مسئلہ کشمیر، خیابان کشمیر اور احمقوں کی جنت


پندرہ اگست کو پاکستان نے بھارت کا یوم آزادی، کشمیر کی صورت حال کے پیش نظر یوم سیاہ کے طور پر منایا۔ اس دن توقع یہ تھی کہ کم از کم ایک دن کے لیے پاکستانی قوم بھرپور انداز میں کشمیر اور کشمیریوں کے ساتھ اظہار یک جہتی کرے گی۔

وہ نوجوان اسی توقع کے ساتھ گھر سے باہر نکلا تھا۔ اسلام آباد میں ایک آبادی جموں اینڈ کشمیر ہاؤسنگ سوسائٹی کے نام سے موجود ہے۔ اس آبادی کو خیابان کشمیر بھی کہا جاتا ہے۔ وہ یہیں کا رہائشی تھا۔ پندرہ اگست کو وہ گھر سے یوم سیاہ منانے نکلا مگر مایوس ہو کر گھر لوٹ آیا کیونکہ اسے کشمیر کے حوالے سے کوئی سرگرمی دیکھنے کو نہیں ملی تھی۔

مجھے اس نے یہ بات شکستہ لہجے میں شام ڈھلے اس وقت بتائی جب میں اپنے گھر سے بال ترشوانے کے لیے نکلا۔ میں نے اس کو تسلی دی اور حجام کی دکان پر چلا گیا۔ یخ بستہ دکان کا شیشے والا دروازہ کھول کر اندر داخل ہوا تو ایک بھارتی گانے نے بلند آواز میں استقبال کیا۔ نوجوان کی اتری اتری سی شکل میری آنکھوں کے سامنے آ گئی۔ دل کو دھچکا سا لگا۔ افسردگی کے معمولی جذبات لیے آگے بڑھا تو حجام نے نرم فوم کی ملائم نشست پر بیٹھنے کا اشارہ کیا۔ میں نے نشست سنبھال لی۔

ایسا نہیں ہے کہ بھارتی گانوں سے مجھے اللہ واسطے کا بیر ہے مگر اس نوجوان کی دل شکستگی کچھ اس طرح ذہن پر اثر انداز ہوئی کہ بھارتی گانا دماغ پر ہتھوڑے کی طرح برسنا شروع ہو گیا۔

چناچہ جب حجام نے اپنا کام شروع کیا تو میں نے یوم سیاہ اور مقبوضہ کشمیر کی صورت حال پر روشنی ڈالتے ہوئے بھارتی گانے بند کر کے پاکستانی گانے لگانے کا مطالبہ کر دیا۔ اس پر حجام نے برا سا منہ بناتے ہوئے پاکستانی گانوں کو ناقابل اشاعت الفاظ میں سراہا۔ تاہم میں نے نرم لہجے میں ملی نغمے لگانے پر اصرار کیا۔

اتنی دیر میں ایک اور شخص، جو غالباً دکان کا مالک تھا، آگے بڑھا اور اس نے یو ٹیوب پر چلنے والے گانے بند کر دیے ساتھ ہی حجام کو تنبیہ بھی کی کہ کبھی بغیر موسیقی کے بھی بال تراش لینے چاہئیں۔ حجام نے مزید برا منہ بنایا اور کنگھا قینچی سنبھال لیے۔

اس صورت حال کو دیکھتے ہوئے میں ہوشیار ہو گیا کہ اپنی سبکی کا بدلہ یہ حجام ممکنہ طور پر میرے بالوں سے لے سکتا ہے۔ حجام کے چہرے کے تاثرات بالکل اس مجاہد کی مانند تھے جس کے سامنے کوئی نہتا بھارتی فوجی آ گیا ہو۔

دس منٹ تک سکون سے قینچی چلانے کے بعد بالآخر حجام سے رہا نہ گیا اور وہ دوبارہ یو ٹیوب کھول بیٹھا۔ چند ہی لمحوں میں وہاں استاد امانت علی خان کا ”اے وطن پیارے وطن پاک وطن“ بلند آواز میں گونج رہا تھا۔ ماحول یک لخت انتہائی محب وطن ہو گیا۔

میری نظریں ہنوز حجام کے چہرے کے تاثرات کا جائزہ لے رہی تھیں اور حجام کے لبوں پر معنی خیز مسکراہٹ تھی۔ مجھے اندازہ ہو گیا کہ جذبہ حب الوطنی کا سمندر محض میرے ہی اندر ٹھاٹھیں مار رہا تھا۔ میں مزید ہوشیار ہو گیا۔

اگلا نغمہ اتنا پرجوش اور جذبہ حریت و حب الوطنی سے معمور تھا کہ میری توجہ حجام کے چہرے سے ہٹ کر نغمے پر منتقل ہو گئی۔ حجام کو گویا موقع ہاتھ آ گیا۔ ماہرانہ انداز میں بالوں کی ایک سائیڈ اس مشاقی سے ترشی کہ دوسری سائیڈ سے یکسر مختلف ہو گئی۔ میں دھیان نہ دے سکا کیونکہ میرا دھیان تو ایک دن جنت ارضی میں داخلے کی خوش خبری کی جانب تھا۔

نغمہ ختم ہوا لیکن میری محویت ختم نہ ہو سکی کیونکہ اگلا گانا فلک شگاف نعرہ تکبیر سے شروع ہوا اور اللہ اکبر کے نعرے نے جسم میں سنسنی کی لہر دوڑا دی۔ اس تیز رفتار نیم ملی نیم جنگی نغمے نے جذبات میں ہلچل مچا دی اور اسی ہلچل میں حجام نے اپنا کام ختم کر لیا۔ ساتھ ہی پانی لگا کر بالوں کو اچھی طرح سر پر جما دیا تاکہ حجام کی ماہرانہ کارروائی مجھ پر آشکار نہ ہو سکے۔ حجام کو اس کی محنت کا معاوضہ بمہ ٹپ دے کر میں خوشی خوشی گھر چلا آیا۔

جب گھر آ کر غسل کے بعد بال خشک ہوئے اور آئینے کے سامنے بالوں کو سنوارنے کی غرض سے کھڑا ہوا تو معلوم ہوا کہ حکومت پاکستان کی ہدایت پر یوم سیاہ منانا مہنگا پڑ گیا ہے اور میرے بال لائن آف کنٹرول کے آر پار کشمیر کی طرح آزاد اور مقبوضہ کا منظر پیش کر رہے ہیں۔ تب مجھے اپنے محلے دار نوجوان کی تکلیف کا حقیقی معنوں میں احساس ہوا۔

یہ احساس بھی جڑ پکڑنے لگا کہ پاکستان میں عوام کی اکثریت مسئلہ کشمیر اور اس سلسلے میں اٹھائے جانے والے حکومتی اقدام سے یکسر لاتعلقی اختیار کر چکی ہے۔ وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں کشمیر کے نام پر قائم ہاؤسنگ سوسائٹی میں ہی کشمیر سے متعلق کوئی گرم جوشی دکھائی نہیں دے رہی تو باقی ملک کا کیا حال ہو گا۔ شاید پاکستانی قوم احمقوں کی جنت سے فوری طور پر باہر نکل آئی ہے۔
بہرحال حکومت پاکستان تو مسئلہ کشمیر کو اقوام متحدہ کی سیکیورٹی کونسل میں لے جا چکی لہٰذا اس کو تو چھوڑیں۔ آپ مجھے یہ بتائیں کہ میں اپنے بالوں کا مسئلہ لے کر کہاں جاؤں؟

اویس احمد

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

اویس احمد

پڑھنے کا چھتیس سالہ تجربہ رکھتے ہیں۔ اب لکھنے کا تجربہ حاصل کر رہے ہیں۔ کسی فن میں کسی قدر طاق بھی نہیں لیکن فنون "لطیفہ" سے شغف ضرور ہے۔

awais-ahmad has 122 posts and counting.See all posts by awais-ahmad