مسئلہ کشمیر میں ماونٹ بیٹن کا کردار


ماؤنٹ بیٹن ہندوستان کے آخری وائسرائے کی حیثیت سے مارچ 1947 ءمیں دہلی پہنچے تو کیمبل چانسن ان کے پریس اتاشی کی حیثیت سے ہمراہ تھے۔ انھیں وائسرائے کی قربت بھی میسر تھی اور خصوصی اعتماد بھی، چنانچہ انھوں نے اپنی کتاب ”مشن ود ماؤنٹ بیٹن“ میں ان تاریخ ساز دنوں کے قریبی مشاہدے کا روزنامچہ پیش کیا ہے۔ کشمیر کے بارے میں کیمبل جانسن کے روزنامچے کے متعلقہ حصے خاصی اہمیت کے حامل ہیں۔ ان سے ایک طرف تو الحاق کشمیر کی لمحہ بہ لمحہ صورت حال سامنے آتی ہے اور دوسری طرف ماؤنٹ بیٹن اور ان کے عملے کے رجحانات پر روشنی پڑتی ہے۔

***    ***

وائسرائے ہاؤس۔ نئی دہلی۔ 26 مارچ 1947 ء

۔ فروری میں والیان ریاست کے ساتھ سات روزہ مذاکرات میں نہرو نے کم از کم پانچ مرتبہ اس امر کا اعادہ کیا تھا کہ کانگریس اور ریاستوں کے مابین طے پانے والے معاہدوں کی نوعیت رضاکارانہ ہو گی نیز یہ کہ کانگریس کسی ریاست پر اپنی مرضی مسلط کرنے کا ارادہ نہیں رکھتی تاہم والیان ریاست ایک کٹھن دوراہے پر کھڑے ہیں۔ رقبے کے لحاظ سے سب سے بڑی ریاست کشمیر بھی مشکل صورت حال سے دوچار ہے۔ مہاراجہ کشمیر کے لیے یقینا اس خیال میں خاص کشش ہے کہ وہ جناح کے ساتھ اپنی قسمت وابستہ کرے۔

وائسرائے ہاؤس۔ نئی دہلی۔ 23 جون 1947 ء

ماؤنٹ بیٹن نے دورہ کشمیر کے دوران (جس سے وہ آج ہی دہلی لوٹے ہیں ) بنفس نفیس مشاہدہ کیا ہے کہ والیان ریاست اپنی کمزور قوت فیصلہ کے ہاتھوں کس حد تک مفلوج ہیں۔ نہرو اور گاندھی دونوں مہاراجہ کشمیر کو یک طرفہ اعلان خود مختاری سے روکنے کے لیے خاصے مضطرب ہو رہے تھے نہرو بار بار دباؤ ڈال رہے ہیں کہ وہ اپنے دوست اور سٹیٹس کانگریس کے صدر شیخ عبداللہ کی رہائی ممکن بنانے کے لیے بذات خود کشمیر کا دورہ کریں۔ گاندھی کا نقطہ نظر یہ ہے کہ وہ انھیں خود جا کر نہرو کے دورے کے لیے راستہ ہموار کرنا چاہیے۔ مہاراجہ نے صاف کہہ دیا ہے کہ وہ دونوں میں سے کسی کے دورے کا بھی خیر مقدم نہیں کریں گے۔ ماؤنٹ بیٹن نے یہ کہہ کر گاندھی اور نہرو کا ارادہ التوا میں ڈال دیا کہ انھیں کافی عرصہ پہلے دورہ کشمیر کی دعوت مل چکی ہے۔ چنانچہ خود کشمیر جا کر مہاراجہ سے ملاقات کریں گے۔

جب وہ وہاں پہنچے تو انھوں نے محسوس کیا کہ مہاراجہ سیاسی امور پر گفتگو کرنے سے پہلوتہی کرتا ہے۔ ان کے درمیان کوئی بات چیت صرف کار پر ایک ساتھ سفر کے دوران ہو سکی۔ ماؤنٹ بیٹن نے ان مواقع پر مہاراجہ اور ان کے وزیر اعظم پنڈت کاک پر زور دیا کہ وہ آزادی کا اعلان نہ کریں بلکہ جلد از جلد کسی نہ کسی شکل میں عوام کی مرضی معلوم کر کے 14 اگست تک اپنے ارادے کا اعلان کریں اور اسی کے مطابق ہندوستان یا پاکستان کی دستور سازاسمبلی میں اپنے نمائندے بھیج دیں۔

لارڈ ماؤنٹ بیٹن نے ان سے یہ بھی کہا کہ بھارت کا محکمہ ریاستی امور یہ یقین دلانے کے لیے تیار ہے کہ کشمیر نے اگر پاکستان سے الحاق کا فیصلہ کیا تو وہ اسے غیر دوستانہ فعل قرار نہیں دے گا۔ ماؤنٹ بیٹن نے زور دے کر کہا کہ اقتدار کی منتقلی تک کشمیر دونوں مجوزہ مملکتوں میں کسی ایک کی حمایت حاصل کرنے سے محروم رہا تو انتہائی خطرناک صورت حال سے دوچار ہو جائے گا۔ ماؤنٹ بیٹن کا ارادہ تھا کہ وہ مہاراجہ کو یہ مشورہ تنہائی میں دیں بعدازاں ایک مختصر سی باقاعدہ کانفرنس یہ مشورہ دہرایا جائے اس کانفرنس میں مہاراجہ کے وزیر اعظم، وائسرائے کے پرائیویٹ سیکرٹری جارج ایبل اور ریذیڈنٹ کشمیر کرنل ویب کی شمولیت متوقع تھی۔

مہاراجہ نے تجویز پیش کی کہ پریس کانفرنس وائسرائے کے دورہ کے آخرمیں منعقد کی جائے۔ ماؤنٹ بیٹن نے یہ تجویز اس خیال سے منظور کر لی کہ مہاراجہ کو فیصلہ کرنے کے لیے زیادہ وقت مل جائے لیکن جب کانفرنس کا وقت آیا تو مہاراجہ نے کہلا بھیجا کہ وہ درد قولنج کی وجہ سے صاحب فراش ہیں اور کانفرنس میں شریک نہیں ہو سکتے۔ معلوم ہوتا ہے کہ مہاراجہ جب کسی پیچیدہ مسئلہ پر بات چیت سے گریز کرنا چاہتا ہے تو بیماری کا عذر پیش کر دیتا ہے۔

شوبرا۔ شملہ۔ 30 اگست 1947 ء

۔ اسمے تعطیلات گزارنے کے لیے کشمیر روانہ ہو گئے ہیں۔ ماؤنٹ بیٹن نے ان سے کہا ہے کہ وہ مہاراجہ کو قائل کرنے کی ہر ممکن کوشش کریں کہ وہ گومگو کی حالت چھوڑ کر بغیر کسی التوا کے اپنی اور اپنے عوام کی خواہش کے مطابق کسی ایک مملکت سے الحاق کا اعلان کر دے تاکہ کشمیر کو درپیش بے یقینی اور خطرناک حد تک غیر مستحکم صور تحال کا خاتمہ ہو سکے۔

گورنمنٹ ہاؤس۔ نئی دہلی۔ 28 اکتوبر 1947 ء

ہم رات ایک بجے کراچی سے پالم ائیر پورٹ پر پہنچے جہاں ورنن اس خبر کے ساتھ موجود تھے کہ پیر کی صبح سے ہندوستانی افواج کشمیر میں اتاری جا رہی ہیں۔ پونے تین بجے کے قریب میں سونے ہی والا تھا کہ میجر جنرل پیٹ ریس نے آ کر اطلاع دی کہ ماؤنٹ بیٹن مجھے کشمیر کی تازہ ترین صور تحال سے آگاہ کرنا چاہتے ہیں۔ ماؤنٹ بیٹن نے بتایا کہ حالات سنجیدہ ہو گئے ہیں۔ پہلی سکھ بٹالین کے 330 جوانوں کو سرحد ی قبائلیوں کا بڑا حملہ روکنے کے لیے وادی میں اتارا گیا ہے۔

قبائلی لشکر بڑی تیزی سے گرمائی دارالحکومت سری نگر کی طرف بڑھ رہا ہے۔ ماؤنٹ بیٹن خاصے مضطرب تھے کہ میں علی الصبح صحافیوں کے ساتھ اپنے رابطے شروع کر دوں چنانچہ انھوں نے مناسب خیال کیا کہ مجھے اس بحران کے بنیادی حقائق سے روشناس کر دیا جائے۔ یہ آتش فشاں اس وقت پھٹا جب ہم لندن سے دہلی کے لیے محو پرواز تھے۔ مجھے صرف اتنا علم تھا کہ اوائل ستمبر میں کشمیر حکومت اور پاکستان کے مابین نوزائیدہ تعلقات میں کچھ رخنہ آ گیا تھا۔

انتقال اقتدار اور الحاق کی معیاد سے تین روز قبل کشمیر نے بھارت اور پاکستان دونوں کے ساتھ معاہدہ ہائے جاریہ پر دستخط کرنے کا ارادہ ظاہر کیا تھا۔ اس کے بعد سے ہندوستانی حکومت کی پالیسی رہی ہے کہ کشمیر کو بھارت سے الحاق پر اکسانے سے احتراز کیا جائے۔ بلکہ پٹیل کی رہنمائی میں وزارت ریاستی امور نے یہ فیصلہ بھی کیا کہ کوئی بھی ایسا قدم اٹھانے سے گریز کیا جائے جس سے حکومت کشمیر کو کسی امر پر مجبور کرنے کا مفہوم نکلتا ہو۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3 4 5 6 7