میری میوس کہاں چھپ گئی ہے؟


میں نے کاغذ پر ایک جملہ لکھا اور کاٹ دیا
پھر دو جملے لکھے اورکاٹ دیے
پھر چار جملے لکھے اور وہ بھی کاٹ دیے
پھر کافی دیر تک اپنے سامنے پڑے سفید کاغذ اور کالے قلم کو گھورتا رہا۔

مجھے اندازہ ہو گیا تھا کہ میرے جملے سپاٹ ہو گئے تھے۔ جیسے کوک کی بوتل فلیٹ ہو جائے۔ جیسے اس کی فز ہی مر جائے۔ جیسے روٹی سوکھ جائے۔ جیسے کھانا باسی ہو جائے۔ جیسے پھول مرجھا جائے۔ جیسے استعارہ کلیشے بن جائے۔ آہستہ آہستہ مجھے احساس ہوا کہ میری میوس مجھ سے کب کی روٹھی ہوئی ہے۔ وہ کہیں جا چکی ہے۔ دور بہت دور۔

میری میوس کہاں چھپ گئی ہے؟ کیا وہ میرے لاشعور میں تو نہیں چلی گئی؟ کیا وہ کسی مرمیڈ کی طرح گہرے پانیوں میں تو نہیں اتر گئی؟

میں سوچنے لگا کہ میں اسے کیسے منا کر لاؤں گا تا کہ وہ مجھے نئی غزلوں ’نظموں اور افسانوں کے تحفے لا کر دے۔ مجھ سے باتیں کرے۔ میرا دل لبھائے۔ مجھے خوشی سے مسرور کرے۔

پھر میں نے سوچا کہ میوس تو مشرقی محبوبہ کی طرح ہوتی ہے۔ اس کے مزاج میں روٹھنا منانا ہوتا ہے۔ عشوہ ہوتا ہے۔ غمزہ ہوتا ہے۔ ناز ہوتا ہے۔ ادا ہوتی ہے۔ بے نیازی ہوتی ہے۔ بے اعتنائی ہوتی ہے۔

پھر میں نے سوچا کہ کہیں ایسا تو نہیں کہ وہ میری روز مرہ کی مصروفیات ’میری پیشہ ورانہ ذمہ داریوں یا میری محبوباؤں سے جیلس ہو گئی ہو۔ ناراض ہو گئی ہو۔ دلبرداشتہ ہو گئی ہو لیکن میں اس کی ناراضگی کی وجہ کیسے جانوں؟ وہ تو بات ہی نہیں کرتی۔ میں اسے خط یا ای میل بھی تو نہیں بھیج سکتا۔ فون بھی تو نہیں کر سکتا۔ وہ میری ایسی سہیلی ہے جو ایک پہیلی بن گئی ہے۔

تو پھر میں کیا کروں؟

اسے کہاں تلاش کروں؟

اسے کیسے مناؤں؟

میں کافی عرصہ حیران و پریشان رہا۔ فکرمند رہا۔

اور اگر وہ مجھے کبھی نہ ملی تو میں کیا کروں گا؟

اگر میں نے لکھنا چھوڑ دیا تو کیا ہوگا؟

کیا لکھاری ہونا میری ذات کا۔ میری شناخت کا۔ اٹوٹ حصہ ہے؟

کیا یہ صرف میرا مسئلہ ہے یا ہر ادیب۔ ہر شاعر اور ہر دانشور کا ڈائلیمہ ہے؟ اگر ان کی میوس ان سے ناراض ہو جائے تو وہ کیا کرتے ہیں؟ اگر وہ انہیں مستقل چھوڑ کر چلی جائے تو کیا وہ نفسیاتی بحران کا شکار ہو جاتے ہیں؟

اگر میں نے آئندہ کوئی غزل ’نظم یا افسانہ نہ لکھا تو کیا میرے ادیب دوست بھی میری میوس کی طرح مجھے چھوڑ کر چلے جائیں گے؟

ایک شام ایک محفل میں ایک شاعر دوست نے پوچھا کیا کوئی تازہ غزل لکھی ہے؟

ایک ویکنڈ پر ایک مدیر کا فون آیا کہ کافی عرصے سے آپ نے کوئی تازہ افسانہ نہیں بھیجا۔

پھر ایک دن میں ایک نفسیاتی رسالے میں ایک ماہرِ نفسیات کی ڈائری پڑھ رہا تھا۔ اس میں لکھا تھا کہ اس ماہرِ نفسیات کی ایک مریضہ ہر ہفتے اپنا خواب سناتی تھی اور وہ تھیریپی سیشن میں مل کراس کا تجزیہ کرتے تھے۔ ایک دن اس مریضہ کو کوئی خواب یاد نہ تھا۔ ماہرِ نفسیات نے اسے ایک سفید کاغذ اور کالا قلم دیے اور کہا کہ میں جتنی دیر میں چائے بناتا ہوں تم ایک فرضی خواب لکھ لو۔ چائے پینے کے دوران مریضہ نے اپنا فرضی خواب سنایا اور ماہرِ نفسیات نے اس کا تجزیہ کیا۔ اس دن جب مریضہ گھر گئی تو بہت نادم تھی۔ اسے یوں لگا جیسے اس نے اپنے تھیریپسٹ کو نا امید کیا ہو چنانچہ وہ بازار گئی ’ایک ڈائری خرید کر لائی‘ اس پر لکھا۔

خوابوں کی ڈائری۔

اور اسے ہر رات اپنے تکیے کے نیچے رکھ کر سونے لگی۔ صبح اٹھ کر وہ اپنے آپ سے پوچھتی۔ میں نے کل رات کیا خواب دیکھا ہے؟ ایسا کرنے سے اسے اپنے خواب زیادہ یاد رہنے لگے اور وہ خوشی خوشی اپنے خواب لے کر اپنے تھیریپسٹ کے پاس جانے لگی۔

میں نے سوچا خواب اور میوس ایک ہی گھر میں رہتے ہیں جس کا نام۔ لاشعور۔ ہے۔ چنانچہ میں نے بھی ایک ڈائری خریدی اور اس پر لکھا۔

میری میوس کے تحفے۔

اور میں بھی اس ڈائری کو تکیے کے نیچے رکھ کر سونے لگا۔

انہی دنوں میری ایک مدیر سے ملاقات ہوئی جس نے مجھے بتایا کہ اس نے ایک نیا انٹرنیٹ میگزین شروع کیا ہے اور اس کی خواہش ہے کہ میں اس کے میگزین کے لئے ہر ہفتے ایک کالم لکھوں۔ میں نے اسے ٹالنے کے لیے کہا۔ سوچ کر بتاؤں گا۔

میں صبح اٹھ کر ہر روز اپنی ڈائری میں چند جملے لکھتا لیکن وہ جملے بے ترتیب ہوتے۔ بے ربط ہوتے۔ بے معنی ہوتے۔ پھر آہستہ آہستہ میرے جملوں اور جذبوں اور آدرشوں اور خوابوں میں ربط بڑھنے لگا۔

مجھے یوں لگا جیسے میری میوس چھپ چھپ کر آتی ہو کسی کھڑکی سے جھانک کر دیکھتی ہو اور پھر چلی جاتی ہو۔

پھر ایک دن میری میوس ایک تحفہ لے کر آئی لیکن وہ تحفہ نہ غزل تھی ’نہ نظم‘ نہ افسانہ بلکہ وہ ایک کالم تھا۔ کہنے لگی میں تمہیں ایک خوش خبری سنانے آئی ہوں۔ لکھاری کے طور پر اب تمہارا نیا جنم ہوا ہے۔ اب تم غزلیں۔ نظمیں۔ افسانے نہیں کالم لکھا کرو گے۔ میں نے وہ کالم انٹرنیٹ کے میگزین کے مدیر کو بھیجا تو وہ بہت خوش ہوا کہنے لگا یہ کالم بہت مقبول ہوگا آپ ہر ہفتے ایک نیا کالم بھیجا کریں۔

ایک دن میری میوس مستقل لوٹ آئی۔ اس دن ہماری بڑی بے تکلفی سے بات چیت ہوئی کہنے لگی ’میں تم سے دور نہیں ہوئی تھی تم نے مجھے نطر انداز کرنا شروع کر دیا تھا۔ تم زندگی سے کٹ گئے تھے۔ اپنی ذات کے خول میں بند ہو گئے تھے۔ تم نے گوشہ نشینی اختیار کر لی تھی۔ اب اچھا ہے تم انٹرنیٹ کے میگزین سے اپنے کالم کے قاریوں سے جڑ گئے ہو۔ تم اپنے قاریوں کے سوال پڑھا کرو انہیں لکھ لیا کرو اور پھر اگلے کالم میں جواب دیا کرو۔ فن ایک دریا کی طرح ہے بہتا رہے تو اچھا ہے۔ ’

میں نے اپنی میوس سے کہا ’لیکن تم جانتی کہ میں یہ کام اکیلے نہیں کر سکتا مجھے تمہاری مدد کی ضرورت ہے‘

میری میوس مسکرائی۔ اس کی مسکراہٹ میں پرانے محبوب کی خود سپردگی تھی۔ کہنے لگی ’تم نئے خیالوں۔ جذبوں۔ آدرشوں اور خوابوں کی فہرست بنایا کرو۔ اپنا ہوم ورک کیا کرو۔ اس طرح ایک ادبی بفے تیار ہوگا۔ تم وہ مجھے پیش کیا کرو اور میں ہر ہفتے اس میں سے ایک چن لیا کروں گی اور دھیرے دھیرے تمہاے خیالوں‘ جذبوں ’آدرشوں اور خوابوں کو کالموں میں بدلنے میں تمہاری مدد کروں گی‘ میں میوس کا یہ وعدہ سن کر بہت خوش ہوا۔

میں آج صبح اٹھا تو میری حیرانگی کی انتہا نہ رہی۔ میں جس میوس کا انتطار کیا کرتا تھا آج وہ میرا انتطار کر رہی تھی۔ وہ ایک ادبی تحفہ بھی لے کر آئی تھی۔ کہنے لگی ’یہ اس ہفتے کا نیا کالم ہے اسے اپنے مدیر دوست کو بھیج دو۔ ‘

میں نے مسکرا کر کہا ’اس کی خالق تو تم ہو‘
مجھے گلے لگا کر کہنے لگی ’نہیں ہم دونوں ہیں‘

ڈاکٹر خالد سہیل

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ڈاکٹر خالد سہیل

ڈاکٹر خالد سہیل ایک ماہر نفسیات ہیں۔ وہ کینیڈا میں مقیم ہیں۔ ان کے مضمون میں کسی مریض کا کیس بیان کرنے سے پہلے نام تبدیل کیا جاتا ہے، اور مریض سے تحریری اجازت لی جاتی ہے۔

dr-khalid-sohail has 690 posts and counting.See all posts by dr-khalid-sohail