ائیرپورٹ سے صرف 3 منٹ کی مسافت پر


خبر آئی ہے کہ روس میں ایک پائلٹ نے ائیر بس 321 جیسا بڑا طیارہ کھیتوں میں اتار کر 226 مسافروں اور عملے کے 7 ارکان کی جان بچا لی۔ ماسکو ایئرپورٹ سے اڑان بھرتے ہی پرندے ٹکرانے سے طیارے کے دونوں انجن ناکارہ ہو گئےتھے۔ پائلٹ نے بے مثال حاضر دماغی اور شاندار پیشہ ورانہ مہارت کا مظاہرہ کرتے ہوئے ائیر پورٹ سے آگے شروع ہونے والے مکئی کے کھیتوں میں طیارے کو کامیابی سے محفوظ لینڈنگ کروا لی۔

ایک لمحے کو تصور کیجئے ko خدانخواستہ لاہور ائیرپورٹ سے اڑان بھرنے والے کسی طیارے کے ساتھ ایسا حادثہ پیش آ جائے تو کیسا المیہ جنم لے گا۔ دنیا بھر میں ائیرپورٹ شہروں سے دور بنائے جاتے ہیں جس کی کئی ایک وجوہات میں شہر کو فضائی و آواز کی آلودگی سے محفوظ رکھنا اور طیاروں کو پرندوں سے بچانا بھی شامل ہوتی ہیں۔اسی لیے دنیا کے بڑے اور مصروف شہروں کے ائرپورٹ شہر سے باہر بنائے جاتے ہیں۔

ناروے کا اوسلو انٹرنیشنل ائرپورٹ شہر کے مرکز سے 50 کلو میٹر تعمیر کیا گیا۔ اسی طرح واشنگٹن ڈی سی کا ڈیولس انٹرنیشنل ایئر پورٹ 44 کلومیٹر، پیرس کا چارلس ڈیگال انٹرنیشنل ائرپورٹ 34 کلو میٹر، بیجنگ انٹرنیشنل ائیرپورٹ 32 کلو میٹر، ماسکو انٹرنیشنل ائیرپورٹ 31 کلومیٹر، ٹورنٹو انٹرنیشنل ایئرپورٹ 28 کلومیٹراور لندن کا ہیتھرو انٹرنیشنل ائیرپورٹ شہر کے مرکز سے 24 کلومیٹر دور واقع ہے۔

ہمارے ہاں گنگا الٹی بہانے کی روش جاری ہے اس لیے یہاں ابھی ائیر پورٹ کی فزیبلٹی رپورٹ تیار ہونا شروع ہوتی ہے اور مجوزہ مقام کے ارد گرد رہائشی کالونیوں اور سکیموں کا جال بچھنا شروع ہو جاتا ہے۔ کالونیاں فخر کے ساتھ اپنے اشتہارات میں ’نئے ائیرپورٹ سے صرف 3 منٹ کی مسافت پر‘ جیسے فقروں سےگاہکوں کو اپنی جانب راغب کرتے ہیں۔ اب اگر کسی باشعور معاشرے میں ایسا اشتہار چھپے تو یقیناً اس کا فائدے سے زیادہ نقصان ہو کہ کون دن رات مکان کے اوپر سے گزرتے جہازوں کا شور برداشت کرے لیکن وطنِ عزیز میں ان کالونیوں اور سکیموں کے پلاٹوں کی فائلیں بھی بلیک میں بکتی ہیں۔ سکون کی تلاش میں ائیرپورٹ کے قریب دیوانہ وار سکونت اختیار کرنے والوں کا سروے کیا جائے تو ان کی انتہائی کم تعداد جہازوں پر سفر کرنے والی یعنی ’ائرپورٹ سے صرف 3 کلو میٹر کی مسافت‘ کی سہولت سے فائدہ اٹھانے والی نکلے گی۔

قابل اجمیری کا شہرہِ آفاق شعر ہے،

وقت کرتا ہے پرورش برسوں

حادثہ ایک دم نہیں ہوتا

داد دینا پڑے گی قابل اجمیری صاحب کے وژن کی جنہیں 70 سال قبل پاکستانی ائیرپورٹس کی دیواروں کے ساتھ شروع ہوتی رہائشی کالونیوں کا منظر نظر آ گیا۔ داد تو ان ٹاؤن پلانرز کو بھی دینا پڑے گی جو ائیرپورٹ کے ساتھ تھوک کے حساب سے رہائشی کالونیاں بنانے کی اجازت دیتے ہیں۔ باقی عسکری ٹین والوں کو نہ کسی اجازت کی ضرورت ہے نہ کسی داد کی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).