی رہیں۔ قارئین سے گزارش ہے کہ مضمون سے لف تصاویر پر غور فرمائیں۔ یقیناً احباب ان میں سے اکثر عالمی شہرت یافتہ فن پاروں سے واقف ہوں گے کہ یہ ڈاونچی، ورمیئر، پکاسو، ریمبراں، فان خوغ وغیرہ جیسے نابغوں کی تخلیقات ہیں۔ دیکھیے کہ ہماری ورکشاپ کے خلاق شرکاء نے ان میں معمولی معمولی رد وبدل کرکے معذوری کے بارے میں آگہی کے کیسے کیسے پیغامات ترتیب دیے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).