راولپنڈی: لڑکیوں کے مبینہ اغوا، جنسی زیادتی اور بلیک میلنگ میں ملوث جوڑا گرفتار، پولیس کی تفتیش جاری


خاتون

SCIENCE PHOTO LIBRARY

راولپنڈی پولیس نے ایک ایسے جوڑے کو گرفتار کرنے کا دعویٰ کیا ہے جو مبینہ طور پر درجنوں بچیوں اور نوجوان لڑکیوں کے اغوا، ان کے ساتھ جنسی زیادتی اور ان کی برہنہ ویڈیوز بنا کر انھیں بلیک میل کرنے میں ملوث ہے۔

پولیس نے حال ہی میں ملزمان کے خلاف ایک متاثرہ لڑکی کی مدعیت میں ایف آئی آر درج کی ہے۔

پولیس ترجمان سید باقر ہمدانی نے بی بی سی کو بتایا کہ پولیس کو لڑکیوں کے ساتھ جنسی زیادتی کے ان درجنوں کیسز کا علم تین اگست کو ایم ایس سی کی طالبہ کے ساتھ پیش آنے والے واقعے کے بعد دوران تفتیش ہوا۔

انھوں نے بتایا کہ متاثرہ لڑکی نے واقعے کی ایف آئی آر پانچ اگست کو درج کروائی اور اسی دن دونوں ملزمان کو راولپنڈی میں ان کے گھر سے گرفتار کر لیا گیا۔

یہ بھی پڑھیے

’کاش عدنان مجھے یا خاندان کے کسی بڑے کو بتا دیتا‘

انٹرنیٹ، خواتین اور بلیک میلنگ

بیٹی کا باپ پر ریپ کا الزام

واقعے کی پولیس رپورٹ

پولیس کی جانب سے موصول ہونے والی ایف آئی آر کی کاپی کے مطابق لڑکی کے اغوا کا واقعہ راولپنڈی کی مصروف شاہراہ لیاقت آباد کے قریب موجود گورڈن کالج سے کچھ ہی فاصلے پر پیش آیا۔

متاثرہ لڑکی کی جانب سے تھانہ سٹی میں ان کے والد کی طرف سے دی گئی درخواست میں بتایا گیا کہ شام چھ بجے ان کی ملاقات نقاب پہنے ایک لڑکی سے ہوئی جو اپنے آپ کو ایک طالبہ ظاہر کر رہی تھی۔ اس نے یہ پوچھنے کے بعد کہ وہ کہاں جا رہی ہیں، خود بھی اسی جانب جانا ظاہر کیا اور کہا کہ ان کا بھائی لوکل ٹرانسپورٹ روکتا ہے تاہم بعد میں لڑکی نے طالبہ کو زبردستی اپنی گاڑی میں بٹھا لیا۔

’اچانک لڑکی نے مجھے دھکا دے کر پچھلی سیٹ پر گرایا، لڑکی اور اس کا بھائی گاڑی میں بیٹھ کر گاڑی لاک کر کے چل دیے اور گاڑی کے اندر لگے کالے رنگ کے پردے گرا دیے۔ لڑکی نے خنجر نکال کر مجھے ڈرایا اور اس کا بھائی مجھے مارتا رہا۔‘

متاثرہ لڑکی کے مطابق ملزمان انھیں مختلف راستوں سے راولپنڈی کے علاقے گلستان کالونی میں ایک مکان پر لے کر گئے۔

’نہ صرف لڑکا میرے ساتھ بد فعلی کا مرتکب ہوا بلکہ لڑکی ویڈیو اور تصاویر بناتی رہی اور لڑکے نے بھی میری تصاویر بنائی اور دھمکیاں دیں کہ زبان کھولنے پر تمھارے پورے خاندان کو اڑا دیں گے نہ تم زندہ رہو گی اور نہ تمھاری بچیاں اور جب بھی فون کریں ہماری بات ماننی ہے۔‘

بعد ازاں ملزمان نے لڑکی کو اس کے گھر کے قریب اتار دیا۔

متاثرہ لڑکی کے والد کے مطابق ان کی بیٹی نے ملزمان کے خلاف قانونی کارروائی کرنے کا فیصلہ کیا۔

لڑکی کے والد کے مطابق اس واقعے کے بعد ان کی بیٹی ذہنی کوفت میں تھی اور بار بار یہ ہی کہہ رہی تھی کہ دونوں ملزمان کو کسی بھی صورت بچنا نہیں چاہیے۔

’میرے لیے بہت آسان راستہ ہے کہ میں کسی بھی طریقے سے خود کشی کر لوں مگر یہ مسئلے کا حل نہیں ہے میں چاہتی ہوں کہ جو کچھ میرے ساتھ ہوا وہ اب کسی اور کے ساتھ نہ ہو۔‘

ان کا کہنا تھا کہ جب ان کے بیٹی نے یہ کہا تو ان کے پاس کوئی راستہ نہیں بچا تھا۔

متاثرہ لڑکی نے جب پولیس سے رابطہ کیا تو انھوں نے مقدمہ درج کرنے کے بعد چھاپہ مار کر ملزمان کو گرفتار کر لیا۔

زیادتی

پولیس کی تفتیش کہاں تک پہنچی؟

پولیس کا دعویٰ ہے کہ اس جوڑے کی جانب سے لڑکیوں کے اغوا اور ان سے جنسی زیادتی کا اعتراف دوران تفتیش اور ان کی رہائش گاہ سے ملنے والی ویڈیوز اور تصاویر سے ہوا ہے۔

سنیچر کو پولیس کی جانب سے موصول ہونے والی پریس ریلیز میں بتایا گیا کہ سی پی او نے حکم دیا ہے کہ تمام واقعات کے مقدمات درج کیے جائیں اور اگر دیگر متاثرہ لڑکیوں کے اہلخانہ سماجی دباؤ کی وجہ سے مقدمے میں مدعی نہیں بننا چاہتے تو پولیس خود مدعی بننے کو تیار ہے۔

پولیس کا کہنا ہے کہ ملزمان کے موبائل فونز سے 10 لڑکیوں کی ویڈیوز ملی ہیں اور ایک ہزار سے زیادہ تصاویر بھی برآمد ہوئی ہیں۔

پولیس ترجمان کے مطابق کم ازکم 45 متاثرہ لڑکیاں ہیں جن کی عمر دس سے 30 سال کے درمیان ہیں۔

انھوں نے بتایا کہ ملزمان کے بیان اور ڈیٹا کے ذریعے کچھ لڑکیوں کے اہلخانہ سے رابطہ ہو چکا ہے اور لڑکیوں کی شناخت ہو چکی ہے۔ حالیہ مقدمے میں جو متاثرہ طالبہ نے درج کروایا ہے اب تک کی تفتیش کے دوران ملزمان کے بیانات ریکارڈ کیے گئے ہیں۔ تاہم پولیس کی جانب سے ملزمان کے بیانات کی کاپی دینے سے معذرت ظاہر کی گئی۔

پولیس کے مطابق ملزم جسمانی ریمانڈ پر پولیس کے پاس زیر تفتیش ہیں جبکہ ملزمہ کو جوڈیشل ریمانڈ پر جیل بھجوا دیا گیا۔

پولیس نے بتایا کہ ملزم کی بیوی راولپنڈی شہر کی لڑکیوں سے براہ راست رابطہ کرتی تھی اور پھر انھیں جنسی زیادتی کا نشانہ بنا کر بلیک میل کیا جاتا تھا۔

پولیس کا کہنا ہے کہ ملزمان کا تعلق بظاہر راولپنڈی سے ہی ہے اور انھوں نے گلستان کالونی میں گھر لیا ہوا تھا جبکہ متاثرہ لڑکیاں راولپنڈی شہر سے ہی تعلق رکھتی ہیں۔

پولیس کے مطابق ملزمان لڑکیوں اور خواتین کو اغوا کر کے اپنے گھر لے کر جاتے تھے تاہم اہل علاقہ ان سرگرمیوں سے ناواقف تھے۔

پولیس تفتیش کاروں کے مطابق جب پولیس نے چھاپہ مارا تھا تو ملزم نے گرفتاری میں مزاحمت نہیں کی مگر لیپ ٹاپ، کمپیوٹر اور دیگر برقی آلات کو نقصان پہنچانے کی کوشش کی تھی۔

پولیس کے مطابق متاثرہ طالبہ کے طبی معائنے کی درخواست ڈسٹرکٹ ہسپتال بھجوا دی گئی ہے جبکہ جائے وقوعہ پر موجود اشیا کو قبضے میں لے کر فرانزک سائنس لیبارٹری بھجوا دیا گیا ہے۔

ڈی ایس پی فیصل سلیم کے مطابق پولیس کو کچھ ایسے ناقابل تردید شواہد دستیاب ہوئے ہیں جن کو عدالت میں پیش کیا جائے گا۔

’ہمیں امید ہے کہ ان شواہد کی روشنی میں ملزماں سزا سے نہیں بچ سکیں گے کیونکہ کچھ ویڈیو میں ملزمان واضح طو پر نظر آرہے ہیں۔‘

پولیس تفتش کاروں نے بی بی سی کو بتایا ہے کہ گرفتار ملزم بلاگر ہے جس نے مختلف ویب سائٹس اور ایک ویڈیو چینل بھی بنا رکھا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32292 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp