کارونجھر کی سیر، سہولیات کا فقدان اور تھر پروپیگنڈہ


ننگرپارکر سندھ کا ایک تاریخی مقام ہے جہاں کارونجھر کی چوٹی، بھوڈیسر کی مسجد، جین دھرم کے مندروں سمیت درجنوں تاریخی اور سیاحتی مقامات ہیں۔ لیکن سندھ حکومت نے حسب روایت اس کی ترقی اور سیاحوں کی آسائش کے لیے کوئی خاطر خواہ قدم نہیں اٹھایا ہے۔

صرف ایک ہی ریسٹورنٹ ہے ”روپلو کولہی“ ریسٹورنٹ، جس کے ڈبل بیڈ روم کی یومیہ چارجز چھ ہزار ہیں۔ جہاں عام سیاح ٹھہرنے کا سوچ بھی نہیں سکتا ہے۔ تین دن میں تقریباً تین لاکھ سیاحوں کی آمد ہوئی ہے لیکن ایک بھی پبلک ٹوائلٹ نہیں ہے، لوگوں کو سڑکوں پر رات بسر کرتے دیکھا، فیملیز والے لوگ پتا نہیں کیسے اس جگہ آتے ہیں۔

ایک ہوٹل مالک کا کہنا تھا کہ پہلے اس کے ہاں روزانہ دس کلو آٹا نہیں پکتا تھا لیکن چودہ اگست کے ایک دن میں گیارہ من آٹا پکا ہے۔

شکارپور، سکھر، رانیپور، کراچی اور سندھ کے ہر شہر سے لوگ کارونجھر کا نام سن کر آئے تو تھے لیکن ان کی حالت بتا رہی تھی کہ اس شوق میں انہیں کتنی ذلت کا سامنا کرنا پڑا ہے۔

سندھ حکومت کم از کم اِن دنوں میں پانی کی فراہمی کو یقینی بنائے، پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ پر ہوٹلز اور گیسٹ ہاؤسز تعمیر کروائے، اور اگر لفٹ چیئر جیسی سہولیات فراہم کرے تو سندھ کے لوگوں کو تفریح کا ایک بہترین مقام مل جائے گا ورنہ شاید چند سالوں کے بعد یہ سیاحتی مقام بھی اپنی کشش کھو بیٹھے گا۔

سیاحوں کی دوسری شکایت رینجرز کی خوامخواہ کی روک ٹوک ہے۔ ہزاروں گاڑیوں کی لمبی لائن لگ جاتی ہے، اور نئے ریکروٹ آکر پوچھتے ہیں کیمرا تو نہیں؟ اب ان کو کون سمجھائے کہ جس کے پاس موبائل فون ہے اس کے پاس کیمرا تو ہے ہی، اگر چیکنگ کرنی ہے تو اسلحہ، منشیات چیک کریں، بس ایسے ہی عوام کو تنگ کرنا۔

یہ چیک پوسٹ ویرا واہ کے بجائے ننگرپارکر سے آگے ہونی چاہیے، تاکہ جو کوئی شہر سے آگے بارڈر کی طرف جائے اس کی رجسٹریشن کی جائے اور چیکنگ کی جائے۔

تھرپارکر پروپیگنڈہ اور حقائق۔

تھرپارکر کے بارے میں جو میڈیا پر سنتے ہیں سب بکواس ہے، ننگرپارکر کی تحصیل ہسپتال دیکھ کر حیران رہ گئے، ایسے لگ رہا تھا کہ آغا خان ہسپتال کی برانچ ہے، چار ایمبولینسز ہمہ وقت تیار، پچاس ڈاکٹرز کی ٹیم، ہر قسم کی ویکسین، اسٹینڈ باء جنریٹر اور جدید عمارت۔

بھوک سے بیماری سے بچے مر رہے ہیں، یہ سب پروپیگنڈہ ہے، شاید سندھ کے باقی اضلاع کی نسبت تھرپارکر میں Infant mortality rate سب سے کم ہو، مجھے تو مٹھی، اسلام کوٹ اور ننگرپارکر کے ہسپتال حیدرآباد کے سول ہسپتال سے بہتر نظر آئے۔

کوئلے کے بعد تو تھر کی قسمت جاگ اٹھی ہے، اسلام کوٹ، مٹھی، چیلہار، نوکوٹ اور ڈیپلو کے روڈ دیکھ کر میں کراچی۔ حیدرآباد ہاء وے بھول گیا، سندھ کا واحد شہر مٹھی ہے جو پلاننگ کے تحت بنایا گیا ہے۔ جدید تھر کو دیکھ کر میں سوچ رہا ہوں کہ سانگھڑ والے ابھی بھی پتھر کے دور میں رہ رہے ہیں۔

یہ دیکھ کر بہت افسوس ہوا کہ ماروی کے دیس کے جسمانی طور مکمل صحتمند لوگ ذہنی اپاہج بن چکے ہیں، جس کا علاج شاید ممکن نہیں، میڈیا پر واویلا سے سرکاری اور نجی طور پر ملنے والی امداد نے یہاں کے لوگوں کو ہڈ حرام اور بھکاری بنا دیا ہے۔ اور یہ ان کی نئی نسل کو گھٹی میں مل چکی ہے، جگہ جگہ آپ کو شوق سے بھیک مانگتے بچے نظر آئیں گے۔ ایک گاؤں سے گزر ہوا جہاں پچاس گھروں کی بستی تھی، کوئی ساٹھ کے قریب سرکاری ملازمین تھے، لیکن وہاں بھی درجنوں بچے بھیک مانگتے دیکھے۔

تھرپارکر کے اہل علم و دانش دوست اس مرض پر لکھیں اور قوم کو خود داری سکھائیں۔ تھر کے لوگ خیرات نہیں حقوق کا مطالبہ کریں، تھر کول میں غیر ملکیوں کے بجائے مقامی لوگوں کو ترجیحی بنیادوں پر روزگار دیا جائے، ننگرپارکر کے گرینائیٹ، چائنہ کلے اور چونے کے پتھر پر سانگھڑ کے کسی قاضی یا پنڈی کے ریٹائرڈ افسر سے زیادہ وہاں کے مقامی لوگوں کا حق ہے۔

تھر کے لوگوں کو don ’t give a fish teach them how to fish، جس دن انہوں نے مچھلی پکڑنا سیکھ لی پھر انہیں کسی بیرونی امداد کی ضرورت نہیں ہوگی۔

تھر کے لوگوں کو بھکاری بنانے میں لوکل انتظامیہ، این جی اوز اور لفافہ صحافیوں کا ہاتھ ہے، ورنہ یہاں کے مرد تو مرد خواتین بھی اتنی خود دار تھیں کہ مارئی نے عمر بادشاہ کے تخت پر گنوار منگیتر کو ترجیح دی اور عمر سے شادی سے انکار کر دیا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).