باپ کی ممتا


جوں جوں بیٹی کی شادی کے دن قریب آ رہے تھے اس کا دل بیٹھا جا رہا تھا۔ وہ چا ہتا تھا کہ کسی طرح روک لے مگرزمانے اوراپنی مجبوریوں کے آگے بے بس تھا۔ وہ اپنی اکلوتی اور نازوں سے پلی بیٹی کی جدائی برداشت کرنے کی سکت نہ رکھتا تھا۔

سلیم اک متوسط طبقے کا ایک سلجھا ہوا شخص تھا۔ اس کے ساتھ بہت زیادہ حساس بھی کسی کو تکلیف میں دیکھتا تو کئی دن بے سکون رہتا۔ گاؤں میں میل جول کم تھا اور نہ زیادہ لمبی رشتہ داری تھی۔ وہ اپنی بیوی اور اکلوتی بیٹی کے ساتھ ایک خوشحال زندگی بسر کر رہا تھا۔ پڑھا لکھا تو تھا مگر کنبہ چھوٹا تھا اس لیے کوئی نوکری نہ کی۔ آبائی زمین کافی تھی اور وہی واحد آمدنی کا ذریعہ تھی۔ اس میں اچھی گزر بسر ہو رہی تھی۔

بڑی منتوں مرادوں کے بعد خدا نے شادی کے 5 سال بعداسے ایک پیاری سی بیٹی سے نوازا تھا۔ وہی اس کی کل کائنات تھی۔ سلیم، ماں سے بڑھ کے اس کا خیال رکھتا۔ وہ رات کو روتی تو ساری رات جاگتا رہتا۔ بیٹی کو اگر ذرا سی تکلیف پہنچتی تو بے سکون وہ ہو جاتا۔ سارا سارا دن اسے کھلاتا رہتا۔ کبھی کندھوں پہ بٹھا کے کھیتوں کو نکل جاتا۔ کبھی پیٹھ پے بٹھا کہ خود گھوڑا بن کے سواری کراتا۔ گاؤں سے باہر جانا پڑ جاتا تو جتنا جلدی ہوتا واپس آ جاتا۔ اور اگرکبھی رات باہر گزارنا پڑ جاتی تو ساری رات سو نہ سکتا۔ صبح ہوتے ہی واپسی کی راہ لیتا۔ بیوی اکثر شکایت کرتی کہ آپ نے میری حصے کی توجہ بھی بیٹی کو دے دی ہے مگر اسے کسی کا ہوش نہ تھا۔

وقت گزرتا گیا اور بیٹی نے کب بچپن سے جوانی میں قدم رکھا پتا ہی نہ لگا۔ لیکن سلیم کی توجہ اور لگاؤ میں کوئی کمی نہ آئی۔ بیٹی کو بھی باپ سے بے پناہ محبت تھی۔ تربیت اچھے ماحول میں ہوئی تھی۔ سو وہ بھی بہت سلجھی ہوئی اور سلیقہ مند تھی۔ البتہ اسے باپ کی محبت نے بہت نازک بنا دیا تھا۔ زمانے کی تلخیاں اسے چھو کے نہ گزری تھیں۔ اسے کبھی ایک کانٹے جتنی تکلیف بھی پہنچنے نہ دی گئی تھی۔ نازوں اور لاڈوں سے پلی تھی اور وہ تھی بھی بہت خوبصورت اور ماں باپ کی اکلوتی۔

رفتہ رفتہ اس کے رشتے آنے لگے۔ اس کے مگر سلیم کو ان میں کوئی دلچسپی نہ تھی۔ وہ اپنی بیٹی کو خود سے دور کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتا تھا اور نہ کبھی سوچا تھا۔ ماں باپ کے اس رویے سے سخت پریشان تھی بہت معقول رشتے بھی آئے تھے مگر وہ جب بھی سلیم سے بات کرتی تو وہ منع کر دیتا۔ اگروہ زور دیتی تو وہ ناراض ہو جاتا۔ اس نے بہت سمجھانے کی کوشش کی رشتہ داروں نے سمجھایا مگر وہ نہ مانا اور یوں ہی وقت گزرتا گیا۔

ایک دن سلیم شہر سے واپس آ رہا تھا تو راستے میں گاڑی کو حادثہ پیش آ گیا۔ اس کو تو معمولی چوٹیں آئیں مگر اس کا پڑوسی جو اس کے ساتھ سفر میں تھا شدید زخمی ہو گیا۔ وہ جاں بر نہ ہو سکا اور کچھ دنوں بعد چل بسا۔ اس واقعے نے سلیم اور اس کی بیوی پر گہرا اثر چھوڑا۔ اس نے موت کو بہت قریب سے دیکھ لیا تھا او رخدانخواستہ اسے کچھ ہو جاتا تو اس کی بیٹی؟ اب مختلف سوچیں اسے گھیرے رکھتیں۔

آخر کار بیوی اور رشتہ داروں کے سمجھانے پہ وہ بیٹی کی شادی پے راضی ہو گیا۔ بیٹی سے مرضی پوچھی گئی تو اس نے سب کچھ باپ پے چھوڑ دیا۔ بلآخر گھر سے تھوڑے سے فاصلے پے صفدر جو کہ ایک خوبصورت اور بظاہر معقول نوجوان تھا اور سلیم کے دوست کا بیٹا تھا اس سے رشتہ طے ہو گیا۔

شادی کی تیاریاں عروج پہ تھیں۔ دوست رشتہ دار سبھی تیاری میں ہاتھ بٹا رہے تھے۔ لیکن سلیم عجیب کشمکش میں پڑا تھا۔ دن کو زیادہ تر باہر رہنے لگا کھیتوں میں اکیلا بھٹکتا رہتا۔ بیوی سمجھاتی بھی تھی کہ کون سا دور جا رہی ہے۔ چند قدموں کا تو فاصلہ ہے۔ تم ایسے ہی پریشان ہو۔ مگر وہ جذبات کو الفاظ نہ دے سکتا۔ آخر وہ دن بھی آہی گیا جب رخصتی ہونی تھی۔ یہ ان لوگوں کے لیے کسی قیامت سے کم نہ تھا بیٹی انجان نظروں سے گھر اور ماں باپ کو دیکھ رہی تھی۔

جس گھر میں اس کے اتنے سال گزرے وہ اور اس کے مکین پل میں اتنے اجنبی کیوں لگنے لگے۔ پاس ہو کے بھی اتنا فاصلہ کیوں محسوس ہو رہا ہے۔ سلیم خالی نظروں سے اسے دیکھ رہا تھا۔ ماں کی آنکھیں آنسوؤں سے بھری پڑی تھیں۔ وہ ماں باپ سے گلے ملی۔ انجان لوگوں کے ساتھ رخصت ہو گئی جو اب اس کے اپنے ہو گئے تھے۔ اس کے جانے کے بعد گھر بالکل خالی ہو گیا ہر چیز کاٹ کھانے کودوڑ رہی تھی۔ گھر کی تمام خوبصورتی تمام رعنائی اورزندگی بھی ساتھ لے گئی۔

رات پھیلنے لگی۔ سلیم کرسی پہ بیٹھا سگریٹ پی رہا تھا۔ بیوی نے پہلی بار اسے اس حالت میں دیکھا مگر بولی نہیں۔ تھکاوٹ کی وجہ سے اسے نیند آگئی۔ اس نے سلیم کو کافی کہا مگر وہ نہ سویا۔ میری بیٹی جسے میں نے اتنے نازوں سے پالا۔ جس کے جسم کو تپتی دھوپ نہ لگنے دی۔ اس جسم کو کتنی اذیت دے رہا ہو گا۔ سلیم نے سوچا۔

صبح صادق کو فون کی گھنٹی بجی تو اس کی آنکھ کھلی سلیم کرسی پہ بدستور بیٹھا سگریٹ پی رہا تھا۔ اس نے کال اٹھائی سلام دعا کے بعد اس نے خاموشی سے کوئی بات سنی اور کوئی بات کیے بغیر کال کاٹ دی۔ اور جلدی سے کہیں جانے کی تیاری کرنے لگی۔ سلیم نے سوالیہ نظروں سے دیکھا تو اس نے بتایا بیٹی کی طبیعت ٹھیک نہیں ہسپتال لے کے جا رہے ہیں۔

صبح ولیمہ تھا پر سلیم نے ولیمے میں شرکت نہ کی۔ وہ کھیتوں کی طرف نکل گیا اور شام کو واپس آیا۔ بیوی سے کال پہ بیٹی کی طبیعت دریافت کی تو اس نے بتایا اب ٹھیک ہوں، ماں کو مزید کچھ پوچھنے کی ہمت نہ ہوئی۔

دو تین دن بعد رسماً بیٹی باپ کے گھر آتی ہے۔ ماں اس کو لینے گئی مگر اس نے آنے سے انکار کر دیا۔ سلیم نے اب لوگوں سے ملنا اور بولنا بالکل چھوڑدیا۔ وہ جب بھی باہر نکلتا تو اسے لگتالوگ اسے عجیب نظروں سے دیکھ رہے ہیں۔ کوئی ہنس رہاہو تو اسے لگتا جیسے وہ اس کے یا اس کی بیٹی کے بارے میں بات کر رہا ہے۔ اکثر لوگ اسے دیکھتے ہی چہ مگوئیاں شروع کر دیتے۔ سلیم نے خود کو گھر تک محدود کر لیا تھا۔ یوں ہی چند دن گزر گئے بیٹی واپس باپ کے گھر نہ آئی اور نہ ہی کال پہ باپ سے بات کی۔ بیٹی کے سسرال کی طرف سے دعوت رکھی گئی اور سلیم کو اس میں شرکت پے مجبور کیا گیا۔ سلیم جب بیٹی کے گھر میں گیا تو اس نے معمول سے زیادہ میک اپ کیا تھا باپ بیٹی گلے ملے مگر نظریں نہ ملا پائے۔

سلیم نے صفدر کا پوچھا تو پتہ چلا وہ بیٹھک میں دوستوں کے ساتھ بیٹھا ہے سلیم اسے ملنے گیا مگر دروازہ کھولنے سے پہلے ان کی گفتگو اس کے کانوں میں پڑی۔ جس میں صفدر سہاگ رات کو اپنی مردانگی کا قصہ سنا رہا تھا اور دوست اسے داد دے رہے تھے۔ سلیم واپس مڑا اور بغیر کسی سے کوئی بات کیے اپنے گھر آگیا۔

شام کو اس کی بیوی اور بیٹی گھر آئیں کہ اس سے گلہ کر سکیں کہ وہ کیوں انھیں سسرال میں یوں شرمندہ کر کے آیا تھا۔ سلیم چارپائی پہ لیٹا تھا۔ بیوی غصے سے اسے برا بھلاکہنے لگی۔ آج بیٹی کی آنکھوں میں بھی ناراضگی تھی۔

آپ بولتے کیوں نہیں جواب دیں ہمارے ساتھ کیوں ایسے کر ررہے ہیں قصور کیا ہے ہمارا؟

اس نے سلیم کو جھنجھوڑا مگر اس کاسر اک طر ف ڈھلک گیا۔

ماں بیٹی نے بے ساختہ چیخ ماری۔ بیٹی کی آنکھوں سے آنسوؤں کی جھڑی نکلی اور چھرے اور گردن سے ہوتی ہوئی سینے میں جذب ہو گئی۔

بیٹٰی کے آنسوؤں نے چہرے سے میک اپ کی دبیز تہہ کو ہٹایا تو چہرے اور گردن پہ زخموں کے نشان واضح ہونے لگے جن کے اوپر خون کی سرخی جمی تھی۔

شکیل احمد، ہری پور
Latest posts by شکیل احمد، ہری پور (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).