سترہ اگست یوم تشکر منائیں یا یوم سیاہ فیصلہ باقی ہے


جنرل ضیاء الحق گیارہ سال تک پاکستان اور پاکستانیوں کے ساتھ کھلواڑ کرتا رہا کبھی مذہب کے نام پر تو کبھی ملکی معیشت کی بہتری، ملکی خود داری کے نام پر، مگر اس نے گیارہ سال ملک و قوم کو زیادہ تر مذہب اور جہاد کے نام پر جو گزند پہنچائی جو زخم دیے ان کی بھرپائی آج تک ممکن نہ ہو سکی۔ آج سترہ اگست ہے اورضیائی آمریت سے نجات پانے پر یومِ تشکر منانے کا دن مگر ابھی وہ زخم ہی مندمل نہ ہو سکے ہیں کہ ایک اور سترہ اگست سامنے آ کھڑا ہوا ہے۔

ابھی کھل کر اللہ سے ایک عفریت سے نجات پر شکر ہی ادا نہیں کر پائے تھے کہ ایک اور آفت نے ملک کو اپنی جکڑ میں لے لیا۔ اس بار ضیاء الحق چہرہ رنگ ڈھنگ ننگ سب کچھ بدل کر ایک جدید روپ لے کر اقتدار میں آیا، اس بار وہ نازی ازم اور آر ایس ایس کے نظریات سے متاثر اور ان کے طرز حکمرانی ان کے فسطائی ہتھکنڈوں سے لیس ہوکر قوم پر مسلط کیا گیا ہے۔ اس بار نیا ضیاء الحق مودی سے متاثر ڈونلڈ ٹرمپ کا دلدادہ ایک نیا مذہبی شوشا چھوڑ کر میدان میں اترا ہے۔

ریاست مدینہ کا شوشا، اب ریاست مدینہ کا تصور تو صرف خلافتِ راشدہ سے ہی ہے، مگر خلافت راشدہ میں بھی مدینہ اور کوفہ دارالخلافہ رہے مگر مدینہ پاک کی حیثیت اپنی جگہ مسلمہ رہی۔ خلافت راشدہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی شھادت کے ساتھ ہی اختتام پذیر ہوئی اور خلافت امیہ کا دور شروع ہوا۔ اس خلافت کا پہلا خلیفہ معاویہ بن ابوسفیان تھا دارالخلافہ دمشق تھا مگر مدینہ کی حیثیت وہی تھی جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں تھی۔

آج پھر صدیاں بیت جانے کے بعد امیر المومنین ضیاء الحق کے جہاں بدر ہو جانے کے ٹھیک تیس برس بعد ایک اور شخص خلافت کا علم بلند کرکے مدینہ کی ریاست بنانے کا دعویدار ہوا ہے اور اس بار امیر المؤمنین بننے کا خبط عمران خان نیازی صاحب کے دماغ میں پیدا ہوا ہے۔ اب خان صاحب پہلے تو یہ طے کریں کہ وہ کون سی ریاست مدینہ بنانے چلے ہیں خلافتِ راشدہ والی یا عمر بن عبد العزیز کو چھوڑ کر خلافتِ امیہ والی، طرز حکمرانی تو خلافتِ امیہ والی دکھ رہی ہے، وہی چال ڈھال، وہی مطلق العنانی۔

ضیاء الحق بھی پاکستان کو ایشین ٹائیگر بنانے، ملک میں اسلامی نظام نافذ کرنے کے دعوے اور وعدے کرکے اقتدار پہ قابض ہوا تھا اور آج سے ایک سال پہلے عمران خان صاحب بھی ملک کو ماڈرن اسلامی ریاست مدینہ بنانے اور اسے دنیا کی سب سے تیز رفتار ترقی کرنے والی قوم بنانے کے دعوے اور وعدے کر کے ملک پہ مسلط کیے گئے۔ اسلامی کارڈ ضیاء الحق نے بھی کھیلا اور وہی اسلامی کارڈ مزید جدیدیت کے ساتھ نیازی صاحب بھی کھیل رہے ہیں۔

دونوں راجوں میں فرق صرف ٹیکنالوجی کا ہے۔ تیس سال پہلے سوشل میڈیا نہیں تھا اور آج اس جعلی ریاست مدینہ کے خواب کو ایکسپوز کرنے کے لئے سوشل میڈیا کی ننگی تلوار سروں پہ لٹک رہی ہے۔ 1977 میں بھی قوم کے مذہبی جذبات ابھار کر اقتدار کو طول دیا گیا تھا تو آج بھی مودی، آر ایس ایس، نازی ازم مذہبی انتہا پسندی، جنونیت کا چورن بیچ کر عوام کی توجہ اپنے حقیقی مسائل اور مشکلات سے ہٹانے کی کوششیں ہو رہی ہیں۔ ضیاء الحق کے گیارہ سال پاکستان اور پاکستانیوں پر تین دہائیوں کے بعد بھی اپنے اثرات کم نہیں ہونے دے رہے تھے اب خان صاحب اس میں چار چاند لگانے برسرِ اقتدار آ گئے۔

جنرل ضیاء الحق نے پاکستانیوں کی مذہب سے والہانہ وابستگی اور حب الوطنی کی نازک رگ پہ ہاتھ رکھ کر کر انہیں جذباتی بلیک میل کیا جبکہ خان صاحب نے بھی اب وہی روش اختیار کرنا شروع کردی ہے۔ وہ کرپشن اور کرپٹ لوگوں سے لوٹ مار کے 200 سؤ ارب ڈالر واپس ملکی خزانے میں جمع کرنے کا وعدہ کرکے، عوام کو ایک کروڑ نوکریاں، پچاس لاکھ گھر دینے کے وعدے کے ساتھ ملک کو مدینہ کی طرز کی ریاست بنانے کے دعوے کرکے اقتدار میں آئے، ایک ایسی ریاست کہ جس میں حاکم اور رعایا سب برابر قانون کو جوابدہ ہوں گے، جہاں کوئی بھی ریاست کے والی سے یہ پوچھنے کا حق رکھتا ہوگا کہ اس کے پاس یہ پرتعیش طرز زندگی گزارنے کے ذرائع کہاں سے آئے، جہاں ہر چور صرف چور ہی ہوگا۔

وہ ریاست مدینہ ہوگی جس میں ایک عام مسلمان کھڑا ہوکر خلیفہ حضرت عمر فاروق رض سے سوال کر سکتا تھا کہ ان کے پاس کرتا بنانے کے لئے اضافی کپڑا کہاں سے آیا؟ اور خلیفہ اس عام آدمی کو منبر پہ کھڑا ہوکر وضاحت پیش کرتے تھے کہ انہیں کرتا بنانے کے لئے اضافی کپڑا ان کے بیٹے نے اپنے حصے سے دیا ہے۔ سبحان اللہ یہ تھی خلافت راشدہ میں ریاست مدینہ کے قانون انصاف خوف خدا اور اپنی رعایا سے برابری کے سلوک کی ایک چھوٹی سی مثال۔

آج خان صاحب نے پاکستان کی وہ حالت کردی ہے جس کو کرنے کے لئے ضیاء الحق کو گیارہ برس لگ گئے۔ انسانی، اخلاقی، جمہوری، اسلامی قدریں حقوق کی ایسی بدترین صورتحال پاکستان میں اس سے پہلے صرف 1977 سے اگست 1988 تک رہی۔ آج جب ضیاء الحق کو روحانی پیشوا اور باپ ماننے والے بھی اس سے لاتعلق ہوچکے ہیں تو ایسے میں ان کا ایک نیا روحانی وارث عمران خان کی شکل میں ملک پہ برسرِ اقتدار آ گیا ہے، اور صرف ایک برس میں گمنامی کے اندھیروں میں گم ہوچکے ضیاء الحق کو ایکبار پھر موضوعِ گفتگو بنا ڈالا۔

خان صاحب کے اقتدار کے اس ایک سال میں پاکستان نے کیا کھویا کیا پایا اگر اس بحث میں پڑیں گے تو شاید لکھنے کے لئے لفظ کم پڑ جائیں بس اتنا کہیں گے کہ ضیاء الحقِ دوئم کے ایک سال میں پاکستان نے صرف کھویا ہے، پایا کچھ بھی نہیں۔ خان صاحب نے انتخابات سے پہلے اپنے منشور میں گیارہ نکات کا اعلان کرتے ہوئے پہلے نمبر پر تعلیم کو رکھا اور فرمایا کہ کوئی بھی قوم تعلیم یافتہ ہوئے بغیر ترقی نہیں کر سکتی، وہ ملک میں یکساں نظام تعلیم نافذ کریں گے۔

مگر اپنے پہلے ہی بجٹ میں تعلیم کا بجٹ ہی کم کردیا گیا، تعلیم اٹھارویں ترمیم کے بعد صوبائی معاملہ ہے لہذا یکساں نظام تعلیم کا نفاذ بھی انتخابی نعرہ بن کے صفحوں میں کہیں گم ہوگیا۔ صحت کو خان صاحب نے دوسرے نمبر پہ رکھا اور ایسے ہسپتال بنانے کے دعوے کیے جہاں عالمی معیار کا علاج مفت مل سکے گا مگر کے پی کے جہاں وہ پچھلے چھ سال سے برسرِ اقتدار ہیں صرف پشاور کا لیڈی ریڈنگ اسپتال ہی درست نہیں کر سکے اسے ملکی معیار کے مطابق بھی نہیں بنا سکے۔

ان کے دیگر نکات میں ٹیکس اصلاحات، کرپشن کا خاتمہ، سرمایہ کاری میں اضافہ، روزگار اور چھت فراہم کرنے دعوے، زرعی ایمرجنسی لگانے، شوگر مافیا کو کنٹرول کرنے کی بھڑکیں، جنوبی پنجاب کو صوبہ بنانے کا دعوا، ایک ارب درخت لہلہانے کے بعد مزید دس ارب درخت لگانے کا اعلان، انصاف کی فراہمی اور پولیس اصلاحات لانے اور خواتین کو خواندہ بنانے کے بلند و بانگ دعوے شامل تھے، مگر چشم فلک نے دیکھا کہ اُنہوں نے اپنے ایک بھی نکتے پہ عمل نہیں کیا ماسوائے اپنے مخالفین کو کرپشن الزامات کے تحت جیلوں میں ڈال کر انہیں بدترین انتقام کا نشانہ بنا کر اپنے بیانئے کی کامیابی کا ڈھول پیٹنے کے، پچھلے ایک سال میں انہوں نے پاکستان کو کئی دہائیاں پیچھے دھکیل دیا۔

ان کے اقتدار کے ایک سال میں ہنڈریڈ انڈیکس 45 ہزار سے 28 ہزار پہ آگیا، جی ڈی پی 6 فیصد سے ڈھائی فیصد تک گرگیا، پیٹرول 74 روپے سے 119 کی سطح پہ پہنچ گیا جبکہ ڈالر بھی ریکارڈ توڑتا ہوا 123 روپے 160 کی سطح عبور کرگیا۔ خان صاحب کی فرشتوں سادھو سنتوں پہ مشتمل حکومت نے مہنگائی کی شرح 8 فیصد سے دوگنی کردی، جبکہ قرضوں کی مد میں دس ہزار ارب روپے کا اضافہ کرکے اگلی پچھلی تمام سابقہ تاریخیں ہی بدل ڈالیں، ٹیکس کی شرح میں دوگنے اضافے کی دعویدار خان صاحب کی حکومت اپنے پہلے ہی امتحان میں ناکام ہوگئی اور 380 ارب روپے کے شارٹ فال نے ان کے تمام دعوے زمین بوس کر دیے۔

انہوں نے اپنے دوستوں یاروں کو نوازنے میں اقربا پروری کی نئی تاریخ رقم کردی کتنوں کو مشیر تو کئی معاونین خصوصی بنادیئے گئے، جہانگیر ترین کو نوازنے کے لئے ملک میں بننے والی چینی پہ اضافی اور ظالمانہ ٹیکس لگا کر چینی کی قیمت میں بائیس روپے فی کلو اضافہ کردیا گیا۔ اپنے وزراء مشیران کے بہن بھائیوں کی مختلف اہم قومی اداروں میں میرٹ کے برخلاف تقرریاں کی جا رہی ہیں، کوئی ادارہ ایسا نہیں ہے جو تنزلی کی جانب گامزن نہ ہو، یہاں تک کہ جسٹس ارشد ملک کے واقعے سے یہ تاثر ابھرنے لگا کہ عدلیہ کو بھی طاقتور کے آگے سرنگوں کروا دیا گیا۔

مودی اور ڈونلڈ ٹرمپ کے ساتھ مل کر کشمیر کا ڈرامہ اس طرح رچایا گیا کہ پاکستانیوں سمیت کشمیریوں کو بھی پہلی بار یہ احساس ہو گیا ہے کہ ہمارے ساتھ کیا کھیل کھیلا گیا۔ اوراس طرح خان صاحب نے تین سال قبل کشمیر کے بتائے حل کی جانب عملی قدم اٹھاکر اپنے اقتدارِ کا پہلا سال مکمل کیا۔ خان صاحب کے اقتدار کا پہلا برس مکمل ہوا اور سوچنے پہ مجبور کر گیا کہ سترہ اگست آئندہ آنے والے برسوں میں ضیاء الحق سے نجات ملنے کی خوشی میں یوم تشکر کے طور پر منائیں یا ایک اور ضیاء الحق کے برسرِ اقتدار آنے پر بطور احتجاج یوم سیاہ کے طور پر مگر یہ تو طے ہے کہ سترہ اگست پاکستان کی سیاسی تاریخ کی ایک اہم تاریخ کے طور منائی جائی گی اب دیکھتے ہیں یوم سیاہ منانے والے زیادہ ہوتے ہیں  یا یوم تشکر منانے والے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).