کشمیر: مودی حکومت کے فیصلے سے انڈیا میں وفاقی توازن بگڑنے کا خدشہ


کشمیر فیصلہ انڈیا

بی جے پی کے مطابق شق 370 سے مسلمانوں کی اکثریتی ریاست کشمیر میں انھیں مطمئن رکھنے کی کوشش کی جاتی تھی

انڈیا کے وزیرِاعظم نریندر مودی نے ہمیشہ اپنے آپ کو وفاقیت کے سفیر کے طور پر پیش کیا ہے۔ یعنی ایک ایسا شخص جو ملک میں شامل ریاستوں کو زیادہ سے زیادہ حقوق دینے پر یقین رکھتا ہو۔

لیکن گذشتہ ہفتے ریاستِ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کو ختم کر کے ریاست کو دو حصوں میں تقسیم کر دیا گیا اور ساتھ ہی ریاست میں تمام مواصلاتی نظم معطل کر دیا گیا۔ بہت سے لوگ ان اقدامات کو وفاقی ڈھانچے کو کمزور کرنے کا عمل قرار دے رہے ہیں۔

انڈیا کی یونین کے نئے علاقے جموں و کشمیر اور لداخ اب براہِ راست دلی کے زیرِ تسلط ہوں گے۔ یونین ٹیریٹری یا علاقوں کو وفاقی حکومت کی طرف سے کسی ریاست کے مقابلے میں بہت کم اختیارات حاصل ہوتے ہیں۔

یہ بھی پڑھیے

انڈیا کا کشمیر کی ’نیم خودمختار‘ حیثیت ختم کرنے کا اعلان

آرٹیکل 370 تھا کیا اور اس کے خاتمے سے کیا بدلے گا؟

کشمیر کا مسئلہ کیا ہے؟

لندن سکول آف اِکنامکس میں عالمی سیاسیات کی پروفیسر سمنترا بوس یونین ٹیریٹرز کو دلی کی مونسپیلٹیز یا بلدیات قرار دیتی ہیں۔

ایک اور مبصر کے خیال میں جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کر کے بظاہر ریاست کو انڈیا کی دیگر ریاستوں کے برابر کا درجہ دے دیا گیا ہے لیکن اس طرح مودی حکومت نے انڈیا کے نازک وفاقی توازن کو خراب کر دیا ہے۔

آئین کی شق 370 جو ریاست کو خصوصی حیثیت کی آئینی ضمانت فراہم کرتی تھی کی نوعیت کئی لحاظ سے علامتی سی ہی تھی، کیونکہ سال ہا سال سے جاری رہنے والے صدارتی حکم ناموں نے پہلے ہی ان اختیارات کو ختم کر دیا تھا جن کی اس شق میں ضمانت دی گئی تھی۔

کشمیر انڈیا

ماہرین کے مطابق مودی حکومت کے اس فیصلے سے انڈیا میں کسی ریاست اور وفاق کے درمیان طاقت کا توازن بگڑ گیا ہے

انڈیا کا منفرد وفاقی نظام

بہت سے لوگوں کے خیال میں یہ آئینی شق اپنی اساس کے اعتبار سے بہت اہمیت کی حامل تھی کیونکہ اس سے یہ پیغام ملتا تھا کہ انڈیا کے آئین میں ان علاقوں یا لوگوں کے لیے گنجائش موجود ہے کہ جو ملک کے مرکزی یا قومی دھارے سے مطمئن نہیں۔

انڈیا کا وفاق اصل میں کافی مشکلات اور جدوجہد کے بعد بن پایا تھا۔

اقتصادی طور پر ترقی یافتہ اور ثقافتی طور پر زیادہ ہم آہنگ ملکوں کے برعکس جہاں وفاقی طرز کا نظام قائم ہے، جیسا کہ امریکہ اور کینیڈا میں ہے، طاقت اور اختیارات کی تقسیم انڈیا جیسے غریب اور ثقافتی، مذہبی، سماجی اور معاشرتی لحاظ سے متنوع ملک میں حاصل کرنا کافی مشکل عمل تھا۔

انڈیا کے آئین میں منتخب وفاقی حکومت اور منتخب ریاستی اسمبلیوں کے درمیان اختیارات کی تقسیم بڑی مفصل اور واضح ہے۔

دلی میں قائم سینٹر فار پالیسی ریسرچ کی سربراہ یامینی آئر کے مطابق آئین میں وفاقی اور وحدانی نظامِ حکومت میں ایک بہت ہی نازک توازن برقرار رکھنے کی کوشش کی گئی ہے۔

کشمیر بندش

کشمیر میں گذشتہ دو ہفتوں سے کرفیو اور لاک ڈاؤن کا سلسلہ جاری ہے

یک طرفہ فیصلہ

لیکن بعض مبصرین ہمیشہ ہی انڈیا کے وفاقی نظام کے مستند ہونے پر شکوک و شبہات کا اظہار کرتے رہے ہیں۔

ریاست کے گورنر جن کا تقرر عام طور پر وفاق میں حکمراں جماعت سیاسی بنیادوں پر کرتی ہے وہ ایسی ریاستوں میں جہاں پر وفاق کی نظر میں آئینی مشینری تعطل کا شکار ہو جاتی ہے وہاں براہِ راست وفاقی تسلط قائم کرنے میں مدد کرتے ہیں۔

ریاستی حکومت کو معطل کر کے صدارتی راج یا گورنر رول ان گورنروں کی طرف سے ریاست کے بارے میں منفی رپورٹ کی بنیاد پر لگایا دیا جاتا ہے۔ انڈیا میں سنہ 1951 سے لے کر سنہ1997 تک مختلف ریاستوں میں 88 مرتبہ ریاستی اسمبلیوں کو ختم کر کے صدارتی یا گورنر راج لگایا گیا۔

بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ انڈیا کے زیر انتظام کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے کا گورنر راج کے دوران یک طرفہ فیصلہ جس میں ریاست کے سیاسی رہنماؤں اورعوام کی کوئی رائے شامل نہیں تھی انڈیا کے وفاقی نظام پر ایک اور دھبہ ہے۔

یہ دوسری ریاستوں کے ساتھ بھی ہو سکتا ہے‘

کشمیر پر ایک کتاب کی مصنفہ اور بروکنگز انسٹی ٹیوٹ کی سکالر نونیتا چڈھا بہیرا نے بتایا کہ اس اقدام کا سب سے اہم پہلو یہ ہے کہ انڈیا ایک واحدانی طرزِ حکومت کی طرف بڑھ رہا اور جمہوری اصولوں کی پامالی ہو رہی ہے۔ ’اس سے انڈیا کا وفاقی ڈھانچہ کمزور ہو رہا اور لوگ جو اس پر جشن منانے میں مصروف ہیں انھیں اس کے دور رس اثرات کا کوئی خیال نہیں ہے۔‘

‘سب سے زیادہ تشویش ناک بات ہے کہ یہ کسی اور ریاست کے ساتھ بھی ہو سکتا ہے۔ وفاقی حکومت کس بھی ریاستی حکومت کو معطل کر سکتی ہے، سارے مشاورتی نظام کو ایک طرف رکھ کر کسی بھی ریاست کو تقسیم کر سکتی ہے اور اس کی حیثیت کم کر سکتی ہے۔‘

کشمیر کی صورتحال

انڈیا میں بی جے پی حکومت نے آرٹیکل 370 کا حاتمے کرتے ہوئے کشمیریوں کی رائے نہیں لی

انھوں نے مزید کہا کہ ’اس کے علاوہ جو چیز پریشان کن ہے وہ یہ ہے کہ حکمراں جماعت کے ان اقدامات کے خلاف مزاحمت بالکل دم توڑ گئی ہے اور معاشرہ، ذرائع ابلاغ، علاقائی جماعتیں یا تو خاموش ہیں یا بہت نحیف انداز میں اس کے خلاف آواز اٹھا رہی ہیں۔’

یمین آئنر کا خیال ہے کہ انڈیا کا آئین لکھنے والوں نے وفاقیت کو انڈیا کی جمہوریت کا بہت اہم تصور کہا تھا لیکن آج اس سوچ کے حامل لوگ سنہ 1947 کے مقابلے میں بہت کم رہ گئے ہیں۔ ان کے مطابق یہ انڈیا کی جمہوریت کے لیے ایک بہت خطرناک بات ہے۔

مودی حکومت کے اس اقدام کے حامیوں کا کہنا ہے کہ شورش زدہ کشمیر کا معاملہ دوسری ریاستوں سے مختلف ہے اور یہاں پر آئین میں ترمیم کرنے سے مشاورتی عمل کرنا بے سود ہوتا۔ اس کے علاوہ مودی کی بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) ایک عرصے سے آئین کی شق 370 کو ختم کرنے کا مطالبہ کرتی رہی ہے اور یہ اس کے منشور میں شامل تھا۔ انھوں نے ہمیشہ اسے مسلمانوں کی اکثریتی ریاست میں انھیں مطمئن اور خوش رکھنے کی کوشش قرار دیا ہے۔

انڈیا میں علیحدگی پسندوں سے مصلحت کرنے کی ایک تاریخ ہے۔

شاید ہی کسی ملک میں ایک علیحدگی پسند رہنما، جس نے ربع صدی تک آزادی کے لیے گوریلہ جنگ کی قیادت کی، وزیر اعلی بن سکتا ہے۔ لیکن ایسا ہوا جب باغی رہنما لادنگا نے شمال مشرقی ریاست میزورم میں انڈیا کی سرکار کے ساتھ سنہ 1986 میں ایک معاہدے پر دستخط کیے اور پھر منتخب ہو کر ریاست کے وزیر اعلی بن گئے۔

یہ بھی پڑھیے

نریندر مودی: ’ہم مسئلے ٹالتے ہیں، نہ پالتے ہیں‘

شق 370 کا خاتمہ: لداخ کے معاملے پر چین ناراض

سمندر پار پاکستانی اور انڈین کشمیر کے بارے میں کیا سوچتے ہیں؟

’انڈیا معاملہ وہاں لے گیا ہے جہاں سے واپسی مشکل ہے‘

ماضی میں انڈین سپریم کورٹ کا مؤقف

اختیارات کی منصفانہ تقسیم اور شمولیت نے انڈیا میں جمہوریت کو مستحکم کیا اور ملک کے استحکام کی ضمانت دی۔

انڈیا کی سپریم کورٹ ماضی میں واضح طور پر کہہ چکی ہے کہ اس حقیقت کے باوجود کہ آئین میں مرکزی حکومت کو زیادہ اختیارات حاصل ہیں اس کا ہر گز مطلب نہیں کہ ریاستی حکومتوں کی حیثیت ضمنی رہ گئی ہے۔

عدالت نے یہ بھی کہا ہے کہ ریاستی حکومتیں ان کو حاصل اختیار میں مکمل طور پر خود مختار ہیں اور مرکز ان میں مداخلت نہیں کر سکتا۔

سپریم کورٹ واضح طور پر یہ بھی کہہ چکی ہے کہ آئین کا بنیادی ڈھانچہ وفاقیت پر قائم ہے۔

اب دیکھنا یہ ہو گا کہ سپریم کورٹ مودی سرکاری کی طرف سے کیے گئے حالیہ اقدامات پر دائر کی جانے والی آئینی درخواست پر کیا موقف اختیار کرتی ہے۔ ڈاکٹر بہیرا کا کہنا تھا کہ یہ ملک کی اعلیٰ ترین عدالت کی آزادی کا ایک امتحان ہو گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32297 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp