ونڈو آف اپرچنٹی (امید کی ایک کرن)۔


گیڈر کی موت آتی ہے تو وہ شہر کی طرف دوڑتا ہے۔ بھارت کے حالیہ اقدامات نے کشمیر کے مسئلے کو ایک مرتبہ پھر دنیا بھر میں نئی جہت کے ساتھ اجاگر کر دیا ہے۔ پاکستان کی بہتر سفارتی حکمت عملی کی بدولت کشمیر کے مسئلے کو لے کر سلامتی کونسل کی سیکیورٹی کونسل نے کشمیر کی صورت حال پر غور کرنے کے لئے ایک غیر رسمی مگر ہنگامی اجلاس بلایا۔ یہ بات بھی اہم ہے کہ اس اجلاس کے انعقاد میں پاکستان کو چین کی بھر پور حمایت حاصل رہی اور مذکورہ اجلاس کا انعقاد چین ہی کی بھرپور کوششں سے ممکن ہوا۔

پاکستان اور بھارت کو اس اجلاس میں شامل نہیں کیا گیا۔ اجلاس کم و بیش دو گھنٹے سے کچھ کم عرصہ تک جاری رہا اور اس دوران بھارتی آئینی ترامیم سے پیدا ہونے والی خطے کی صورت حال اور سرحد کے ساتھ حالیہ بھارتی جارحیت کے جائزے کے ساتھ ساتھ کسی بھی ہنگامی صورت حال کے رونما ہوسکنے کی صورت میں پیدا ہونے والے حالات پر غور کیا گیا۔ اجلاس کے اختیتام پر سلامتی کونسل نے کوئی اعلامیہ جاری نہیں کیا۔ مگر سلامتی کونسل میں چین کے مستقل مندوب نے اجلاس کے بعد صحافیوں سے مختصر ملاقات اور بیان دیا لیکن سوالات لینے سے گریز کیا۔

لہذا سلامتی کونسل کے اجلاس میں جو کچھ ہوا اس کی معلومات اجلاس کے بعد سے ابتک چینی مندوب کے بیان تک ہی محدود ہیں۔ کیونکہ سلامتی کونسل یا اس کے صدر کی جانب سے کوئی باقاعدہ بیان جاری نہیں کیا گیا اور نہ ہی کوئی قرارداد اڈوپٹ کی گئی ہے تو ہمیں اجلاس کی اندرونی معلومات کے لئے چین کے نمائندے کے بیان ہی پر انحصار کرنا ہوگا

چینی مندوب کے بیان کو اگر دیکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ یہ اجلاس پاکستان کے حوالے بہت ہی حوصلہ افزا رہا۔ چینی مندوب کے مطابق اجلاس میں شامل رکن ممالک کو مسئلہ کشمیر پر بریفنگ بھی دی گئی اور کشمیر میں بھارتی آئینی تبدیلی سے پیدا ہونے والی صورت اور موجودہ بھارتی ہنگامی حالات سے سلامتی کونسل اراکین کو آگاہ کیا گیا۔

سلامتی کونسل نے پاک بھارت دونوں کو سلامتی کونسل کی قراردادوں اور باہمی دوطرفہ معاہدوں بشمول شملہ معاہدہ کے تحت پرامن طور پر مذاکرات کے ذریعے مسئلہ کشمیر کے حل پر زور دیا۔ چینی مندوب نے خاص طور پر حالیہ بھارتی آئینی ترامیم پر چین کی تشویش کا اظہار بھی کیا اور لداخ کی الگ حیثیت کو بھی چین کے لئے ناقابل قبول قرار دیا اور اس پر اپنے شدید تحفظات کا اظہار بھی کیا۔ چین کی بھرپور حمایت کے ساتھ پاکستان نے بین الاقوامی سطح پر مسئلہ کشمیر کو لا کھڑا کیا۔ جو یقیناً پاکستان کی بڑی کامیابی ہے۔

بھارتی مندوب سید اکبر الدین نے بھی صحافیوں سے بات کی وہ اس اجلاس کے انعقاد پر کچھ زیادہ خوش نہیں تھے مگر انہوں نے شملہ معاہدہ کے تحت پاکستان کی ساتھ بات چیت کرنے کی بات کی مگر ساتھ ہی بھارت کی پرانی مذاکرات سے راہ فرار والی پالیسی ہی کو مذاکرات کی بنیاد کی طور پر پیش کیا انہوں نے کہا ”سٹاپ دی ٹیررزم ٹو سٹارٹ ٹاکس“ جو در حقیقت مذاکرات سے سیدھا انکار ہے۔

آج جبکہ پاکستان کو کشمیر پر ایک بہت نمایاں سفارتی کامیابی ہو گئی ہے اور بھارت کو باوجود کوشش کے بین اقوامی سفارتی سطح پر سبکی کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ تو اب ایسے ہمیں آگے کیسے بڑھنا چاہیے کیا ہمیں اس پہلی کامیابی ہی پر اکتفا کرکے کامیابی کامیابی کا راگ الاپتے رہنا چاہیے اور موجودہ حکومت بس سینہ ٹھوک کر اس کامیابی کا ڈھنڈورا پیٹتی رہے یا پھر سنجیدہ اور سمجھدار طریقے سے جو سفارتی فتح ہم نے حاصل کی ہے اس بنیاد پر ایک مثبت بیانہ ترتیب دیے تاکہ جو قوت اثر آج ہمیں مہیا ہوئی ہے وہ زائل نہ ہوجائے۔

کم شور اور زیادہ محنت کا اصول ہی ہمارے حالیہ کامیاب بیانیے کو موثر انداز میں دنیا کے سامنے زندہ رکھ پائے گا کشمیر کی صورت حال کس کروٹ جاتی ہے اس کا درست اندازہ تو مقبوضہ کشمیر سے کرفیو اٹھائے جانے کے بعد ہی ہوگا کیونکہ جبھی کشمیری عوام کی تحریک کی سمت کا تعین بھی کیا جاسکے گا۔ پاکستان کو اس بات کا مکمل ادراک ہونا چاہیے کہ کشمیر میں جاری بھارت مخالف تحریک خالصتاً کشمیری عوام کی اپنی تحریک ہے اب کرفیو پابندیوں کے بعد کشمیری عوام کس طرح اپنی تحریک کی سمت کا تعین کرتے ہیں اور وہ تحریک کیسے آگے بڑھتی ہے تو پاکستان کو بھی اس کے مطابق اپنی کشمیر عوام حمایت کی پالیسی بنانا ہوگی اور اس کے لئے سیاسی اور عسکری اداروں کو ملکر باعمل حکمت عملی مرتب کرنا ہوگی اس کام کے لئے ہمارے اداروں کی پاس وقت آج سے شروع ہوکر مقبوضہ وادی سے بھارتی کرفیو پابندیوں کے اٹھنے تک کا ہے۔

یہ بات طے ہے کہ جونہی بھارت مقبوضہ وادی سے کرفیو ختم کرئے گا تو کشمیری عوام سڑکوں پر احتجاج کر رہے ہوں گے اور وادی میں موجود بھارتی سیکیورٹی فورسز اور فوج کی بڑی تعداد اس احتجاج کو کچلنے کے لئے بالکل تیار ہوگی۔ کیونکہ بھارت نے مقبوضہ وادی کو فلسطین بنانے کا ارادہ کر لیا ہے اور اسرائیل کی طرح فوج کی باقاعدہ موجودگی رکھ کر کشمیری جدوجہد کو ختم کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ بھارت اس جدوجہد کو سرحد پار دہشت گردی کا نام دے کر دنیا کے سامنے اپنے غیر انسانی اقدامات کو جائز قرار دینے کی کوشش کرئے گا اور بھارت نے پہلے بھی ایسا ہی کیا ہے۔ مگر اب جبکہ اس نے اپنے تعیں یک طرفہ آئینی ترامیم سے کشمیر کی ہیئت تبدیل کردی ہے تو بھارت ایسا سمجھتا ہے کہ اسے یہ آئینی حق ہے کہ وہ مقبوضہ وادی میں نام نہاد امن قائم کرنے کے نام پر مظلوم کشمیریوں کی زندگی عزت و آبرو اور جان ومال کو پامال کرے۔

یہی وقت پاکستان کے امتحان کا بھی ہے جس کے ُلئے ہمیں سفارتی داخلی اور عسکری سطح پر ابھی سے صف بندی کرنا ہے تاکہ جو امید کی ایک کرن ہمیں سفارتی راہوں سے میسر آئی ہے اس کرن کو ہم اپنی دانشمندانہ حکمت عملی اور حالات کے مکمل ادراک سے روشنی میں بھی بدل سکتے ہیں اور اگر ضرورت پڑے تو اسی کرن کو جوالہ مکھی بنا کر بھارت کو دھول بھی چٹا سکتے ہیں۔ یہ مسئلہ کشمیر کے پائدار حل کے لئے ایک ونڈو آف اپر چونٹی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).